دینی تعلیم
(Pir Muhammad Usman Afzal Qadri, Gujrat)
سوال:
استغفار کے فوائد کیا ہیں؟
جواب:
استغفار کے بے شمار فوائد ہیں، ان میں سے چار اہم فوائد واضح کرنے کیلئے
نواسہ رسول، حضرت امام حسن کی ایک حدیث درج کررہا ہوں، ملاحظہ فرمائیں:
ایک بار حضرت امام حسن رضی اﷲ عنہ کی خدمت میں چار شخص حاضرہوئے۔ ایک نے
قحط کی شکایت کی، دوسرے نے کہا کہ میں محتاجی سے تنگ ہوں، تیسرے نے کہا کہ
میرے ہاں کوئی اولاد نہیں ہے اور چوتھے نے عرض کیا کہ میری زمین باغ نہیں
اگاتی۔
چاروں کی فریاد سن کر امام حسن رضی اﷲ عنہ فرمایا کہ تم لوگ استغفار پڑھا
کرو!
ربیع بن صبیح حاضر خدمت تھے، انہوں نے عرض کیا کہ اے رسول اﷲﷺ کے نواسے!
لوگ مختلف قسم کی حاجتیں لے کر آئے ہیں اور آپ نے سب کو ایک ہی دعا تعلیم
فرمائی۔ یہ کیا معاملہ ہے؟
حضرت امام نے فرمایا کہ قرآن کریم میں ہے:
ترجمہ: ’’تم لوگ اپنے رب سے استغفارکرو! بے شک وہ بہت معاف فرمانے والا ہے۔
وہ تم پر زور دار بارش بھیجے گا اور مالوں اور بیٹوں سے تمہاری مدد فرمائے
گا اور تمہارے لیے باغ اور نہریں تیار فرما دے گا۔‘‘
اے ربیع! دیکھ لو! اس آیت میں استغفار کے چاروں فائدے بیان کیے گئے ہیں۔
بارش ہونا، مال ملنا، اولاد ہونا اور باغ اگنا۔ یہی چاروں کی حاجتیں تھیں،
اس لیے میں نے ان چاروں کو استغفار کا ایک ہی عمل تعلیم کر دیا۔
سوال:
سیف من سیوف اﷲ کون ہیں اور ان کی روایت کردہ مشہور حدیث کونسی ہے؟
جوابــــــــــــــــــــ:
رسول اﷲ ﷺ نے سیف من سیوف اﷲ کا لقب حضرت خالد بن ولید رضی اﷲ عنہ کو عطا
فرمایا تھا۔ آپ کی روایت کردہ حدیث درج ذیل ہے:
ایک شخص رسول اﷲﷺ کے دربار میں حاضر ہوا اور عرض کی: یارسول اﷲﷺ میں کچھ
پوچھنا چاہتا ہوں؟ آپﷺ نے فرمایا: ہاں کہو!
عرض کیا: یارسول اﷲﷺ میں امیر بننا چاہتا ہوں؟ فرمایا: قناعت اختیار کرو،
امیر ہوجاؤ گے۔
عرض کیا: میں سب سے بڑا عالم بننا چاہتا ہوں؟ فرمایا: تقویٰ اختیار کرو،
عالم بن جاؤ گے!
عرض کیا: عزت والا بننا چاہتا ہوں؟ فرمایا: مخلوق کے آگے ہاتھ پھیلانے بند
کردو، باعزت ہوجاؤ گے!
عرض کیا: اچھا آدمی بننا چاہتا ہوں؟ فرمایا: لوگوں کو نفع پہنچاؤ! عرض کیا:
عادل بننا چاہتا ہوں؟ فرمایا: جسے اپنے لئے اچھا سمجھو وہی دوسروں کے لئے
پسند کرو!
عرض کیا: طاقتور بننا چاہتا ہوں؟ فرمایا: اﷲ پر توکل کرو! عرض کیا: اﷲ کے
دربار میں خاص درجہ چاہتا ہوں؟ فرمایا: کثرت سے ذکر کرو!
عرض کیا: رزق کی کشادگی چاہتا ہوں؟ فرمایا: ہمیشہ باوضو رہو۔ عرض کیا:
دعاؤں کی قبولیت چاہتا ہوں؟ فرمایا: حرام نہ کھاؤ!
عرض کیا: ایمان کی تکمیل چاہتا ہوں؟ فرمایا: اخلاق اچھے کر لو!
