وفاقی طبی اداروں کی صوبے کو حوالگی، ملازمین ڈٹ گئے

ملک کی طبی تاریخ کا ایک انوکھا ترین واقع ہوئے کئی روز گزر چکے ہیں، احتجاج کرنے والے روزانہ ہی سر پر کفن باندھ کر میدان میں نکلتے ہیں، اپنے مطالبات منوانے کے لئے شاہراہ فیصل بلاک کرنا ہو، جناح اسپتال سے کراچی پریس کلب یا گورنر ہاﺅس تک مارچ ہو یا شہر کے سب سے بڑے طبی مراکز جناح اسپتال، قومی ادارہ امراض قلب یا قومی ادارہ برائے صحت اطفال میں بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر کام کرنا ہو انہوں نے کوئی جائز حربہ باقی نہیں چھوڑا جس سے ارباب اختیار اور اقتدار کی توجہ اپنے اوپر ہونے والے ظلم پر مبذول کروائی جا سکے۔ ہاں یہ واقعہ کچھ ایسا ہی ہے کہ اسے ظلم قرار دیا جائے، بلکہ شاید اس سے متاثر ہونے والے اسے ظلم سے بھی آگے کی کوئی چیز قرار دینے پر اسرار کریں، تاہم فی الوقت وہ اس کے ممکنہ نقصانات اور اثرات کے متعلق اتنے ہی پریشان ہیں جتنا انہیں ہونا چاہئے۔

واقعہ یہ ہے کہ وفاقی محکمہ صحت کی جانب سے تینوں بڑے طبی مراکز کو صوبائی تحویل میں دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ باوثوق ذرائع کی جانب سے فراہم کردہ اطلاعات کے مطابق طبی مراکز کو صوبائی تحویل میں دینے کا باقاعدہ اعلان اس لئے سامنے نہیں آرہا کہ گورنر اور وفاق کی سطح پر جاری معاملے میں ہونے والے ممکنہ احتجاج سے بچا جا سکے، تاہم میڈیا کی چابکدستی کی وجہ سے ایک بار پھر ذہنوں میں پلنے اور ائیر کنڈیشنڈ دفتروں میں بنائے جانے والے عاجلانہ اور بے بنیاد فیصلوں میں سے ایک اور نہ چاہنے کے باوجود سامنے آگیا۔ یقیناً اس کے ذمہ داروں کو اب یہ سمجھ نہیں آر ہی کہ وہ کیسے اس سے نمٹیں۔ جہاں تک اس واقعے سے منسوب کیے گئے انوکھے پن کا تعلق ہے تو اپنے حافیانہ کیرئیر میں ہم نے یہ پہلی بار دیکھا ہے کہ کسی ایک نہیں تین اداروں کے ڈاکٹر، مرد و خواتین نرسنگ اسٹاف اور پیرا میڈیکل ملازمین ایک آواز ہو کر ایک ہی جیسے مطالبات منوانے کے لئے میدان میں ہیں۔ عموماً یہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹرز کا مطالبہ، نرسز اور پیرا میڈیکل ملازمین کی توجہ حاصل نہیں کر پاتا اور مؤخر الذکر دونوں جانب سے کی جانے والی بات معزز معالجین کے لئے دلچسپی کے قابل نہیں ہوتی۔ اگرچہ پی ایم اے کی سطح پر کبھی کبھار جاری ہونے والی کسی پریس ریلیز میں غیر طبی عملے اور نرسز کے حقوق کی بات بھی کر لی جاتی ہے لیکن واقفان حال اسے چند سطریں بڑھا کر مظلومین میں اضافے کی کوشش سے زیادہ اہمیت دینے کو تیار نہیں ہوتے۔

