اگر آج تیرا اس بزم میں اک بار ہو جائے
تمہاری اک نطزر ٹھرے ہمیں دیدا ہو جائے
اے کاش ! ہماری یہ آنکھیں سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار سے مشرف
ہو جائیں۔آمین
کچھ ایسا کردے میر کردگار آنکھوں میں
ہمیشہ نقش رہے روے یار آنکھوں میں
انہیں نا دیکھا تو کس کام کی ہیں یہ آنکھیں
کہ دیکھنے کی ہے کی ہے ساری بہار آنکھوں میں
جی ہاں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیدار بہت بڑی سعادت ہے۔ اور انہیں
نا دیکھا تو کس کام کی ہیں یہ آنکھیں حضرت زید بن انصاری رضی اللہ عنہ
صحابی رسول ہیں صاحب ازن اور مصتجاب داعوت تھے (یعنی آپ کی دعائیں قبول
ہوتی تھیں) انہوں نے جب سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال
ظاہری ہو گیا ہے۔ جب سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ظاہری ہو تو
صحابہ کرام پر غم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے پورا مدینہ آہوں اور سسکیوں سے گونج رہا
تھا ہر آنکھ اشک بار تھی بچے ماؤں سے لپٹ لپٹ کر رو رہے تھے اور سب لوگ یہی
سوچ رہے تھے کہ رخ مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہم کیسے دیکھا کریں
گے۔ پہلے صبح مسجد نبوی میں جاتے تھے تو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کے دیدار سے آنکھوں کو ٹھنڈا کرتے تھے۔ حضور رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کے دیدار کا ایسا خمار رہتا تھا کہ سارا دن آپ کے تصور میں گم
رہتے تھے اور رات کو سب سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رخ کا دیدار کر
کے اپنے گھروں کو جایا کرتے تھے۔ آہ سد آہ اب رخ سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کیسے دیکھ سکیں گے۔ انہیں میں حضرت عبد اللہ بن زید انصاری رضی اللہ
عنہ بھی ہیں آپ نے جب یہ خبر سنی تو غمِ مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
بیقرا ہوگئے اور اسی اضطراب کے عالم میں اللہ عزوجل کی بارگاہ میں ہاتھ
اُٹھائے اور دعا کی ‘اے اللہ عزوجل تیرے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کا جلوا نگاہوں سے دور ہو گیا۔ اے اللہ عزوجل میری آنکھیں دنیا کے پر
فریب نظارے نہیں چاہتیں۔ مولا دیدار مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نا رہا
تو میری یہ آنکھیں بھی لے لے “ اسی وقت حضرت عبد اللہ بن زید انصاری رضی
اللہ عنہ نابینا ہوگئے۔
انہیں نا دیکھا تو کس کام کی ہیں یہ آنکھیں
ان آنکھوں کا ورنہ کو مصرب ہی نہیں ہے
سرکار تمہارا رخ زیبا نظر آئے
سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کے ایسے کئی واقعات ہیں۔ ہاں ہاں
پنجاب کے ایک شہر کا واقعہ ہو۔ ایک شخص جو کہ ایک عام سا آدمی تھا اپنے
محلے کی مسجد میں نماز پڑھا کرتا تھا لوگوں کو پتا نہیں تھا کہ یہ شخص کون
ہے۔ اچانک اس نے ایک دن کہا کہ میرا کل انتقال ہوجائے گا۔ کسی نے کوئی خاص
توجہ نہ دی۔ لیکن پھر بھی اگلے دن کچھ لوگ عشا کی نماز کے بعد اس کے گھر
پہنچ گئے وہ اپنے بستر پر بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک لوگوں نے دیکھا کہ وہ
اپنے بستر پر کھڑا ہوگیا اور یوں عرض کرنے لگا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم آپ نے کیوں تکلیف فرمائی۔ گویا سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
اپنے اس دیوانے کی خاطر خود تشریف لے آئے تھے۔
سرِ بالیں انہیں رحمت کی ادا لائی ہے
ہال بگڑا ہے تو بیمار کی بن آئی ہے
اسی طرح کا ایک واقع غزوہ احد کے بعد بھی پیش آیا
حضرت سیدنا ذیاد رضی اللہ عنہ آپ نے غزوہ احد میں شرکت کی۔ بعد میں حضرت
سیدنا ذیاد رضی اللہ عنہ زخموں سے چور چور پڑے ہوئے ہیں۔ حضرت عائشہ رضی
اللہ عنہا نے دیکھا کہ ایک زخمی کراہ رہا ہے آپ قریب پہنچی سانس اُکھڑ رہی
ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو یوں محسوس ہوا کہ وہ کچھ کہنا چاہ رہا ہے۔
آپ نے غور سے سنا تو وہ کہہ رہا تھا کہ اللہ عزوجل رسول صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم ان پر اللہ عزوجل کی رحمتیں ہوں۔ کاش ان تک کوئی یہ پیغام پہنچا دے کہ
ان کا غلام زیاد دنیا سی رخصت ہو رہا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سرکار
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی باگاہ میں حاضر ہوئیں۔ اور ذیاد کا پیغام
پہنچایا۔ پیارے اور مہربان آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے غلام کے
سرہانے تشریف لے آئے۔ اس بیمار پر دنیا بھر کی تندرستیاں قربان ہوں کہ جس
