یمن کی ملکۂ سبأ

یمن میں ۱۲۰۰ ق م سے لےکر۲۷۵ ء تک مملکت سبأ قائم رہی،جو باب المندب سے خلیجِ عرب،عراق اور شام کے کچھ حصوں پر قائم تھی،دارالحکومت (مأرب) تھا،جو آج کل شدید لڑائی کی زد میں ہے،یہاں بے مثال سرسبز وادیوں اور باغات کا ایک طویل سلسلہ تھا، اسی مأرب کے مقام پر دنیا کا سب سے پہلا ڈیم بنایا گیاتھا،قرآن کریم نے بڑے دلچسپ انداز میں اس مملکت، اس کے ڈیم اور اس کے لا متناہی باغات کا تذکرہ سورۂ سبأ میں کیا ہے،۷۰۰ ق م میں یہاں کی ملکہ بلقیس کو حضرتِ سلیمان ؑ کا مراسلہ اور اس کے جواب میں بلقیس کا اپنی پارلیمنٹ سے مشاورت ، پھر حضرت کی خدمت میں حاضری، ان کے پہنچنے سے قبل ان کے تخت کا آموجود ہونا اور وہاں جاکر کانچ کے ایک محل کا عجیب نظارہ، یہ سب ہر کسی کے لئےدلچسپی سے خالی نہیں، سورۂ نمل میں اس شیش محل کو (صرحٌ ممرّدٌ مِنْ قواریر) کہا گیا ہے، اس کی تفصیل کچھ یوں ہے: مجلس میں جب حضرت سلیمان کو ملکۂ بلقیس کی آمد کا علم ہوا تو آپ ؑنے تمام ارکان کو مخاطب فرمایا، تم میں سے کون ہے جو ملکۂ بلقیس کے تخت کو مجلس برخاست ہونے سے قبل یہاں لے آئے ؟ یہ سنتے ہی ایک جن (عِفریت) آگے بڑھا اور گویا ہوا، حضور! آج کا یہ دربار برخاست ہونے سے قبل میں ان کا تخت میں آپ کے قدموں میں لا کر ڈال سکتا ہوں ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام فرمانے لگے ، نہیں، تب تو بہت دیر ہو جائیگی۔ مجھے تو اس سے بھی بہت پہلے ملکہ کا تخت یہاں چاہئے ۔‘‘ ملکہ کے تخت کے بارے میں مختلف کتب میں مختلف روایات آئی ہیں ۔ ایک جگہ لکھا ہے کہ یہ وہی تخت ہے جو( ہد ہد) نے دیکھا تھا اور واپس آ کر حضرت سلیمان کو یہ پوری کہانی بتائی تھی ، اس کا فاصلہ حضرت سلیمان کی حدود مملکت بیت المقدس(فلسطین) سے تقریباً ڈیڑھ ہزار میل کے فاصلے پر تھا، اس تخت کے متعلق یہ بھی لکھا ہے کہ اس کاطول 80 ہاتھ اور عرض 40 ہاتھ تھا اور اس کی اونچائی 30 ہاتھ تھی، اس میں سرخ یا قوت، سبز ز مرد اور کئی اقسام کے موتی جڑے ہوئے تھے (فتح القدیر)، تفسیر ابن کثیر میں لکھا ہے کہ اس کا تخت نہایت ہی شان دار تھا، جس پر وہ جلوہ افروز ہوتی تھی ، سونے سے منڈھا ہوا ہے اور جڑاؤہوا، مروارید کی اس پر کاری گری کی گئی تھی، یہاں 600 عورتیں اس کی خدمت کیلئے ہمہ وقت کمر بستہ رہتی تھیں ، اس کا یہ دیوان ِخاص جس میں یہ تخت رکھا ہواتھا ،بہت بڑا محل تھا، بلند و بالا، کشادہ و فراخ، پختہ و مضبوط اورنہایت صاف سُتھرا، جس کے شرقی حصے میں 360 طاق تھے اور اتنے ہی مغربی حصے میں بھی تھے ، اسے اس مہارت سے بنایا گیا تھا کہ ہر دن سورج ایک طاق سے نکلتا اور اسی کے مقابل کے طاق میں غروب ہوتا، اہل دربار صبح و شام سورج کو یہاں سے سجدہ کرتے تھے ، حکمراں اور رعایا سب آفتاب پرست تھے ، توحید پرست ان میں کوئی ایک بھی نہ تھا۔ اس عظیم الشان تخت کو حضرت سلیمان کے دربار میں لانے کی ذمے داری ایک نیک بندے نے لی، اجازت ملتے ہی آصف بن برخیاہ پلک جھپکتے ملکۂ بلقیس کا تخت اٹھا لایا اور حضرت سلیمان کی خدمت میں پیش کر دیا، اس کا ذکر قرآن حکیم میں تفصیلاً موجود ہے ، ’’جس شخص کے پاس کتاب کا علم تھا وہ بولا، میں آپ کی پلک جھپکنے سے پہلے اسے لا دیتا ہوں ۔ جوں ہی سلیمان نے وہ تخت اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا، فوراً بول اٹھا ،یہ میرے رب کا فضل ہے ۔ ‘‘ (سورہ النمل آیت 39) ابن عباسؓ کا قول ہے ،کہ وہ آصف تھے جو سلیمان کے کا تب تھے ۔ ان کے والد کا نام برکیا یا برخیاہ تھا، ایک اور روایت میں تخت لانے کا نام برخیاہ لکھا ہے ، ایک جگہ انہیں ولی اللہ لکھا ہے جو اسم اعظم بھی جانتے تھے ۔ مجاہد کہتے ہیں کہ ان کا نام اسطوم تھا، بعض کہتے ہیں، کہ ان کا لقب ذوالنور تھا۔ واللہ أعلم۔