عرض کیا: قیامت کے روز اﷲ سے گناہوں سے پاک ہوکر ملنا چاہتا ہوں؟ فرمایا:
جنابت کے فوراً بعد غسل کیا کرو۔
عرض کیا: گناہوں میں کمی چاہتا ہوں؟ فرمایا: کثرت سے استغفار کیا کرو۔
عرض کیا: قیامت کے روز نور میں اٹھنا چاہتا ہوں؟ فرمایا: ظلم کرنا چھوڑ دو۔
عرض کیا: چاہتا ہوں اﷲ مجھ پر رحم کرے؟ فرمایا: اﷲ کے بندوں پر رحم کرو۔
عرض کیا: چاہتا ہوں اﷲ میری پردہ پوشی کرے؟ فرمایا: لوگوں کی پردہ پوشی کرو۔
عرض کیا: رسوائی سے بچنا چاہتا ہوں؟ فرمایا: زنا سے بچو۔
عرض کیا: چاہتا ہوں اﷲ اور اس کے رسولﷺ کا محبوب بن جاؤں؟ فرمایا: جو اﷲ
اور اس کے رسولﷺ کو محبوب ہو، اسے اپنا محبوب بنالو۔
عرض کیا: اﷲ کا فرمانبردار بننا چاہتا ہوں؟ فرمایا: فرائض کا اہتمام کرو۔
عرض کیا: احسان کرنے والا بننا چاہتا ہوں؟ فرمایا: اﷲ کی یوں بندگی کرو
جیسے تم اسے دیکھ رہے ہو یا جیسے وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔
عرض کیا: یارسول اﷲﷺ! کونسی چیز دوزخ کی آگ کو ٹھنڈا کردے گی؟ فرمایا: دنیا
کی مصیبتوں پر صبر۔
عرض کیا: اﷲ کے غصے کو کیا چیز سرد کرتی ہے؟ فرمایا: چپکے چپکے صدقہ اور
صلۂ رحمی۔
عرض کیا: سب سے بڑی بُرائی کیا ہے؟ فرمایا: بداخلاقی اور بخل! عرض کیا: سب
سے بڑی اچھائی کیا ہے؟ فرمایا: اچھے اخلاق، تواضع اور صبر۔
عرض کیا: اﷲ کے غصہ سے بچنا چاہتا ہوں؟ فرمایا: لوگوں پر غصہ کرنا چھوڑ
دے!!!
سوال:
میری اولاد، میری جائیداد میں سے اپنا میراث کا حصہ مانگتی ہے کیا میرے لیے
ضروری ہے کہ میں اپنی زندگی میں اپنی جائیداد بطور میراث اپنے بچوں میں
بانٹ دوں؟
سید عبد الواسع گوجرانوالہ
جواب:
شرعا میراث اس مال وجائیداد کو کہتے ہیں جسے مرنے والا اپنے وارثوں کے لیے
چھوڑ جائے لہذا زندہ آدمی کی میراث نہیں ہوتی۔ اور جب زندہ کی میراث ہوتی
ہی نہیں تو بچوں کی طرف سے اس کا مطالبہ ہی سرے سے غلط ہے۔ ہاں والدین اگر
اپنی رضا سے اپنی اولاد یا کسی کو اپنا مال یا جائیداد دینا چاہیں یا اس
میں سے کچھ دینا چاہئیں تو وہ اپنی زندگی میں دے سکتے ہیں اور یہ میراث
نہیں ہوگی۔ اور بعد از وفات اسے میراث میں شمار نہیں کیا جائیگا۔
سوال:
قبر انور سے آزان سنائی دینے والی حدیث کا حوالہ اور تفصیل درکار ہے؟
جواب:
مشکوٰۃ شریف، صفحہ 538 پر حدیث مبارکہ ہے:
جن دنوں لشکر یزید نے مدینہ منورہ پر چڑھائی کی ان دنوں تین دن تک مسجد
نبوی میں اذان نہ ہوسکی۔ حضرت سعید بن مسیب رضی اﷲ عنہ نے یہ تین دن مسجد
نبوی میں رہ کر گزارے، آپ فرماتے ہیں کہ نماز کے وقت ہوجانے کا مجھے کچھ
پتہ نہیں چلتا تھا مگر اسطرح کہ جب نماز کا وقت آتا قبر انور سے ہلکی سی
اذان کی آواز آنے لگتی۔
سوال:
آج غیبت ہمارے معاشرے میں سرایت کرچکی ہے اس کے متعلق کچھ رہنمائی فرمائیں؟
جواب:
اس سلسلہ میں حضرت حسن بصری رحمۃ اﷲ علیہ کا ایک واقعہ بیان کئے دیتا ہوں
