چنی لعل

 وہ پانچ برس کا تھا جب اپنی چچا زاد بہن کے ساتھ پہلی بار سکول گیا۔۔۔ بہن کی انگلی تھامے ننھے ننھے پاؤں سے بھاگ رہا تھا وہ ایک قدم بڑھاتی تو اسے پانچ قدم چلنا پڑھتا اور جب وہ تھکنے لگتا تو بہن اسے اٹھا لیتی ۔اس کی بہن گھر سے اڑھائی کلو میٹر کے فاصلے پرواقع گورنمنٹ گرلز پرائمری سکول میں ہیڈ مسٹرس تھی ،وہ جب چنوں کو ساتھ لئے سکول پہنچی تو تمام طلبات اس کی طرف لپکی اسے ہاتھوں ہاتھ لیا اور اس پر پیار کی بارش برسنے لگی اور سب طلبات اس پیارے سے ننھے فرشتے کو اٹھاتی بوسے دیتی اور اسے پاوں زمین پر نہ رکھنے دیتیں اس لئے بھی کہ وہ ہیڈ مسٹرس کا بھائی بھی ہے اور تھا بھی بہت پیارا۔۔۔یہ سلسلہ چلتا رہا اور یوں ان سینکڑوں چہروں میں سے ایک چہرہ ’’چنوں ‘‘ کو بہت اپناسا لگنے لگا اور وہ اس کی طرف مائل ہونے لگا ۔۔۔یوں تو سب اس کو بہت پیار کرتی تھیں لیکن جونہی وہ چندرہ کی گود میں پہنچتا تو جیسے اس کا چہرہ کھل اٹھتا۔۔ ۔محبت ایسا جذبہ ہے ایسی کیفیت ہے جو عمر رنگ ونسل سے ماورا ہے جو کبھی بھی کہیں بھی کسی بھی وقت برپا ہو سکتا ہے اور’’ چنوں‘‘کے معاملے میں بھی یہی ہوا تھا ، کہ ایک چہرہ اس کے دل پر نقش ہو گیا اور دن بھر اسے سب پیار کرتے لیکن وہ کسی ایک کی تلاش میں رہتا تھا اور پھر ایک دن وہ چہرہ اس سکول سے غائب ہو گیا اس لئے کہ اس کا وہاں آخری سال تھا اور امتحان پاس کرتے ہی وہ کسی دوسرے سکول میں بھرتی ہو گئی تھی لیکن ’’چنوں‘‘ جیسا معصوم فرشتہ تو اپنے دل کی کیفیت کو نہ سمجھ سکتا نہ ہی بیان کر نے کی سکت رکھتا تھا ۔

