مکہ مکرمہ کا حادثہ جانکاہ اور جھبوا کا دھماکہ

گزشتہ جمعہ ،11ستمبرکوحرم کعبہ میں ایک المناک واقعہ پیش آیا جس میں اب تک کوئی 111عازمین حج وفات پاچکے ہیں۔ان میں 11ہندستانی ہیں۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔ زخمیوں کی تعداد 394تھی۔ ان میں سے 158؍ابھی زیرعلاج ہیں۔ اندیشہ ہے کہ بعض زخمی مناسک حج بھی ادا نہیں کرپائیں گے۔ لیکن جیسا کہ شیخ عبدالرحمٰن السدیس، امام حرم کعبہ نے فرمایا ہے اﷲ تعالٰی ان کو نیت کا اجرضروردیگا۔ انشاء اﷲ۔حکومت سعودیہ نے اعلان کیا ہے کہ ان کو آئندہ سال شاہی مہمان نے طور پر حج کی سہولت دی جائیگی۔

یہ حادثہ اس وقت پیش آیا جب آسما ن ایک شدید طوفان سے گردآلود تھا۔ بجلی کڑک رہی تھی۔ تیز طوفانی ہوائیں چل رہی تھیں۔زمین پر چلنا دشوارتھا۔کاریں تک اڑی چلی جارہی تھیں۔ اس قیامت خیزصورتحال کے دوران ایک دیوقامت کرین جو حرم کعبہ کی عمارت کے باہر احاطہ میں کھڑی تھی، ایک طرف کو جھکی اورگرتی چلی گئی۔ بظاہر اس کا ہائڈرولک نظام گڑبڑا گیا تھا۔ کرین کا وزنی بالائی حصہ خانہ کعبہ کے گرد کثیرمنزلہ عمارت کی ایک چھت سے ٹکرایا۔ شدت ضر ب سے چھت ٹوٹ گئی اوربہت سے افراد ملبہ کی زد میں آگئے۔ حادثہ پیش آیا تو ہرطرف سے کلمہ کی صدائیں گونجنے لگی۔

یہ کرین ایک بین اقوامی فرم ’لبہر‘ نے جرمنی میں واقع اپنی فیکٹری میں بنا کرسپلائی کی تھی ۔ لبہر بڑی بھاری کرین بنانے میں مہارت رکھتی ہے۔ بظاہر کسی تکنیکی خرابی کا امکان شاذ ہے۔ابتدائی تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ تعمیراتی کمپنی ’بن لادن گروپ ‘ سے کچھ چوک ہوئی اور حسب ضابطہ احتیاط سے کام نہیں لیا۔ حکومت اس کے خلاف تادیبی کاروائی کررہی ہے ۔مگر یہ الگ پہلو ہے۔ جو جانی نقصان ہونا تھا ، ہوگیا۔جان جس کی جانی تھی، چلی گئی۔ اس کو کون ٹال سکتا تھا؟

یہ غیرمعمولی سماوی طوفان اوراس میں وہاں موجود درجنوں کرینوں میں سے ایک کا گر جانا، حادثے کے ظاہری وجوہ ہیں۔ انسان یہ سمجھتا ہے کہ اس نے زمین اور آسمان کو مسخرکرلیا ہے۔فلک بوس عمارتیں کھڑی کرلیں۔عظیم الشان سانئسی فتوحات اور انکشافات میں وہ اپنی بڑائی تلاش کرنے لگتا ہے اور خالق کائنات کی قدرت اورقوت سے بے گانہ ہوجاتا ہے۔ وہ یہ بھول جاتا ہے کہ انسان کی لاکھ تدبیریں اپنی جگہ ، مگرجب قضا وقدر کا فیصلہ آن پہنچتا ہے، سب تدبیریں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں اور انسان بے بس ہوجاتا ہے۔

