کسانوں کا معاشی استحصال
(Mian Khalid Jamil, Lahore)
“ دیگر مافیاز کی طرح ایجوکیشن
مافیا، کسانوں کا معاشی استحصال، کنٹرول لائن پر آرمی چیف کا فوجی جوانوں
کو خراج تحسین “
پاکستان کے آئین میں یہ واضح طور پر تاکید کی گئی ہے۔ ’’پاکستان کی ریاست
کو ناخواندگی کا خاتمہ کرنا ہوگا ، مفت اور لازمی ثانوی تعلیم مہیا کرنی
ہوگی۔‘‘ انسانی ترقی کی رپورٹ کے حوالے سے اقوام عالم کی فہرست میں
پاکستانی قوم کا نمبر136واں ہے۔ آبادی کے لحاظ سے اگرچہ پاکستان دنیا کا
چھٹا سب سے بڑا ملک شمار کیا جاتا ہے مگر یہاں کی آبادی کی غالب اکثریت
بنیادی تعلیم تک سے محروم ہے۔ ہمارا تعلیمی معیار کیا ہے؟ ہمارے ملک کا ہر
دوسرا بچہ سکول نہیں جا رہا۔ اور جو بچے سکول جارہے ان کو بھی دو اقسام میں
تقسیم کردیا گیا ہے ایک سرکاری سکول کے طلبہ اور دوسرے پرائیویٹ سکول کے
طلبہ۔ پھر انہیں مزید نصابی تقسیم میں دھکیل دیا گیا ہے، سرکاری سکولوں میں
تعلیم کا کوئی پرسان حال نہیں جبکہ پرائیویٹ سکولوں میں فیسوں کے حوالے سے
کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں۔ جس کا جتنا دل چاہتا ہے فیسیں وصول کر رہا ہے۔
مجبور والدین سینکڑوں مسائل میں اُلجھے ہوئے ہیں، گزشتہ دنوں پرائیویٹ
سکولوں سے تنگ والدین کو سڑکوں پر, یہ وہ والدین ہیں جو اپنے بچوں کا بہتر
مستقبل بنانے کیلئے اپنی جیبیں کاٹ کر اُن بچوں کو پڑھا رہے ہیں جن کے
تعلیمی اخراجات اُٹھانے کی ذمہ داری ریاست پر عائد ہوتی ہے۔ ہمارے تعلیمی
اداروں کے مالکان جو خالصتاََ اس مقدس پیشے کو بطور ’کاروبار‘ چلا رہے ہیں
ہمارے بے حس حکمران اس مقدس پیشے کو بھرے بازار میں بیچ کر کانوں میں
انگلیاں دبائے، آنکھیں بند کیے اوندھے منہ سو رہے ہیں۔ ہمارے سیاستدان
نظام کو کیا ٹھیک کریں گے؟ شوگر مافیا، بزنس مافیا، فرٹیلائزر مافیا، قبضہ
گروپ مافیا اور سیمنٹ مافیا کے بعد اب ان کرپٹ سیاستدانوں کی بدولت
’’ایجوکیشن مافیا‘‘ نے بھی مارکیٹ میں قدم رکھ دئیے ہیں ماں باپ پرائیویٹ
سکولوں کی ’’انڈسٹری‘‘ سے تنگ بے بسی کی تصویر بنے بیٹھے ہیں لیکن ہمارے
حکمران کروڑوں کے منصوبے شروع کرکے اربوں روپے کی تشہیر کے ذریعے میڈیا کا
منہ بند کیے ہوئے ہیں۔ حرام پیسہ کمانے کی دھکم پیل نے حکومتی ایوانوں کو
اس قدر اندھا اور بہرہ کر رکھا ہے کہ اسے پرائیویٹ سکولوں میں کام کرنیوالے
اساتذہ کی تنخواہ کا بھی علم نہیں ایجوکیشن کو انڈسٹری بنانا لعنت ہے لیکن
کیونکہ جمہوریت کی طرح یہ لعنت بھی سرمایہ دارانہ دنیا سے آئی ہے جو ہمارے
اَن داتا ہیں اس لئے الہامی ہے۔ ان تعلیمی اڈوں کے مالکان کو پوچھنے والا
