پاکستان کو اپنا گھر سمجھتا ہوں، ترک صدر عبداللہ گل کا اعلان

کراچی میں 1800 افراد کی اجتماعی شیو کی تقریب ... ؟اور بھارت کا ریکارڈ
بھارت کا ریکارڈ توڑنے کے لئے جب قوم کو کچھ نہ ملا تو.......

یہ بھی ہم پاکستانیوں کے لئے کتنی حیرت کی بات ہے کہ ہمارے حکمران دورانِ اقتدار میں اپنے جنت نظیر جیسے(گھر) ملک کو چھوڑ کر اپنا زیادہ تر وقت اغیار یعنی امریکا سمیت اور دیگر ممالک کے دوروں میں گزار دیتے ہیں اور دوسرے اِن کے ملک پاکستان کو اپنا گھر سمجھتے ہیں جو پاکستانی قوم کے لئے فخر کی بات ہے اور ہمارے حکمرانوں کے لئے سوچنے کا مقام ہے کہ کیا وجہ ہے کہ دوسرے ممالک کے حکمران پاکستان کو اپنا گھر سمجھتے ہیں اور ہمارے پاکستانی حکمران اپنے اِس گھر کو چھوڑ کر مختلف اوقات میں دوروں کے نام پر دوسروں کے گھروں میں پڑے رہنا اپنے لئے ایک بڑا اعزاز سمجھتے ہیں حالانکہ اِنہیں یہ خیال کرنا چاہئے کہ یہ اپنا زیادہ تر وقت اپنے ہی ملک پاکستان میں رہ کر اپنے عوام اور ملک کی خدمت اچھی طرح سے کرسکتے ہیں مگر یہ ایسا نہیں کرتے اور نہ ہی ہمارے یہاں ایسا ہوتا ہوا کہیں سے نظر ہی آتا ہے۔

بہر کیف !ایک خبر کے مطابق برادر اسلامی ملک ترکی کے صدر عبداللہ گل اپنے ہم منصب پاکستانی صدر آصف علی زرداری کی خصوصی دعوت پر اپنے چار روزہ سرکاری دورے پر گزشتہ دنوں تیسرے پہر جب اسلام آباد پہنچے تو اِن کا حکومت ِ پاکستان کی جانب سے سرکاری طور پر انتہائی پُرتباک انداز سے استقبال کیا گیا ترک صدر جب طیارے سے باہر آئے تو اِنہیں 21توپوں کی سلامی دی گئی اور ہوائی اڈے پر وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے اِن کا والہانہ استقبال کیا پاک فضائیہ کے ایک چاک وچوبند دستے نے برادر اسلامی ملک ترکی کے صدر عبداللہ گل کو گارڈ آف آنر پیش کیا اُنہوں نے پریڈ کا معائنہ کیا اور اِس کے بعد ترک صدر عبداللہ گل نے اسِلام آباد ائیر پورٹ پر میڈیا پرسنز سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان اور پاکستانی حکمرانوں سمیت پاکستان کے عوام کے ساتھ اپنے جذبات اور خیالات کا اظہار اِس طرح کیا کہ اِس سے پاکستانیوں کے حوصلے بڑھ گئے اُنہوں نے کہا کہ میں پاکستان کو اپنا گھر سمجھتا ہوں اور یہ یقین کریں کہ میں یہاں آنے کے بعد بے حد خوش ہوں اور ہم پاکستان کے ساتھ اپنے تجارتی اور اقتصادی تعلقات کو مزید وسعت دینا چاہتے ہیں کیوں کہ دونوں ملکوں کے درمیان گہرے اور بہت گہرے جذباتی تعلقات موجود ہیں اور اِس کے ساتھ ہی ترک صدر نے یہ بھی کہا کہ وہ صدر ِپاکستان آصف علی زرداری اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے ساتھ اپنے دورے کے دوران ہونے والی ملاقاتوں میں علاقائی مسئلوں اور اقتصادی تعلقات پر ترجیحی بنیادوں پر تبادلہ خیال کریں گے اور اُنہوں نے اِس موقع پر اِس اُمید کا بھی اظہار کیا کہ ترکی اِن ملاقاتوں کے ٹھوس نتائج بھی دیکھنا چاہتا ہے۔