اس سانحہ پر مجھے ایک سبق آموز واقعہ یادآگیا۔ جون 1980 میں ایک ہوائی حادثہ میں اس وقت کی وزیراعظم اندراگاندھی کے سیاسی وارث ان کے چھوٹے بیٹے سنجے گاندھی کی موت ہوگئی۔ بظاہر یہ حادثہ خود سنجے کی بے اعتدالیوں کا نتیجہ تھا۔ میں نے ہفت روزہ دعوت ، نئی دہلی میں طویل اسٹوری لکھی اورسرخی لگائی ’’کیا سنجے گاندھی کو بچایا جاسکتا تھا۔‘‘محترم محمدیوسف (رام پوری ) مرحوم،اس زمانے میں جماعت اسلامی ہند کے امیرتھے۔ نماز عصر میں مسجد میں مجھے دیکھا تورک گئے اورباتیں کرتے ہوئے اپنے ساتھ اپنے دفتر میں لے آئے۔ وہاں ٹیبل پر تازہ ہفت روزہ دعوت رکھا ہوا تھا۔ مرحوم نے اسٹوری کی تحسین فرمائی۔ میں خوش ہوا۔پھر پوچھا ’’سرخی کس نے لگائی؟‘‘۔ میں نے عرض کیا: ’’ میں نے‘‘۔ نہایت تاسف سے فرمایا: ’’نہیں، ہمارایمان ہے کہ قضا وقدر کا فیصلہ اٹل ہے۔ اس کو کیسے ٹالا جاسکتا تھا؟‘‘اگرکرین نہ بھی گرتی تو موت کچھ اوربہانا تلاش کرلیتی۔

دنیا جانتی ہے کی سعودی حکام حج انتظامات کونہایت چست اوردرست رکھتے ہیں۔اس کے باوجودحج کے دوران پہلے بھی حادثات پیش آئے ہیں۔اگرکہیں کوئی چوک ہوتی ہے تو اسکی اصلاح کی تدابیر کی جاتی ہیں۔ اس بارچوک یہ ہوئی کہ تعمیری کام میں وقفہ کے باوجود کرینوں کو حرم کے احاطہ سے ہٹانا نہیں گیا ۔اس وجہ ایسا حادثہ پیش آسکتا ہے،شاید کسی کے گمان میں بھی نہیں ہوگا۔ طوفان بھی ایسا آیا کہ خدا کی پناہ۔ اس پربھی بعض افراد نے محض مسلکی عصبیت میں گرفتار ہوکرسعودی حکام کو مطعون کرنا حق بجانب جانا۔ بہرحال انسان اپنی فطرت و نسبت سے مجبور ہے۔یہ مشاہدہ عام ہے کہ حج اورعمرہ کے لئے تشریف لانے والے افراد کے ساتھ ان کے مسلک، وطن اورنظریہ کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں برتی جاتی۔چنانچہ سب زخمیوں کا علاج یکساں توجہ سے ہورہا ہے۔ہرایک کے دودولواحقین کو سعودی حکومت ویزااورٹکٹ وغیرہ فراہم کر رہی ہے تاکہ وہ علاج کے دوران وہاں رہ سکیں۔تمام متوفیوں اورمستقل معذور ہوجانے والوں کے لئے دس، دس لاکھ سعودی ریال اورتمام زخمیوں کے لئے پچاس ،پچاس ہزار سعودی ریال امدادکا اعلان ہوا ہے ۔خادم حرمین شریفین شاہ سلمان اورامام حرم کعبہ شیخ عبدالرحمٰن السدیس نے اسپتالوں میں جاجاکر زخمیوں کی عیادت کی ہے۔ اظہار تعزیت کیاہے اور کسی کے ساتھ مسلکی تفریق نہیں برتی۔یہی حق بھی ہے۔ اہل ایمان چاہے ، کسی بھی مسلک کے ہوں، آپس میں بھائی بھائی ہیں۔سب کا غم برابر ہے۔مگر کچھ لوگ مسلکی عصبیت سے متاثرہوکر گمراہ کن باتیں کررہے ہیں۔ اﷲ ہماری حفاظت فرمائے۔ اہل ایمان چاہے کسی بھی مسلک کے ہوں، آپس میں بھائی بھائی ہیں۔سب کا غم برابر ہے۔