کوئی نہیں، مقام افسوس ہے کہ ان لوگوں کے احتساب کیلئے کسی ادارے کے قیام
کو عمل میں نہیں لایا گیا۔ سوال ان پرائیویٹ سکول مالکان سے ہے جنہوں نے
تعلیم کی آڑ میں کاروبار کا جال پھیلا رکھا ہے۔ آج تعلیم کے مقدس نام پر
لوٹ مار کا مکروہ دھندہ جاری ہے۔ عوام کیلئے تعلیم و صحت جیسی بنیادی
ضروریات فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے، لیکن لگتا یہ ہے کہ ذمہ داری کو
قبول کرنے والا کوئی حکمران موجود نہیں، جسکے ضمیر کو جھنجوڑ کر پوچھا جائے
کہ تعلیم کا بیڑہ غرق کیوں کیا جارہا ہے۔ بد قسمتی یہ ہے کہ اٹھارہویں
ترمیم کی منظوری کے بعد تعلیم کو وفاق کی بجائے صوبائی معاملہ قرار دیا جا
رہا ہے اور اسکی نگرانی کیلئے بھی کوئی طریق کار وضع نہیں کیا گیا۔ یہ وہ
کاروبار ہے جس پر آمدن کا حساب لینے کیلئے کوئی FBR وجود میں نہیں آیا
نام نہاد پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے جتنا لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کر رکھا
ہے اسکی مثال کہیں نہیں ملتی، حکومت سے سوال ہے کہ وہ ٹیکس کیوں لیتی ہے؟
حکومت کہاں سو رہی ہے؟ حکومت اس مقدس پیشے سے کالی بھیڑوں کو نکالنے کیلئے
اقدامات کیوں نہیں کر رہی، کیا حکومتی ایوانوں میں ان اداروں کے مالکان
براجمان ہیں؟ اور ٹیکسٹائل ملز کی طرح پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا کارٹل
ہے۔ہر کارٹل پریشر گروپ ہوتا ہے جو سرمایہ دارانہ نظام اور سرمایہ داروں پر
ذرا آنچ نہیں آنے دیتا۔ ان اداروں نے فیسوں میں 25 فیصد تک اضافے کو سالانہ
معمول بنا رکھا ہے۔ شاید ہی کوئی پرائیویٹ ادارہ ایسا ہو جو سرکاری پے
سکیلوں کے مطابق ٹیچرز کو تنخواہیں دے رہا ہو۔ شریف حکومت کی ترجیحات میں
تعلیم شامل نہیں۔ سرکاری سکول این جی اوز کی جھولی میں ڈال دیئے گئے ہیں۔
تعلیم کے حوالے سے قوم کو مخمصے سے نکالا جائے۔ سرکاری تعلیمی اداروں
کے غیر معیاری ہونے کے تاثر کو زائل کیا جائے۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی
فیس سینکڑوں روپے سے شروع ہو کر ہزاروں روپے پہ ختم ہوتی ہے۔ بیشتر سکولوں
کی ماہانہ فیس دو ہزار سے 40ہزار روپے تک ہے جبکہ ایم اے، ایم ایس سی اور
ایم فل اساتذہ انہی سکولوں میں زیادہ سے زیادہ 30ہزار روپے ماہانہ تنخواہ
پر آٹھ گھنٹے یومیہ کام کررہے ہیں۔
گویا ٹیچر کی تنخواہ ایک طالب علم کی ماہانہ فیس سے بھی کم ہے یہی وجہ ہے
کہ اکیڈیمیاں تیزی سے گروپ آف کالجز میں بدل رہی ہیں، میڈیکل کالجوں اور
انجینئرنگ یونیورسٹی میں داخلے کے لئے انٹری ٹیسٹ نے اکیڈیمیوں کو اتنے
بھاگ لگائے کہ وہ گروپ آف کالجز کہلانے لگیں۔ اگر انٹری ٹیسٹ اتنا ہی معتبر
