کسان کب خوشحال ہوگا؟
(Prof Liaquat Ali Mughal, Kehroor Pakka)
جناب والہ! 40 ہزار روپے فی
ایکٹر مستاجری ہے اور تقریبا اتنا ہی خرچہ پانی بیج کھاد سپرے لیبرپر بھی
آتا ہے باالفاظ دیگر تقریبا 80 ہزار روپے فی ایکٹر خرچ آتا ہے جبکہ کپاس کی
فی ایکٹر اوسط پیداوار(بہترین حالت میں) بیس سے پچیس من فی ایکٹر ہوتی ہے
اگر تین ہزار روپے فی من کپاس کا ریٹ مقرر کیا جائے تو بھی 60-75 ہزار روپے
انکم ہوتی ہے یعنی کے کسان اور کاشتکاروں کا خرچ بھی پورانہیں ہوتا سوائے
پیسے ٹائم اور توانائی کے ضیاع کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔جبکہ اگر حکومتی
پالیسی دیکھی جائے تو کپاس کا ریٹ 1800 سے2000 روپے فی من ہے جس میں کسان
سراسر نقصان میں ہے اور اس محاورے پر پورا اترتا ہے کہ گنجی نہائے گی کیا
اور نچوڑے گی کیا۔
گذشتہ سال کی نسبت امسال کپاس کی پیداوار نہ ہونے کے برابر تھی جس کی وجہ
سے ہمیں اپنے مویشی فروخت کرنا پڑے اب ہم کنگال ہوچکے ہیں اس سال بارشوں کی
وجہ سے رہی سہی کسر پوری ہوگئی تمام فصلات تباہ ہوگئیں90% کاشتکار اور
کسانوں نے اپنی زمینوں میں روٹا ویٹر اور ہل چلادیا اکثریت نے اس عمل سے
چھٹکارا پالیا اور تباہ شدہ کھڑی فصل جوں کی توں چھوڑ دی کہ چلو ہل کا خرچ
تو بچتا ہے اور زمینیں مالکان کے حوالے کردی کہ ہم تو لٹ چکے ہیں مستاجری
ادا نہیں کرسکتے گردن تک مقروض ہوچکے ہیں اسی بناپر مالکان کی حالت بھی
پتلی ہے انہیں مستاجری کی کوئی امید ہے نہ توقع۔بڑے بڑے نامور زمیندار اس
مرتبہ پریشان دکھائی دیتے ہیں۔
یہ حالات ہیں جنوبی پنجاب کے کاشتکاروں کے ۔ جنوبی پنجاب جو کہ ہمیشہ سے
زرعی نقطہ نگاہ سے معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے یہاں پر گندم
کپاس چاول مکئی گنا اور سبزیات ملک بھر کی ضروریات کا تقریبا50 فیصد
پوراکرتی ہیں اور بیرون ملک بھی ایکسپورٹ ہوتی ہیں۔کاٹن کنگ کہلانے والی یہ
ساری بیلٹ فی الوقت نہایت ہی کم پرسی میں مبتلا ہے اس بیلٹ پر بسنے والے80%
افراد کا ذریعہ معاش زراعت کے گرد گھومتا ہے۔اس بیلٹ میں ہر شخص کا کاروبار
زراعت سے مربوط ہے۔ فصل اچھی ہوگی تو ریٹس اچھے ملیں گے تو باقی 20% فیصد
لوگوں کی روزی روٹی کا وسیلہ ہوسکے گابصورت دیگر یہ علاقہ مندے کاشکار ررے
گا کیونکہ ان علاقوں میں انڈسٹریز نہ ہونے کے برابر ہیں زمین کا سینہ چیر
کر اجناس اگانے والے محنت کش اور جفا کش کسان زبوں حالی کا شکار ہوتے جارہے
ہیں۔لائیو سٹاک اورڈیری کی مصنوعات بھی تنزلی کی راہ دیکھ چکی ہیں مویشی
پال مالکان تذبذب کا شکار ہیں کہ زمین تو چھوڑ دی ہے اب جانوروں کی خوراک
اور چارے کا حصول کس طور ممکن ہوسکے گا۔جانور بھوکے مرجائیں گے حقیقت مزید
تلخ اس وقت ہوجاتی ہے کہ کریانہ اور روزمرہ کی اشیائے خوردونوش بھی
دکانداروں نے ادھاردینا بند کردی ہیں کیونکہ وہ بھی جان چکے ہیں کہ اب دی
گئی ادھار شاید دو سال تک بھی نہ اگاڑی جاسکے۔اس صورت حال میں زندگی میں