بہرحال اس معاملے میں ایسا نہیں ہے، بلکہ تینوں شعبوں سے وابستہ کچھ لوگوں کے لئے جو اداروں کو بچانے کے خواہاں ہیں یہ زندگی اور موت کا معاملہ ہے اور کچھ دیگر جو دوسری صورت میں بھی اپنی ملازمت کو محفوط سمجھتے ہیں وہ شاید اتنے پریشان نہ ہوں تاہم نہایت واضح الجھن ان کے چہروں پہ بھی پڑھی جا سکتی ہے۔ آگے بڑھنے سے قبل ہم ایک نظر اس فیصلے کی ابتدائی طور پر دستیاب ہونے والی اور نمائندہ کی جانب سے کی گئی چھان بین کے بعد سامنے آنے والی تفاصیل پر ڈال لیتے ہیں۔

وفاقی محکمہ صحت کے ماتحت کراچی کے سب سے بڑے طبی مراکز جناح ہسپتال قومی ادارہ برائے صحت اطفال (این آئی سی ایچ ) اور قومی ادارہ برائے امراض قلب (این آئی سی وی ڈی) کو سندھ حکومت کی تحویل میں دینے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے، تاہم متوقع احتجاج اور دیگر مسائل سے بچنے کیلئے حتمی نوٹیفکیشن تمام تیاریاں مکمل کرنے کے بعد جاری کیا جائیگا، وفاقی محکمہ صحت کے ذرائع کی جانب سے یہ انکشاف انگیز اطلاع سامنے آنے کے فوراً بعد ہی طبی و غیر طبی عملے نے متوقع فیصلہ کے خلاف اعلان بغاوت کرتے ہوئے احتجاج کا فیصلہ کر لیا تھا جو سات روز سے زائد گزر جانے کے باوجود ہر روز ایک نئی شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ طبی اداروں سے وابستہ ذرائع نے پہلے سے فنڈز کی قلت اور بدعنوانیوں کا شاہکار صوبائی محکمہ صحت کو ان اداروں کا نگران بنانے کو عوام سے ظلم اور دستیاب سہولت چھیننے کی کوشش قرار دے دیا ہے۔

۲۱ سو بستروں پر مشتمل جناح ہسپتال وفاقی حکومت کے ماتحت چلنے والا ملک کا سب سے بڑا طبی مرکز ہے جہاں یومیہ ۰۱ ہزار اور ماہانہ ۳ لاکھ سے زائد مریض شعبہ حادثات، شعبہ بیرونی مریضاں (او پی ڈی)، گائنی ایمرجنسی اور تشخیصی لیبارٹریوں میں لائے جاتے ہیں۔ جبکہ مریضوں کو خدمات کی فراہمی کیلئے اڑھائی ہزار سے زائد ڈاکٹرز، نرسیں، پیرا میڈیکل ودیگر عملہ وفاقی حکومت کے ماتحت کام کر رہا ہے، جبکہ این آئی سی ایچ اور این آئی سی وی ڈی میں بھی بچوں اور امراض قلب کا شکار لاکھوں مریض ماہانہ بنیادوں پر لائے جاتے ہیں۔ جنہیں مہیا کی جانے والی طبی سہولیات آئیڈیل تو نہیں قرار دی جا سکتیں لیکن بہت سارے اداروں سے بہتر ضرور ہیں۔

طبی اداروں کی صوبے کو منتقلی کے حامی حلقوں کی جانب سے یہ دلیل دی جاتی ہے کہ ان اسپتالوں کی بد انتظامیوں کے متعلق میڈیا میں سب سے زیادہ مواد شائع ہوتا ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ یہاں مسائل بھی صوبائی طبی اداروں سے زیادہ ہیں، لہٰذا یہ کہنا کہ صوبے میں جانے کے بعد انہیں فنڈز کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، قبل از وقت بات ہے۔ دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کسی انتظامی نوعیت کی شکایت کی صورت میں اسے حل کرنے کے لئے کراچی میں کوئی متعلقہ فرد یا ادارہ موجود نہیں ہوتا اور اسلام آباد تک پہنچنے میں اتنا وقت لگ جاتا ہے کہ شکایت طبی و غیر طبی عملے کو ہو یا مریضوں کو دونوں ہی حل سے محروم رہتے ہیں۔ ان دونوں باتوں میں پہلی نظر میں وزن محسوس ہوتا ہے لیکن ان کا قریبی جائزہ لینے کے بعد یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ معاملہ کچھ اور ہے۔