ہے تو پھر سارے اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈز کو تالے کیوں نہیں لگا دیئے جاتے۔
کیا سارے تعلیمی بورڈز انٹری ٹیسٹ کی طرز کا امتحان لینے سے قاصر ہیں؟ اس
سوال کا جواب کسی وزیراعلیٰ اور کسی وزیر تعلیم کے پاس تو ضرور ہونا چاہیے۔
انٹری ٹیسٹ کی بدولت اکیڈمی مافیا کسی قبضہ گروپ سے کم طاقتور نہیں رہا۔
انٹری ٹیسٹ کی تیاری کروانے والی اکیڈیمیاں صرف لاہور میں تیس ارب روپے سے
زائد رقم ٹیوشن فیس کی شکل میں کما رہی ہیں۔ پنجاب اسمبلی سے پانچ سال میں
سکول ریگولیٹری اتھارٹی کا بل بھی پاس نہ ہو سکا۔ افسوس ناک بات یہ بھی ہے
کہ سرکاری محکموں کے کلرک بڑے بڑے نامور سکولوں کے مالکان بنے ہوئے ہیں۔
پاکستان میں ہاﺅسنگ سکیموں اور تعلیمی اداروں سے بڑی منافع بخش تجارت اور
کوئی نہیں۔ سٹاک مارکیٹ بھی بڑے بڑوں کو اوپر سے نیچے لے آتی ہے لیکن
تعلیمی مارکیٹ کا طلسم کبھی نہیں ٹوٹا۔ شریف حکومت ساری ذمہ داریاں سرمایہ
داروں کو سونپتی جا رہی ہے تاکہ وہ امیر سے امیرترین بن جائیں اور استحصالی
نظام کی جڑیں گہری ہوتی جائیں۔ اس وقت پورے ملک میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں
نے سرکاری اداروں کو بے توقیر کردیا جب بھی مسلم لیگ(ن) اقتدار میں آتی ہے
پاکستان کے کسان مشکلات کا شکار ہوجاتے ہیں۔ کسان کئی ماہ سےسڑکوں پر
احتجاج کرتے رہے ہیں۔ ناسازگار موسم، اجناس کی عالمی مارکیٹ میں گرتی ہوئی
قیمتوں، پیداواری لاگت میں اضافہ اور آمدنیوں میں نمایاں کمی نے کسانوں کو
سراپا احتجاج کردیا۔ مزدور اور کسان معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کا درجہ
رکھتے ہیں مگر آج تک ان کو عزت کے ساتھ معیاری زندگی گزارنے کا حق نہیں ملا۔
بلدیاتی انتخابات کے اعلان کے بعد مسلم لیگ(ن) کی قیادت نے محسوس کیا کہ
اگر کسانوں کو ریلیف نہ دیا گیا تو مسلم لیگ(ن) کو بلدیاتی انتخابات میں
شکست کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے چنانچہ وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف نے
موقع اور محل کے مطابق جناح کنونشن اسلام آباد میں کسانوں کے کنونشن میں
کسان پیکیج کا اعلان کیا نوازشریف کی جانب سے کسانوں کیلئے اعلان کردہ
پیکیج ناکافی ہے اور اس موقع پر کسانوں کیلئے پیکیج کا اعلان صرف اور صرف
بلدیاتی انتخابات میں کسانوں سے ووٹ لینے کا حربہ ہے۔ کسان پاکستان کی 75%
آبادی ہیں جن کا معیار زندگی بلند کرنا پاکستان کی خوشحالی کا ضامن ہوگا
لیکن یہاں بدقسمتی سے زراعت پر حکومت نے کبھی توجہ ہی نہیں دی اور یہ حکومت
تو ویسے بھی صنعتکاروں کی حکومت ہے اس لئے ان سے یہ امید بہت کم ہے مسلم