وقت اپنی رفتار سے گزرتا گیا اور پھر اس کے تقریباً ڈیڑھ عشرے بعد ایک دن دل دہلا دینے والا واقع ظہور پذیر ہوا کہ قسمت نے چنوں کو چندرمکھی کے سامنے لا کھڑا کر دیا اور وہ بھی یوں کہ چندر مکھی طوائف تھی اور چنوں تماشبین ۔۔۔وہ حالات کاکیسا جبر و ننگا پن تھا جس نے چندر مکھی جیسی معصوم پری کو طوائف کے کوٹھے پر پہنچا دیا اور وہ کیا عوامل تھے جوچنوں کو یہاں کوٹھے پر لے آئے۔۔۔ایک الگ سوال ہے بہر حال چنوں نے اپنے محبوب کو پہلی نظر میں پہچان لیا مگر چندرمکھی نہ جان سکی کہ یہ وہ ننھا فرشتہ ہے جو میری گود میں کھیلا کرتا تھا ۔وقت گزرتا گیا اور چنوں جو اب چنی لعل بن گیا تھا کا زیادہ وقت چندرمکھی کے ہاں گزارتااور پھر اسکی آنکھیں بچپن سے جس انسان کی تلاش میں تھیں وہ آج اس کے سامنے تھاوہ بھی اس حال میں ۔۔۔اب ا سے چندرمکھی سے دوری ہر گز قبول نہ تھی اس لئے چندرمکھی کے ہاں ہی اس کے لئے کام کرنے لگا ۔وہ جانتا تھا کہ وہ زندگی میں کبھی بھی چندرمکھی کو اپنا نہیں سکے گا اور یوں اس نے اپنے ہی محبوب کے رقص سے محظوظ ہونے والے تماشبین کے استقبال اور الوداع کرنے کو اپنا معمول بنا لیا۔۔۔بس اسے اس بات کا خوش کن احساس رہتا کہ کہ وہ جہاں ہے وہاں ہی کہیں اس کا محبوب بھی ہے جسے وہ دیکھ سکتا ہے محسوس کر سکتا ہے ۔دوسری جانب چندر مکھی کو بھی یہ احساس ہو چلا تھا کہ وہ اس کا سچا عاشق ہے لیکن قسمت نے ان دونوں کے ساتھ بڑا بھیانک مذاق کیا تھا ۔چنی لعل نے ساری زندگی وہاں گزار دی لیکن کبھی محبوب سے اظہار محبت نہیں کیا اور پھر چندر مکھی نے بھی کیا دوستی نبھائی کہ عمر بھر اسے اپنے ساتھ رکھا اور پھر ایک دن صبح حرکت قلب بند ہونے سے اس کا انتقال ہو گیا اور اسی شام چنی لعل کو بھی اپنے کمرے میں مردہ پایا گیا اور اس طرح پیار محبت کی یہ انوکھی کہانی انجام کو پہنچی ۔

برصغیر کی فلم انڈسٹریز اور ڈراما انڈسٹریز نے اس پر کئی ڈارمے اورشہکار فلمیں بنائی ہیں جنہیں عوام میں بڑی پذیرائی ملی اوریہاں بھی چنی لعل اور چندرمکھی سے ناانصافی کی گئی کہ جس فلم میں چنی لعل اور چندرمکھی کو ہیرو ہیروئن ہونا چاہے تھا وہاں دیوداس اور پارو کو زیادہ صاحب عزت بنا کر پیش کیا گیا ۔جب کہ چنی لعل اور چندرمکھی جیسے بدنام زمانہ کرداروں میں جھانک کر دیکھا جائے تو وہ مجسمہ استقامت اور وفا کے پیکر ثابت ہوتے ہیں جنہیں وقت و حالات نے ایک ایساکردار تفویض کیا جو ان کے شایان شان ہر گز نہیں تھا چہ جائکہ پارو نے تو اپنے عاشق سے بے وفائی کر کے اسے فٹ پاتھ پر مرنے کے لئے چھوڑ دیا تھا ۔۔۔جب کہ برصغیر کے یہ تاریخی کردار جنھیں ہمیشہ محض فنون لطیفہ کے طور پر لطف اندوز ہونے تک یاد رکھا گیا ہے ان کا بغور جائزہ لیا جائے تو ان کی وفا و استقامت ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ آج ہماری ہاں اکثریت اس نعمت و انسانی خاصیت سے محروم ہو چکی ہے آج اگر ہم مادر وطن کے تینوں حصوں میں تیس و چالیس کے عشرے سے آج تک کے اہم سیاسی لوگوں کے کرداروں پر طائرانہ نظر ڈالیں تو وہ ہمیں زاتی مفادات و اقتدار کی چندرمکھی کے عاشق و دیوانے تو نظر آتے ہیں لیکن ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑھتا ہے کہ ان میں اکثریت ایسوں کی ہے جنیں چنی لعل کے مقابل کھڑا کریں تو کردار ووژن سے کوسوں دور یہ اس دور کے مہذب لوگ چنی لعل اور چندرمکھی جیسے بدنام زمانہ کرداروں کے سامنے بونے نظر آتے ہیں اور وہ ان کے سامنے مجسمہ استقامت و اعلیٰ کردار کے زندہ نشان ۔۔۔
Niaz Ahmad
About the Author: Niaz Ahmad Read More Articles by Niaz Ahmad: 98 Articles with 82237 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.