بہرحال جن افراد کی اس حادثہ ناگہانی میں موت ہوئی، ہم ان کے ورثا ء کو دل کی گہرائیوں سے تعزیت پیش کرتے ہیں۔ لیکن اس حادثہ میں متوفی اہل اسلام کی قسمت پر ناز بھی کرتے ہیں کہ ان کو حرم کعبہ میں قلب کی انتہائی رقت آمیز کیفیت میں تلاوت، نماز و تلبیہ کی عبادت کے دوران اﷲ نے اپنے پاس بلالیا۔ اس وقت تک تقریبا نولاکھ دس ہزار عازمین حج دنیا کے کونے کونے سے وہاں پہنچ چکے تھے۔ امام حرم کعبہ نے احاطہ حرم شریف میں نماز جنازہ پڑھائی، جس میں بلا مبالغہ لاکھوں اہل ایمان انتہائی خشوع وخضوع سے شریک ہوئے اور متوفیان کے لئے دعائے مغفرت کی۔مکہ کی سرزمین میں مٹی نصیب ہوئی۔جس کی حسرت بہت لوگ کرتے ہیں۔ موت تو برحق ہے۔ زندگی ایک دن ختم ہونی ہے۔ لیکن ایسی موت ، ایسا جنازہ، ایسی نماز، ایسی مٹی اورایسی سعادت نصیب والوں کو ہی حاصل ہوتی ہے کہ حالت احرام میں قضا آئی۔ اگرشریعت محمدی میں موت کی آرزوکرنا مباح ہوتا تو کون صاحب ایمان ہے جوایسی موت کی آرزو نہ کریگا۔تدفین کے وقت خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود موجود تھے۔ انہوں نے اوردیگر حکام بالانے جنازوں کو عام مسلمانوں کے طرح کندھا دیا۔

غالباً یہ نبی کریم ؐ کے آخری حج کو واقعہ ہے ۔ ایک صحابی کی احرام کی حالت میں اونٹنی سے گرکر موت ہوئی۔ آپ ؐ نے فرمایا:’ ان کو بیری کے پتوں کے پانی سے غسل دو۔ دو کپڑوں کو کا کفن دو (احرام میں دو ہی کپڑے ہوتے ہیں) ۔ ان پر خوشبو نہ لگاؤ۔ چہرہ اورسر نہ ڈھکو۔ یہ رو ز قیامت تلبیہ پکارتے ہوئے ہی اٹھائے جائیں گے۔‘‘ (صحیح بخاری: 237)

آکسفورڈ اسلامک سنٹرکے ڈائرکٹراورامام ڈاکٹرحجت رمزی نے بجاطور پر اس سانحہ پر افسوس اورتعزیت پیش کرتے ہوئے کہا ہے، ’’میں ان کو مبارکباد بھی پیش کرونگا جو اس حادثہ میں وفات پاگئے کہ وہ انشاء اﷲ بغیر حساب کتاب داخل جنت ہونگے۔‘‘ ہم ان کے اس گمان پر آمین کہتے ہیں۔

جھبوا کا سانحہ
اس کے چند ہی روز بعد 13ستمبر کومدھیہ پردیش کے قصبہ پٹلاواد ،ضلع جھبوا میں بھی ایک سنگین حادثہ پیش آیا ۔ اس میں بھی کوئی ایک سوافراد مارے گئے۔ اس حادثہ کے تمام متاثرین سے ہم دل کی گہرائی سے تعزیت کرتے ہیں اورملی تنظیموں کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ متاثرین کے امداد کے لئے آگے آئیں۔ مظلوم ومقہور اورمجبور کا مذہب نہیں، اس کی مصیبت کو دیکھنا ہی ہماراشعار ہونا چاہئے۔اس حادثہ میں کئی متاثرین کے لئے کوئی روزی کمانے والا بھی نہیں رہا۔اگرہم یہ چاہتے ہیں کہ اس ملک کی اکثریت کی ہمدردی اور رفاقت ہمیں حاصل ہو تواس کا پہلا اظہار ہمیں اپنی روش سے کرنا چاہئے۔

یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب پٹلاواد قصبہ میں بس اسٹینڈ کے قریب ایک ہوٹل کی تین منزلہ عمارت سے متصل ایک گودام میں دھماکہ ہوا۔دھماکہ اتنا شدید تھا کہ ہوٹل کی عمارت تقریباً پوری زمیں بوس ہوگئی ۔ یہ گودام راجندرکسوا نام کے کسی شخص کا تھاجو کھاد کے کاروبار کی اوٹ میں دھماکہ خیز اشیا کا غیرقانونی دھندہ کرتاتھا۔خبر ہے کہ پولس کو جائے حادثہ سے کچھ ڈیٹونیٹر ملے ہیں۔ 69ڈیٹونیٹر راجندر کے بھائی کے گھرسے ملے ۔ اس کا ایک بڑا بھائی چند سال قبل ایک ایسی ہی دھماکہ میں ماراگیا تھا جو اس کے اپنے گھرمیں ہوا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ سارے بھائی دبنگ ہیں۔دو بھائی بڑی بڑی کوٹھیوں میں رہتے ہیں۔
کانگریس کا کہنا ہے مذکورہ ملزم راجندر کسوا بھاجپا سے وابستہ بیوپاری سنگھ کا سرگرم کارکن اورآرایس ایس کا کارندہ ہے۔ شکایت یہ کی جا رہی ہے کہ ریاستی سرکارکو سب کچھ پتہ تھا، مگروہ نرمی برتتی رہی۔ اس میں حیرت کی بات نہیں کہ جس شخص نے ذہنی تربیت آرایس ایس سے پائی، اس کو قانون کا ڈر نہیں تھا۔سیاسی لیڈروں سے تعلق اپنی جگہ مگرقانون کا ڈر نہ ہونے کا سبب صاف ہے۔ آرایس ایس اپنے کارکنوں کے ذہنوں کو شورہ پشتی اورعسکریت پسندی کے سانچوں میں ڈھالتی ہے۔ قانون شکنی میں ان کو کوئی عار نہیں ہوتا۔بہت سارے دھندے کالی کمائی کے لئے ہوتے ہیں اوراس کمائی میں سے چندہ پارٹی کو بھی ملتا ہے۔سیاسی پارٹیاں یہ نہیں دیکھتیں کہ پیسہ کہاں سے کمایاگیا؟ چنانچہ چندہ دینے والوں کے دھندوں سے چشم پوشی برتی جاتی ہے۔ یہی کہانی ویاپم کی ہے اوریہی للت مودی کے ساتھ رعایت کی ہے۔اب اس میں شک نہیں رہا کہ سشماسوراج نے للت مودی کے لئے جو کیا وہ مودی کے علم میں لائے بغیر نہیں کیا۔گزشتہ لوک سبھا چناؤ میں اور اس کے بعد اسمبلی انتخابات میں پارٹی نے جو کروڑوں روپیہ پانی کی طرح بہایا، اس کا کوئی حساب کتاب نہیں۔ ظاہر ہے یہ رقم ایسے ہی کرم فرماؤں سے آئی ہوگی ۔ حال دیگر پارٹیوں کا بھی مختلف نہیں۔ دراصل ملک کی پوری سیاست کالے دھن پر چل رہی ہے جس کو ختم کرنے کا وعدہ کرکے نریندربھائی مودی برسراقتدارآئے تھے۔ اور یہ سب اس لئے ہورہا ہے کہ سیاسی حلقوں میں اخلاق اوراقدار کا پوری طرح ملیا میٹ ہوچکا ہے ۔ اس میں نام نہاد کلچرل تنظیم آرایس ایس کا بھی کردار ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ریاستی حکومت اپنے اعلان کے مطابق قانون شکنی پر شکنجہ کستی ہے یہ بس یونہی لیپا پوتی کردتی ہے۔چند روز میں لوگ بھول جائیں گے کہ کیا ہوا تھا اورکس نے کیا تھا؟
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 180400 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.