لیگ(ن) کی قیادت کو علم ہے کہ کونسا کارڈ کب استعمال کرنا ہے۔ وزیراعظم
نواز شریف کو گورنس کے مسائل کا سامنا ہے۔ انتخابی مہم کے دوران انہوں نے
عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ کامیاب ہوکر عوام کو اچھی حکومت دیں گے۔ وزیروں،
مشیروں اور افسروں کی تعیناتی میرٹ پر کی جائے گی۔ حکومتی کارکردگی کا ہر
تین ماہ بعد جائزہ لیا جائے گا اور اس مقصد کے لیے وزیراعظم سیکرٹریٹ میں
مانیٹرنگ سیل قائم کیا جائے گا۔ افسوس وزیراعظم انتخابی وعدوں کے مطابق
عوام کو اچھی اور معیاری حکومت نہیں دے سکے۔ ہر روز ایک نیا سکینڈل سامنے
آرہا ہے جو بیڈ گورنینس کی گواہی دیتا ہے۔ نندی پور پراجیکٹ کا سکینڈل آجکل
میڈیا کا نمبرون مسئلہ بنا ہوا ہے اور وزیراعظم نے اس کا مکمل آڈٹ کرانے کا
حکم جاری کیا ہے جبکہ نیب نے بھی انکوائری شروع کردی ہے۔ سوال یہ ہے کہ
حکومت میگا پروجیکٹس کی نگرانی کے لیے قابل عمل نظام وضع کیوں نہیں کرسکی۔
منصوبے مجرمانہ غفلت کا شکار کیوں ہورہے ہیں۔ حکومتی تمام اقدامات ان کے
اپنے منشور سے متصادم ثابت ہیں یوں یہ عوام میں اپنا اعتماد مکمل کھو چکے
اور اپنی ساکھ بچانے کیلئے نوازشریف صاحب بار بار آرمی چیف سے ملاقاتیں
کرکے اسکے کوریج میڈیا پر چلا کر عوام پر ثابت کرنے کی کوششوں میں ہمہ تن
مصروف نظر آتے ہیں کہ بھاڑ میں جائے ملک و قوم کے مسائل، بھاڑ میں جائے
توانائی بحران ختم کرنے کے عوامی وعدے، بھاڑ میں جائے تباہ ہوتی ہوئی قومی
معیشت، بھاڑ میں جائیں مہنگائی کے ستائے یہ عوام، اور بھاڑ میں جائے خراب
امن و امان کہ جس کی بحالی کیلئے پاک فوج میدان عمل میں ہے، اور بھاڑ میں
جائے داخلہ پالیسی اور بھارت کو کھلی چھٹی ہے کہ جتنی مرضی کنٹرول لائن پر
دراندازی کرے اور بھاڑ میں جائے خارجہ پالیسی کہ ہم بھی فل ٹائم وزیر خارجہ
نہیں رکھیں گے اور یہ وزیر دفاع اوع نہ وزارت قانون۔ بس خانہ پوری کیلئے
اضافی قلمدانوں سے ہی کام چلایا جانا بہتر جانا کہ اس سے غیر ملکی آقاوں کا
ایجنڈہ پورا ہو رہا ہے اس وقت ملک میں پاک افواج اورجنرل راحیل شریف کو
پذیرائی حاصل ہو رہی انہوں نے حکومت کے خلاف دھرنا کے وقت کوئی سیاسی فائدہ
اٹھایا ۔ جنرل راحیل شریف ملک میں دہشت گردی ختم کرنے کے لئے جرات و
استقامت سے ’’ضرب عضب ‘‘ کی قیادت کر رہے ہیں ۔ پاک افواج اورجنرل راحیل
شریف کی عزت و توقیر میں ضرب عضب ‘‘کی کامیابی نے اضافہ کیا ۔وزیراعظم نواز
شریف کہتے ہیں کہ ہمسائے تبدیل نہیں ہو سکتے ، افسوس نواز شریف ہمیشہ بھول
جاتے ہیں کہ ایسا بیان کبھی بھی بھارتی وزیر اعظم نے کبھی نہیں دیا اور نہ
