حضرت الاستاذمولاناعبدالرحیم بستوی اپنی صفات حسنہ کے آئینہ میں
(Shams Tabraiz Qasmi, India)
مفتی عقیل الرحمن قاسمی
استاذ جامعہ مدنیہ سبل پور پٹنہ
آج پھردنیاایک عظیم ترین شخصیت سے محروم ہوگئی،یعنی بروزبدھ
بتاریخ:24/ذوالقعدہ؍1436ھجری بمطابق:9/ستمبر2015ء کوبوقت صبح حضرت
الاستاذحضرت مولاناعبدالرحیم صاحب بستوی استاذجلیل دارالعلوم دیوبند کاطویل
علالت کے بعدانتقال ھوگیا؛اناﷲ واناالیہ راجعون -آج کے نیٹ ورک کنکشن
دورمیں مختصرترین لمحات میں ہی پوری دنیامیں یہ خبرپھیل گئی اورعلم دوست
حضرات کے ساتھ ساتھ ہزاروں شاگردان ،متعلقین و متوسلین پہ
سناٹاچھاگیا،ویرانیت چھاگئی کیوں کہ!
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے۔
بہت مشکل سے ہوتاہے چمن میں دیدہ ورپیدا
حضرت الاستاذ ایسے ہی جامع اورگوناگوں صفات حسنہ سے متصف تھے کہ ان کے جانے
سے علمی مجلسیں اوراکیڈمیاں سونی پڑگئیں ،حضرت الاستاذجہاں ایک طرف علوم
اسلامی میں پختہ کاراورمہارت تامہ رکھتے تھے وہیں علوم منطق وفلسفہ میں
یدطولی کے مالک تھے،دارالعلوم کی علمی فضاوں میں وہ امام المنطق والفلسفہ
کے لقب سے جانے تھے ۔وہ اپنے شاگردوں کے مابین امام المنطق والفلسفہ کے نام
سے مشہور تھے اوراپنی فطری مہربانی،رحم وکرم ،متانت وسنجیدگی کی بناء پر
داداکے نام سے بھی موسوم تھے۔
اپنی کشادہ پیشانی ،میانہ قدوقامت ،لب ولہجہ میں متانت
وسنجیدگی،رفتاروکردارمیں میانہ روی کیساتھ ساتھ، ھاتھ میں عصاتھامے ہوئے ور
پان سے اپنے منھ کوزعفران زار بنائے ہوئے جب درس گاہ میں داخل ہوتے تھے
توعجیب وغریب روحانیت محسوس ہوتی تھی ،باوقارانداز میں بیٹھتے ہی عبارت
کتاب پڑھنے کی درخواست کرتے ورپھر پڑھانے میں مشغول ھوجاتے تھے،طلبہ پر
درسی گفتگوکا بوجھ نہ ہو؛اسلئے دوران درس کتابی نکتوں کو اس اندازمیں بیان
فرماتے کہ مسئلہ بھی حل ہوجاتااور طلبہ کے چہرے پر مسکرہٹ بھی پھیل جاتی ،کبھی
کبھی دوران درس پان ختم ہوجاتاتو فرماتے:گاڑی رک گئی،یہ سنتے ھی کوئی طالب
علم فورا جاتااور پان لاکرپیش کردیتاپھر پڑھاناشروع کردیتے۔حضرت الاستاذ
نہایت شفیق ومربی تھے،دارالعلوم میں چارسالہ دور میں میں نے کبھی کسی
پرناراض،غصہ اور کسی کو جھڑکتے ہوئے نھیں دیکھا،اخلاق واطوار نھایت عمدہ
اورصاف وشفاف تھے،معاملات میں ،معاشرت میں مندرجہ ذیل قیمتی جملوں کے بین
مصداق تھے
’’تعاشرواکالاخوان وتعاملواکالاجانب‘‘بھائیوں کی طرح مل جل کر رہواور غیروں
کی طرح معاملات صاف ستھرے رکھو‘‘