یہی سوال جب ہم نے طبی اداروں کو وفاقی تحویل میں رکھنے کے حامی ملازمین سے کئے تو ان کا کہنا تھا کہ جناح اور اس سے ملحق دیگر دونوں طبی مراکز سے متعلق خبریں میڈیا میں جگہ اس لئے بنالیتی ہیں کہ یہاں کوئی ایسی قوت نہیں جو سچ کو چھپانے کے لئے غیر قانونی و غیر اخلاقی ہتھکنڈے اپنائے، کسی صحافی کو خبر دینے کے بعد اگلے روز کوئی دھمکی بھی نہیں ملتی جس میں اسے جان سے جانے یا کسی اور ممکنہ نقصان کی اطلاع دی جاتی ہو۔ جہاں تک انتظامی مسائل کا تعلق ہے تو اس کے لئے یونیورسٹی بننے کے بعد خود ایسا نظام بن جائے گا جس سے یہ شکایات دور ہو سکیں گی۔

وفاقی محکمہ صحت کے ذرائع کا طبی مراکز کو صوبے کی تحویل میں دینے کے متعلق مزید کہنا ہے کہ محکمہ صحت اور گورنر و صوبے کے مابین جاری مشاورت حتمی نتیجہ تک پہنچنے کے بعد فیصلہ کا اعلان باقی رہ گیا ہے۔ دیگر ابتدائی تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں۔ تاہم موجود ملازمین کے مستقبل کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے کہ انہیں بھی صوبے کے ماتحت کر دیا جائے گا یا وہ بدستور وفاق کے ماتحت رہ کر کام کریں گے۔ اس دوران موجودہ معاملے کے بالکل متوازی ایک اور کوشش بھی جاری ہے کہ سندھ میڈیکل کالج کو ڈاﺅ یونیورسٹی سے الگ کر کے نئی خودمختار یونیورسٹی بنا دیا جائے۔ احتجاجی مرد و خواتین اس بات کے تو حامی ہیں کہ ایسا ہونا چاہئے اور اس کی دلیل وہ یہ پیش کرتے ہیں کہ ایس ایم سی کے نام سے معروف سندھ میڈیکل کالج میں پڑھانے والے اساتذہ کا تعلق جناح اسپتال سے ہی ہے جب کہ یہاں کے طلبہ اپنی ہاﺅس جاب بھی جناح اور اس سے ملحقہ تینوں طبی اداروں میں مکمل کرتے ہیں۔ چونکہ ایس ایم سی اس وقت تک ڈاﺅ میڈیکل یونیورسٹی کا حصہ ہے جو صوبائی ادارہ ہے لہٰذا اس کے نتیجے میں متعدد انتظامی نوعیت کی مشکلات پیدا ہوتی رہی ہیں۔ ان مشکلات کے خاتمہ اور وفاقی ملازمین کو صوبائی تعلیمی ادارہ کے ماتحت رکھ کر کام کروانے کے بجائے یہ بہتر ہے کہ جناح یونیورسٹی کے نام سے نئی جامعہ بنا دی جائے۔ اس مطالبے کے حامی اپنی دلیل پر عملدرآمد کی صورت ممکنہ فائدوں میں سے ایک یہ قرار دیتے ہیں کہ اسکے نتیجے میں معیار تعلیم کی بہتری کے ساتھ ساتھ ملک کو ملنے والی ایک نئی یونیورسٹی تعلیمی شعبہ میں کئی نئے مواقع پیدا کرے گی۔