اس نے پاکستان کیساتھ دوستی کو اہم گردانا اور نواز شریف ہمیشہ آنکھیں بند
کرکے عوامی امنگوں کے خلاف بھارت سے یکطرفہ دوستی کی پینگیں بڑھانے کی ذاتی
خواہشوں پر مبنی بیانات دیتے بھول جاتے ہیں کہ یہ وہی بھارت ہے جس نے
پاکستان کو دولخت کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا اور اس کا اقرار بھارتی
وزیراعظم نے گزشتہ اپنے دورہ بنگلہ دیش میں عالمی میڈیا کی موجودگی میں کیا
کہ پاکستان کو توڑنے میں ہم (بھارت) نے اہم کردار ادا کیا تھا اور افسوس کہ
نواز شریف کو مسئلہ کشمیر دانستہ یاد نہیں رہتا اس حوالے سے انکی یادداشت
کام نہیں کرتی جبکہ پاک آرمی چیف اس حوالے سے قومی امنگوں کی مکمل ترجمانی
کرتے نظر آتے ہیں اور انہوں نے کنٹرول لائن پر فوجی جوانوں کے پاس پہنچ کر
جہاں انکا حوصلہ بھر پور بڑھایا وہاں انہوں انکو ایڈوانس عید کی مبارکباد
بھی دی. کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہمارے وزیراعظم بھی کبھی اس اہم مسئلے کو نہ
بھولتے ہوئے قومی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے کنٹرول لائن پر جائیں اور فوجی
افسران اور جوانوں کیساتھ اپنا وقت گزارتتے اور انہیں بھر پور حوصلہ دیتے
ایسا کرنے سے قومی سطح پر یقینی طور پر انہیں قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا
جاتا ۔ پاک فوج کےسربراہ جنرل راحیل شریف کا کہنا ہے کہ لائن آف کنٹرول اور
ورکنگ باؤنڈری پربھارتی اشتعال انگیزی' دہشت گردی کے خلاف جنگ سے' پاکستان
کی توجہ ہٹانےکی کوشش ہے۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے لائن آف کنٹرول پر
اگلے مورچوں کا دورہ کیا، اس موقع پرانہوں نے بھارت کی بلااشتعال فائرنگ کے
بھرپورجواب پر فوجیوں کی تعریف کی اور انہیں عید الاضحیٰ کی پیشگی مبارک
باد دی۔کنٹرول لائن پر فوجی جوانوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاک فوج سخت
جنگی تربیت کی حامل فورس ہے، جو بیک وقت دو مختلف اقسام کی جنگیں کامیابی
سے لڑ رہی ہے، پاک فوج مادر وطن کے ہر انچ کی حفاظت کی صلاحیت رکھتی ہے،
بھارت لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر سیز فائرلائن کی مسلسل خلاف
ورزی کررہا ہے،بھارتی اشتعال انگیزی دہشت گردی کے خلاف جنگ سے پاکستان کی
توجہ ہٹانے کی کوشش ہے لیکن پاک فوج کے جوان بھارتی بلا اشتعال فائرنگ کا
بھرپور جواب دے رہے ہیں۔ کنٹرول لائن کی قریبی آبادیوں کے مکینوں سے اظہار
یکجہتی اور بھارتی فائرنگ سے شہید ہونے والے شہریوں کو زبردست خراج عقیدت
پیش کیا،انہوں نے کہا کہ پاک فوج بھارتی فائرنگ سے متاثرہ شہری آبادی سے ہر
ممکن تعاون کرے گی۔ |
|