جب تخت آ گیا تو حضرت سلیمان نے حکم دیا کہ اس کے تخت میں کچھ تبدیلی کر دو، تاکہ معلوم ہو جائے کہ یہ راہ پا لیتی ہے یا ان میں سے ہوتی ہے جو راہ نہیں پاتے ۔ ‘‘ (النمل آیت 41) ،اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے مفسرین لکھتے ہیں کہ تخت کے رنگ، روپ اورہیئت میں تبدیلی کی بناء پر وہ اپنے تخت کو پہچان پاتی ہے یا نہیں ،جب وہ آئی اور اس نے اس تخت کو دیکھا، تو ان سے پوچھا گیا، کیا اسی طرح آپ کا تخت ہے ؟ طبیعیاتی تبدیلی ہو جانے کی وجہ سے اس نے صاف الفاظ میں اس کے اپنے ہونے کا اقرار بھی نہیں کیا اوراپنے ہونے کی نفی بھی نہیں کی ، بلکہ یہ کہا ، ’’گویا وہی ہے ‘‘ اس میں اقرار ہے نہ نفی، بلکہ نہایت محتاط اوردرمیانہ جواب ہے ۔ اصل الفاظ قرآن حکیم کے مطابق یہ ہیں ۔ ’’پھر جب وہ آ گئی تو اس سے کہا گیا، ایسا ہی تیرا تخت ہے ؟ اس نے جواب دیا (کَأَنَّہُ ہُوَ)،یہ توگویا وہی ہے ،اورحضرتِ سلیمان کے بارے میں مزیدکہا، ہمیں اس سے پہلے ہی معلوم ہوچکا تھا اور ہم مسلمان ہوچکے ہیں ‘‘ (آیت 42 ا)۔اس سے اگلی آیت میں فرمایا گیا: ’’اسے انہوں نے روک رکھا تھا جن کی وہ اللہ کے سوا پر ستش کرتی رہی تھی۔ یقینا ًوہ کافر لوگوں میں سے تھی۔‘‘ (النمل آیت 43) ۔حضرت سلیمان نے ملکۂ بلقیس کی مہمان نوازی کے طور پر جنات سے ایک محل تعمیر کروایا جس کا فرش شفاف شیشے کا تھا اور شیشے کے نیچے پانی سے بھر ا وسیع و عریض نہر جاری تھا۔ اس پر چلنے والا یہ امتیاز نہیں کر سکتا تھا کہ وہ درحقیقت شیشے کے فرش پر چل رہا ہے ۔ چنانچہ یہی مغالطہ بلقیس کو بھی ہوا، اور اس پر چلتے ہوئے انہوں نےاپنے پائینچے اوپر کر لیے، جیسے وہ پانی پر سے گزر رہی ہو اور اپنے لباس کو گیلا ہونے سے بچا رہی ہو،قرآن حکیم میں ارشاد ہے ۔ ’’اس سے کہا گیا کہ محل میں چلی چلو، اسے دیکھ کر یہ سمجھ کر کہ یہ نہر ہے ، اس نے اپنی پنڈ لیاں کھول دیں ، فرمایا، یہ تو شیشے سے منڈھی ہوئی عمارت ہے ۔ کہنے لگی، میرے پرورد گار! میں نے اپنے آپ پر ظلم کیا، اب میں سلیمان کے ساتھ اللہ رب العالمین پر ایمان لاکرفرماں بردار بنتی ہوں ۔ ‘‘ (سورة النمل (آیت 44)۔

تواریخ میں ہے کہ ان کا اور حضرتِ سلیمان کاعقد نکاح ہوا، یوں بعد میں ان کی حکومت حبشہ اور قریبی تمام علاقوں میں قائم ہوگئی تھی، یمن کی موجودہ صورتِ حال کے پیش نظر ہم کچھ کالموں میں یمن کے بادشاہوں تبّع(تبابعہ) اور حِمیَر وغیرہ کا تذکرہ کرنا چاہیں گے،تاکہ تاریخی حوالوں یمن کی اہمیت اور یہاں کی حکمرانی کا اندازہ ہو،إن شاء اللہ۔
 
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 878426 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More