طلبہ سے جب کوئی خدمت لیتے توفوراان کودعائیں بھی دیدیتے،راہ چلتے ہوئے
نگاہیں نیچی جھکا کر چلتے، طلبہ کے عادت واطوارپر خاص نظر رکھتے،قابل اصلاح
اعمال وافعال پر فورانکیرفرمادیتے۔حقیقت یہ ہے کہ جیسے نبی کریم صلی اﷲ
علیہ وسلم اپنے صحابہ کے مابین گھل مل کر رہتے تھے اورصحابہ کرام آپ سے
مانوس رہا کرتے تھے اسی طرح اساتذہ اور طلبہ بھی حضرت الاستاذ کے ساتھ گھل
مل کررہاکرتے تھے اورمانوس تھے گویاخداوندتعالی نے آپ کی ذات میں محبوبیت
ڈال دی تھی ۔منطق وفلسفہ میں آپ مرجع خلائق تھے،منطق وفلسفہ کے کسی مسئلہ
میں اگر کسی کوکوئی اشکال ہوتاتووہ آپ سے رجوع کرتااورتشفی بخش جواب سن
کرآپ کاشکریہ اداکرتااوردعائیں دیتا،آپ کوکبھی کسی کی غیبت کرتے ہوغیبت
سنتے ہوئے نہیں دیکھاگیا،جلوت وخلوت میں آپ کاایک ہی انداز زندگی تھا۔آپ
ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے،طلبہ ،اساتذہ اورعوام کے درمیان بے پناہ مقبولیت
حاصل تھی ۔ہندوستان ہی میں نہیں بیرون ہند بھی؛ بطورخاص یورپی ممالک میں
بھی معروف تھے،لندن کے سفرمیں آپ کے خطابات سننے کیلئے عوام وخواص جوق
درجوق شریک ھواکرتے تھے،کئی کتابوں کے مصنف بھی تھے۔مجاھدآزادی حضرت
مولاناسیدحسین احمد مدنی نوراﷲ مرقدہ کے خصوصی شاگردوں میں تھے،حضرت مدنی
رحمتہ اﷲ علیہ سے خصوصی قربت وتعلق ھی کی وجہ سے آپ کے خاندانی افراد سے
یکساں طورپر محبت کابرتاوکیاکرتے تھے۔
1955ء میں دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد ھندوستان کے مختلف مدارس میں
25/سال درس وتدریس کی خدمات انجام دینے کے بعد 1981ء میں آپ کی تقرری
دارالعلوم دیوبند میں ہوئی،اس وقت سے لیکر تادم مرگ دارالعلوم میں رہ کر
مختلف علوم وفنون کی کتابیں آپ کے زیر درس رہیں ،خاص طورپر منطق وفلسفہ کی
کتابیں آپ کے زیر درس رہاکرتی تھی؛کیوں کہ آپ مشکل سے مشکل ترین مباحث کو
نہایت آسانی سے حل کردیاکرتے تھے ،درجہ عالیہ کے اساتذہ میں سے تھے،کم وبیش
35/سال آپنے دارالعلوم دیوبند میں تدریسی خدمات انجام دی ہیں۔آپ کے خطبات
واعظوں کے مابین اوربطورخاص علماء وطلباء کے مابین مقبول ومتداول ہیں ؛کیوں
کہ وہ علمی مباحث اور پیچیدہ مسائل کی تشریح منطقی اندار میں کرتے تھے ۔آپ
کی نماز جنازہ دارالعلوم کے سینئراستاذ حضرت مولاناریاست علی ظفر بجنوری نے
پڑھائی اورہزاروں پرنم آنکھوں کے ساتھ مزارقاسمی میں مدفون ہوئے،آپ کی
نمازجنازہ میں علماء ،طلباء اورصلحاء کی شرکت اورعوام الناس کے جم غفیر کی