امید کہ عقلمنداں را اشارا کافی است کے تحت یہ کفایت کرے گا۔
تذکرۃ الاولیاء، صفحہ نمبر 41پر درج ہے کہ ایک شخص نے حضرت حسن بصری رحمۃ
اﷲ علیہ سے کہا کہ فلاں شخص نے آپ کی غیبت کی ہے۔ حضرت حسن بصری نے اسی وقت
تازہ چھوہارے منگوائے اور ایک طباق میں رکھ کر انہیں اس شخص کے پاس بطور
تحفہ بھیجا اور کہلا بھیجا کہ میں آپ کا بڑا شکر گزار ہوں کہ آپ نے میری
غیبت کر کے اپنی نیکیوں کو میرے دفترِ اعمال میں منتقل کر دیا ہے۔ آپ کے اس
احسان کا بدلہ میں چکا نہیں سکتا، تا ہم یہ حقیر سا تحفہ قبول فرمایئے۔
وہ شخص حضرت حسن بصری علیہ الرحمہ کے اس سلوک کو دیکھ کر بڑا شرمندہ ہوا
اور آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر معافی چاہنے لگا۔
سوال:
کیا قبر کے اوپر چڑھ کر بیٹھنے سے قبر والے کو تکلیف ہوتی ہے؟
جواب:
’’مجمع الزوائد‘‘ جلد 3 صفحہ 61 طبع بیروت میں ’’معجم کبیر طبرانی‘‘ کے
حوالہ سے حدیث پاک ہے کہ
ترجمہ: ’’ رسول اﷲﷺ نے ایک شخص کو ایک قبر پر بیٹھے ہوئے دیکھا تو فرمایا
کہ اے قبر پر چڑھنے والے قبر کے اوپر سے اتر جا تاکہ تو قبر والے کو ایذا
نہ پہنچائے، جبکہ وہ تجھے ایذا نہیں دیتا۔‘‘
سوال:
ایک قبر میں یکے بعد دیگرے مردے دفن کرتے جانا یا یوں کہہ لیں کے پرانی قبر
میں نیا مردہ دفن کرنا کیا اسلامی لحاظ سے درست ہے؟
جواب:
’’فتاوی تاتارخانیہ‘‘، ’’فتاوی امداد الفتاح ‘‘ اور ’’فتاویٰ رضویہ‘‘ میں
ہے:
ترجمہ: ’’جب میت قبر میں بالکل خاک ہو جائے جب بھی اسکی قبر میں دوسرے کو
دفن کرنا ممنوع ہے، کیونکہ حرمت اب بھی باقی ہے، اور اگر مزارات صالحین کے
قرب کی برکت حاصل کرنے کی غرض سے انکی ہڈیاں ایک کنارے جمع کر دیں، اسکے
بعد دوسرے کو دفن کریں تو اب بھی ممنوع ہے، جبکہ دفن کیلئے فارغ جگہ مل
سکتی ہو۔‘‘
سوال:
کوئی اچھے سے اقوال زریں بتادیں؟
جواب:
٭ سکون حاصل کرنے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ انسان سکون کے حصول کی تمنا
چھوڑ کر دوسروں کو سکون پہنچانے کی کوشش کرے۔ سکون دینے والے کو ہی سکون
ملتا ہے، کسی کا سکون برباد کرنے والا سکون سے محروم رہتا ہے۔
٭ بہتر انسان وہی ہے جو دوسروں کے غم میں شامل ہوکر اسے کم کرے اور دوسروں
کی خوشی میں شریک ہوکر اس میں اضافہ کرے۔
٭ نیت بدل جائے تو نیک عمل نیک نہیں رہتا۔ انسان اندر سے منافق ہو تو اس کا
کلمہ توحید، کلمہ توحید نہ ہوگا ہر چند کہ کلمہ توحید وہی ہے۔
٭ قرآن بیان کرنے والے اور سننے والے اگر متقی نہ ہوں تو قرآن فہمی سے وہ
نتائج کبھی نہیں پیدا ہوں گے جو قرآن کا منشاء ہے۔
٭ خوشی کا تعاقب کرنے والا خوشی نہیں پا سکتا۔ یہ عطا ہے مالک کی جو اس کی
یاد اور اس کی مقرر کی ہوئی تقدیر پر راضی رہنے سے ملتی ہے۔
٭ کارواں کو غبارِ راہ میں چھوڑ کر کسی نامعلوم منزل پر پہنچنے والا راہنما
نہیں، دراصل راہزن ہے۔ رہبر وہی ہے جو قافلے کو شادبیِٔ منزل سے آشنا کرے۔
|
|