کی عیادت کے لئے خود کائنات کے طبیب سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف
لے آئیں۔
سرِ بالیں انہیں رحمت کی ادا لائی ہے
ہال بگڑا ہے تو بیمار کی بن آئی ہے
سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب ذیاد کے قریب تشریف لے آئے تو لب مبارکہ
کو جنبش ہوئی اور رحمت کی بارش ہونے لگی الفاظ کچھ یوں ترتیب پائے۔ ذیاد
دیکھو میں آگیا ہوں۔ حضرت سیدنا ذیاد رضی اللہ عنہ نے آنکھیں کھول دیں
آنکھوں سے آنسو جاری ہیں۔ محبوب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سامنے
دیکھا وجد آگیا۔ مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلوؤں میں گم ہو گئے۔
سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ذیاد کوئی آخری تمنا۔ حضرت سیدنا
ذیاد رضی اللہ عنہ بھرائی ہوئی آوز میں صرف اتنا کہہ سکے۔ صرف ایک تمنا ہے
اور اپنے نیم جان جسم کو گھسیٹ کر سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں
پر رکھ دیا۔ ہونٹ آہستہ آہستہ حرکت کر رہے ہیں الفاظ کچھ یوں ہیں کہ ( اللہ
تعالیٰ کے رب عزوجل ہو اور اسلام کے دین ہونے کے طور پر اور سرکار صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کے نبی ہونے کی حیثیت سے سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
آخری نبی ہیں میں راضی ہوں) پھر حضرت سیدنا ذیاد رضی اللہ عنہ جنہوں نے
اپنے سر کو پوری کوشش کے ساتھ سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدمین
شریفین پر رکھا اور نعرا لگایا رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا۔ اور یہ
کہتے ہوئے ذیاد نے سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں پر دم توڑ دیا۔
اے کاش ہمیں بھی ایسی موت نصیب ہو جائے۔ اے کاش جب ہمارا بھی آخری وقت ہو۔
نجم کی یا خدا آرزو ہے عاشق زار کی ابرو ہے یہی
موت کے وقت سر قدموں میں ہو دید ہوتی رہے دم نکلتا رہے
حضور سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کے اور بھی بیشمار واقعات ہیں۔
جب سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ظاہر ہوا حضرت بلال رضی اللہ
تعالیٰ عنہ جو کہ مؤذن رسول ہیں آپ نے آذان دینا ترک کر دی کیوں کہ جب اذان
دیتے تھے تو سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رخ روشن سامنے ہوتا تھا۔ آپ
جب اشہد ان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پہنچتے تو رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیدار کر کے آگے اذان دیتے تھے۔ اب جب حاضر کا
دیدار نہ رہا تو حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ چھوڑ کر ملک شام چلے
گئے اور وہاں سکونت اختیار کر لی۔ ایک دن رات کو خواب میں حضور کا دیدار
ہوا اور بشارت ہوئی کہ ہمارے در پر حاضری دو۔ آپ رضی اللہ عنہ بیقراری کے
عالم میں اٹھے اور مدینہ کی طرف چل دئیے۔ جب مدینہ پہنچے تو کہیں پر بھی
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نظر نا آئے تو بیقراری کے عالم میں روتے ہوئے
مدینہ کی گلیوں سے گزرے جب مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں پہنچے تو
صحباہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی کہ اے بلال آج حضور صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کے دور کی اذان سنا دو آپ رضی اللہ عنہ نہ مانے۔ پھر صحابہ کرام علیہم
الرضوان نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسوں(حضرت حسن و حسین رضی
اللہ تعالیٰ عنہم) سے کہا کہ آپ ان سے عرض کیجئے آپ کی بات کو نہیں ٹالیں
گے۔ جب انہوں نے عرض کی تو حضرت بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ انکار نا کر سکے۔
اور اذان دینے لگے۔ جب انہوں نے اذان دی تو پورے مدینہ میں کہرام مچ گیا
اور سب بڑے چھوٹے سسکیاں لیتے ہوئے مسجد نبوی کی طرف دوڑے کہ شاید ہمارے
آقا واپس آگئے ہوں۔ اور ادھر جب حضرت بلال رضی اللہ عنہ جب اشہد ان محمد
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پہنچتے تو سرکار صلی اللہ علیہ وسلم
کا رخ انور نظر نا آیا غش کھا کر گر گئے اور اذان مکمل نہ کر سکے۔ دیکھا
انہیں نا دیکھا تو کس کام کی ہیں یہ آنکھیں۔ جب تھوڑی دیر بعد ہوش آیا تو
سب سے معذرت کر کے دوبارہ شام کی طرف چلے گئے۔
میری بھی ہے دن رات دعا مولا انہیں نا دیکھا تو کیس کام کی ہیں یہ آنکھیں
سگ عطار پر اگرنزع کے وقت اگر دیدار ہو جائے
پھر تکلیف کا کیا کہنا موت کا ہر جھٹکا بھی مزا دے |