انہی ملازمین کا یہ کہنا ہے کہ صوبائی محکمہ صحت کے ماتحت ۶ سندھ گورنمنٹ ہسپتالوں، سروسز اور سول اسپتال کی ابتر حالت، وہاں ادویات کی قلت، عملے کی کمی، طبی آلات کی خرابی، سیاسی مداخلت اپنے عروج پر ہونا ایسے عوامل ہیں جن کی موجودگی میں وہ نئے اداروں کو اتنا بھی نہیں سنبھال پائیں گے جتنا وہ اب چل رہے ہیں۔ وفاقی طبی اداروں کی سندھ حکومت منتقلی کو سیاسی فیصلہ قرار دیتے ہوئے طبی و غیر طبی ملازمین کہنا ہے کہ یہ پہلے سے مشکلات کا شکار عوام کو مزید آزمائشوں میں مبتلا کرنے کی گھناؤنی سازش ہے۔ طبی اداروں سے وابستہ ذرائع نے اس فیصلے کو یہاں بھی حکومتی اتحادی جماعت کی عددی برتری اور ان پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش قرار دیا ہے۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ اس کے بعد ان اداروں کا بھی وہی حشر ہوگا جو اس وقت شہر میں موجود چند طبی مراکز کا ہے جن کے بارے میں طبی مرکز ہونے کا تاثر کم اور مذکورہ سیاسی جماعت کا صدر دفتر یا طبی ہیڈ کوارٹر ہونے کے زیادہ شواہد موجود ہیں۔ ذرائع کی جانب سے اختیار کیا گیا یہ مؤقف اس وقت زیادہ قابل اعتناء قرار پاتا ہے جب صوبائی محکمہ صحت کے زیر اہتمام چلنے والے شہر کے ٹرشری کئیر سطح کے سول اسپتال کی حالت کا قریبی جائزہ لیا جائے۔ مذکورہ اسپتال میں آنے والے مریضوں کو ادویات نہ ملنے، ہاﺅس آفیسر سطح کے ڈاکٹروں کا تختہ مشق بنے رہنے، تشخیصی ٹیسٹوں کے لئے اندر موجود لیبارٹریز کے باوجود کمیشن کے لئے نجی لیبارٹریوں پر بھیجنے، وارڈز میں چوریوں، انتظامی و مالی بے قاعدگیوں، سینیٹری ملازمین کی قلت کے باعث گندگی، ناکافی توجہ اور غیر اطمینان علاج کی شکایت کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔

اگرچہ وفاقی محکمہ صحت نے وفاقی اداروں کو سندھ حکومت کی تحویل میں دینے کی اطلاعات کی تاحال باقاعدہ تصدیق نہیں کی ہے لیکن وہ اس کی واضح تردید بھی نہیں کر رہا۔ جس کا واضح مطلب ان اداروں کے طبی و غیر طبی ملازمین یہ لیتے ہیں کہ دال میں کچھ نہیں بلکہ پوری کی پوری دال ہی کالی ہے جس کی وجہ سے صوبائی اور وفاقی سطح پر پکنے والی کھچڑی سے ابتدائی درجوں کے افراد کو بے خبر رکھا جا رہا ہے۔ جناح اسپتال کے انتظامی ذرائع اس بات کی تصدیق کر چکے ہیں کہ جناح اسپتال سمیت دیگر طبی مراکز کو صوبائی تحویل میں دئے جانےکی اطلاعات صداقت پر مبنی اور غیر منصفانہ ہیں۔ وفاقی حکومت کو چاہئے کہ وہ ان اداروں کی صوبے کو منتقلی کا فیصلہ فی الفور ختم کرتے ہوئے اس حوالے سے اب تک ہونے والی تمام پیش رفت کو کالعدم قرار دے۔ پرووینشل نرسنگ ایسوسی ایشن کراچی ڈویژن کے نائب صدر اعجاز کلیئری، جنرل سیکرٹری جہانزیب خان اور خزانچی فرحت ناز نے نمائندہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ تینوں طبی مراکز شہر بھر کے نادار اور متوسط طبقے کو علاج کی سہولت مہیا کرتے ہیں۔ اپنی موجودہ حیثیت میں بھی اگرچہ یہ فنڈ کی قلت کا شکار ہیں لیکن حالات ایسے نہیں کہ دوائیں سرے سے موجود ہی نہ ہوں یا سیاسی و دیگر اسباب کی وجہ سے انہیں نو گو ایریا بنا دیا گیا ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ مذکورہ اداروں کی صوبے کو منتقلی سے ملازمین اور آپریشنل نوعیت کے ایسے مسائل پیدا ہوں گے جو برسوں نہیں ختم ہو سکیں گے۔ ان مسائل کے پیدا ہونے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوگا کہ عام آدمی جو پہلے ہی اپنے علاج کے لئے ناکافی طبی سہولیات و دیگر مشکلات کا شکار ہے مزید پریشانیوں میں مبتلا ہوجائے گا۔ پی این اے کراچی ڈویژن کے رہنماﺅں کا یہ بھی کہنا تھا کہ وفاقی حکومت اداروں سے اپنی جان چھڑانے کو مسئلہ کا حل سمجھنے کے بجائے ناکافی سہولیات کو بہتر کرے، ملازمین کی قلت کو دور کیا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ یہ ادارے اپنا مقصد حاصل کرتے ہوئے کراچی کے باسیوں کو مطلوبہ خدمات فراہم کر سکیں۔

صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر صغیر احمد نے ایک موقع پر صحافیوں کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ صوبے کے پاس طبی اداروں کو چلانے کے لئے فنڈز کی قلت ہے لیکن اگر یہ ادارے ہمیں منتقل کئے جاتے ہیں تو وفاق کی جانب سے ان پر خرچ کی جانے والی رقم بھی آئندہ صوبے ہی کو منتقل ہوا کرے گی جس کی وجہ سے فنڈز کی قلت کا مسئلہ پیدا نہیں ہوگا۔

جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کی ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر سیمی جمالی کا کہنا تھا کہ تینوں اداروں کو چلانے کے لئے درکار بھاری بجٹ ایک ایسا پتھر ہے جسے اٹھانا صوبے کے بس کی بات نہیں ہوگی۔ دوسری جانب یہاں کام کرنے والے ڈاکٹرز، نرسز اور دیگر ملازمین کی اتنی بڑی تعداد کو وفاق سے صوبہ منتقلی یا کسی بھی متبادل انتطام، کی صورت اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ بدنظمیوں کے ایک نئے باب کو کھول دیا جائے۔ ہاں یہ ضرور کیا جا سکتا ہے کہ ایس ایم سی کو تینوں اداروں کے ساتھ ملا کر جناح یونیورسٹی کے نام سے نئی یونیورسٹی بنا دی جائے۔ ایسا کرنا ناصرف انتظامی سطح پر مثبت تبدیلیاں لائے گا بلکہ اسکے نتیجے میں تعلیمی دائرے میں بھی بہتر نتائج سامنے آسکیں گے۔

جناح ،این آئی سی ایچ اور این آئی سی وی ڈی کو صوبائی تحویل میں دینے یا وفاق ہی میں برقرار رکھنے کے متعلق دونوں جانب سے سامنے آنے والی آرا، دلیل اور جواب دلیل آپ نے پڑھا، یقیناً یہ تحریر فیصلہ سازوں تک رسائی بھی حاصل کر لے گی، ہوتا کیا ہے۔ ہم بھی دیکھتے ہیں، آپ بھی دیکھیں، مگر تبدیلی حالات کے لئے کوشش شرط ہے۔
Shahid Abbasi
About the Author: Shahid Abbasi Read More Articles by Shahid Abbasi: 31 Articles with 31816 views I am a journalist , working in urdu news paper as a Health, cuurent affair, political and other related isssues' reporter. I have my own blog on wordp.. View More