شمولیت مقبول عنداﷲ ہونے کی واضح دلیل ہے،آپ کے پس ماندگان میں ایک
صاحبزادی اور 9/صاحبزادے ہیں ،الحاصل آپ منکسر المزاج ،خلیق وملنسار،علم
دوست،محبوب ومقبول اورہردل عزیزشخصیت کے مالک تھے۔ع:
کڑے سفرکاتھکامسافرتھکاہے ایساکہ سوگیاھے۔
خوداپنی توآنکھیں بندکرلیں ہرآنکھ لیکن بھگوگیاہے۔
خیرحضرت الاستاذاس دنیاسیرخصت ھوگئے؛لیکن جاتے ہوئے زبان حال سے یہ کہ گئے
کہ دیکھواپنے آپ کوآخرت کیلئے ہمہ وقت تیاررکھو؛کیوں کہ موت نے آج تک کسی
کوبخشانہیں ہے آپ،انبیاء ،اولیاء ،صلحاء اوربزرگان دین ومسلمانوں کیساتھ
ساتھ ان لوگوں کوبھی نھیں بخشاجنھوں نے پوری زندگی،موت اورموت پیداکرنیوالے
خداکایقین نھیں کیا،جنھوں نے موت اورمابعدالموت کی حیات ابدی کامسلسل
انکارکیااورجواعمال کے تئیں جزاوسزاکاانکارشدت سے کرتے رہے ۔موت نے حکیموں
اورطبیبوں کوبھی نھیں بخشاجواپنی زندگی میں سینکڑوں ہزاروں لوگوں کوموت کے
منھ سے نکالنے کی ناکام کوشش کرتے رہے،جی ہاں!موت کسی کادشمن نہیں اورکسی
کادوست نہیں ؛بلکہ موت ایک امرطبیعی اورحقیقی شی ہے جو ہرشخص کوآنی ہے
،البتہ نتیجہ کے اعتبارسے موت مومن کیلئے تحفہ ہے ،اپنے محبوب سے ملاقات
کاذریعہ ہے اورجنت کی باغ وبہار اورعیش وآرام کی زندگی کاوسیلہ ہے اوریہی
موت ان لوگوں کیلئے وبال جان ہے جوگنہ گار،بدکاراورکافرہے اورپریشانیوں
اورمصیبتوں کے لامتناہی سلسلہ کاذریعہ ہے ا ردوزخ کی سرزمین سے ملاقات
کاوسیلہ ہے،مومن کی موت پرزیادہ حسرت نھیں کرنی چاہئے ؛کیوں کہ:ع :ھم زندہ
جاوید کاماتم نہیں کرتے۔
لھذاانسان کومرنیوالے پررونے سے زیادہ عبرت اورنصیحت حاصل کرناچاہئے،افسوس
اورغم کے اظہارسے زیادہ اپے اعمال کاجائزہ لینا چاہئے ۔اپنی قبراورآخرت کی
تیاری کی فکرکرنی چاہئے،اپنے معاملات کو صاف و شفاف رکھنا چاہئے ۔ہمیشہ اس
حدیث کوپیش نظر رکھناچاھئے’’کن فی الدنیاکانک غریب‘‘دنیامیں ایک مسافر کی
طرح زندگی گزارناچاہئے،اورخواہشات کوتوڑنیوالی چیزموت کوکثرت سے یادکرنی
چاہئے؛تاکہ بیجاخواہشات کی تکمیل کی فکرمیں اپنی قیمتی حیات مستعارضائع نہ
ہونے پائے؛کیوں کہ انسانی خواہشات کی کوئی انتہانہیں ہے،بس قبرکی مٹی ہی
انسان کی خواہشات اورتمناوں کوتوڑنے والی ہے ،خداوندتعالی حضرت الاستاذکی
قبر کو نور سے منورفرمائے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے ۔
بس آج ضرورت ہے کہ حضرت الاستاذ کی طرززندگی پر ہم بھی اپنی زندگی کوڈھالنے
کی انتھک کوشش کریں ۔
"اے خیالی توسبق لے موت سے ان کی ابھی
ہے نہیں گنتی مکمل موت کی تیرے بغیر |
|