مزید تلخیاں گھول دی ہیں اب کاشتکار کسان اورمویشی پال افراد اپنے
مویشی(ڈھوڑ ڈنگر)بیچنے پر مجبو ر ہیں اور ریٹس کی صورت حال بھی مخدوش ہے
حالانکہ بقر عید کی آمد آمد ہے لیکن جانوروں کو مناسب قیمتوں پر خریدنے
کیلئے کوئی تیار نہیں فاقوں کی نوبت آن پہنچی ہے
مذکورہ بالا حقائق کے دیکھتے سنتے اور سمجھتے ہوئے بھی حکومت نے آنکھیں
موند لی ہیں اور کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں صم بکم عم کے مترادف معیشت کے
ستون کو طاقتور بنانے والوں کی نقاہت اور کمزوری سے حکومت کو کوئی سروکار
نہیں۔’جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے‘کے مصداق گورنمنٹ
تساہل عارفانہ سے کام لے رہی ہے۔محنت کش غریب کسان بھوکے مررہے ہیں زمینیں
ویرانی کا منظر پیش کررہی ہیں۔گندم کا ریٹ نہیں ملتا کپاس تباہ ہوچکی ہے
چاول کی قیمت گرچکی ہے وہ چاول جو کبھی ایکسپورٹ کیا جاتا تھا بے توقیر
ہوچکا ہے گناکو کوڑیوں کے بھاؤ خریدا جارہا ہے گورنمنٹ نے بجلی کے بل
بڑھادیئے ہیں۔ٹیکس پر ٹیکس لگائے جارہے ہیں اور اس ٹیکس کا عوام کو کہیں پر
بھی کوئی فائدہ نظر نہیں آرہا۔جنوبی پنجاب وائٹ گولڈ کی سرزمین رفتہ رفتہ
حکومتی پالیسیوں غفلت اور عدم دلچسپی کے باعث سلور سے بھی کم حیثیت اختیار
کرتی جارہی ہے۔ ایسی صورت حال میں حکومت کو اپنے اداؤں پر ذرا غور کرنا
چاہئے کہ وہ کسانوں کے آبیانہ کو معاف کرے اور بلاسود آسان اقساط پر قرضے
فراہم کرے اور میرٹ کو بنیاد بنا کر غریب مزدور اور کسان کو ترجیح دے سابقہ
قرضہ جات بھی معاف کئے جائیں اس کیلئے ایسا لائحہ عمل وضع کیا جائے کہ
مستحق حقیقی کو اس کیٹاگری میں شامل کیا جائے وہ لوگ جنکی ملکیتی زمین نہیں
مستاجر ہیں فصل تباہ ہوچکی ہے جانور بک چکے ہیں مقروض ہوچکے ہیں ان کو پہلے
فیز میں رکھا جائے بعد ازاں دوسرا تیسرا فیزمرتب کیا جائے۔رجسٹریشن کا عمل
شفاف اور بلاتفریق ہونا چاہئے 5000 روپے فی ایکٹر کا نقصان اونٹ کے منہ میں
زیرے کے مترادف ہے حکومت کسانوں سے مذاق بند کرے اور نقصان کی مد میں دیئے
جانیوالی رقم کو بڑھایا جائے ۔زرعی شعبہ سے منسلک تمام مستعمل اشیا پرسبسڈی
دی جائے اور سب سے اہم بات کہ کپاس کا ریٹ کم ازکم 4000 روپے فی من مقرر
کیا جائے اوسب سے بڑی بات کہ اس پر عملدرآمد کو یقینی بنایاجائے۔کیونکہ
کاشتکار خوشحال ہوگا تو ملکی معیشت پر بھی اچھے اثرات مرتب ہونگے کاشکار کی
خوشحالی زراعت کی خوشحالی سے وابستہ ہے زراعت کی خوشحالی میں ہماری معیشت
کی توانائی اور تونگری کا راز مضمر ہے جب معیشت توانا ہوگی تو ملک خوشحالی
کی راہ پرگامزن ہوگا اور ملکی خوشحالی سے عوامی خوشحالی کا چولی دامن کا
ساتھ ہے یہ ایک سرکل ہے جس طر ح ایکو سسٹم کام کرتا ہے جس میں جاندار و بے
جان ایکدوسرے کے معاون و مددگار ثابت ہوتے ہیں ایکدوسرے کی منفعت وابستہ
ہوتی ہے اسی طرح معیشت کا پہیہ بھی چلتا ہے اوراس پہیے کے گھومتے رہنے میں
ہی سب کی بھلائی ہے- |
|