یہاں میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ ہم پاکستانیوں کے لئے یہ ایک حوصلہ افزا امر ہے کہ ترک صدر عبداللہ گل نے بڑے پرتپاک انداز سے یہ بھی کہا کہ ہمارے (پاکستان اور ترکی کے) خیالات ایک جیسے ہیں اور دونوں ملکوں میں بہترین تعلقات ہیں اور یقیناً یہی وجہ ہے کہ ہم پاکستان سے زیادہ سے زیادہ اقتصادی اور تجارتی تعاون کے خواہشمند ہیں اور اُنہوں نے اپنی اِسی گفتگو کے دوران عالمی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار کو سراہتے ہوئے اِس کی تعریف کی اور کہا کہ میرے اِس دورے کا مقصد پاکستان کے عوام اور فوج کو دہشت گردوں کے خلاف اِن کی اِس فقیدالمثال جدوجہد اور کامیابی پر اِنہیں جہاں سراہنے تو وہیں میں اِن کو اِن کامیابیوں پر مبارکباد بھی دیتا ہوں اور اِس حوالے سے پاکستان کا مستقبل روشن دیکھتا ہوں اور اِس کے علاوہ اُنہوں نے پاکستان میں طویل عرصے سے جاری بجلی کے بحران کے فوری حل کے لئے بھی ترکی کے تعاون سے پاکستان میں پانی سے بجلی پیدا کرنے والے پاور ہاؤس (اسٹیشن) لگانے کا بھی ارادہ ظاہر کیا اور کہا کہ اِس سلسلے میں جلد ہی پاکستان اور ترکی کے درمیان ایک جامع مذاکراتی عمل کے بعد یہ منصوبہ شروع کر دیا جائے گا جس سے پاکستان میں بجلی کا بحران بڑی حد تک کم ہوسکے گا اور پاکستان کے عوام سستی بجلی سے مستفید ہوسکیں گے۔ اور ترکی پاکستان کی اقتصادی ترقی کے لئے بھی اِس کی معیشت کا سہرا دینے کے لئے طویل مدتی کثیر سرمایہ کاری کرنے کا بھی اپنا منصوبہ بنا چکا ہے۔ جسے میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں بڑی حد تک معاشی اور اقتصادی طور پر بہتر اور نمایاں تبدیلیاں ہوں گیں۔

اگرچہ یہ پاکستان جیسے پسماندہ مگر ایک ایٹمی طاقت رکھنے والے ملک کے لئے قابلِ افسوس ہی نہیں بلکہ قابلِ رحم لمحہ بھی ہے کہ پاکستان اپنی آزادی کے 62سالوں میں اپنی ترقی اور خوشحالی کے لئے بجلی جیسی توانائی کی بنیادی ضرورت سے بھی محروم ہے اِس کی کوئی ایک وجہ نہیں بلکہ اگر اِن وجوہات کی ایک بہت طویل فہرست ہے جو ہمارے سابقہ حکمرانوں سمیت موجودہ حکمرانوں کی بھی نااہلی اور ملک میں توانائی کے بحران کو کنٹرول کرنے کے لئے اِن کی ناقص منصوبہ بندیوںکی وجہ سے بھی یہ فہرست اَب تک طول پکڑتی جارہی ہے کیوں کہ کوئی بھی ملک کو درپیش بجلی کے بحران کی شکل میں توانائی کے اِس مسئلے کو حل نہیں کرسکا ہے۔

اور اَب پاکستان میں بجلی جیسی توانائی کا بحران اتنی سنگین صورت حال اختیار کر گیا ہے کہ اَب یہ مسئلہ سال یا دو سال میں بھی حل نہیں ہونے والا نہیں ہے اِس کے لئے ملک میں کثیر سرمائے اور طویل وقت کی ضرورت ہے جس کے لئے ہمارے حکمرانوں کو اپنا سینہ چوڑا کرنا پڑے گا۔

اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ اِس حوالے سے ہمارے حکمرانوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ پاکستان میں بجلی کا بحران یہ شکل اختیار کر جائے گا کہ آج دن کے چوبیس گھنٹوں میں سے 18سے20 گھنٹے ملک کے طول و ارض میں لوڈشیڈنگ کی ہوگی اور ملک کی ترقی کا بھٹہ بیٹھ جائے گا اور بجلی سے محروم قوم سڑکوں پر یوں نکل آئے گی اور یہ بیچاری بجلی کے حصول کے لئے اِس طرح کے پرتشدد احتجاج کرنے پر مجبور ہوگی کہ اربوں روپے کی سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچانے سے بھی دریغ نہیں کرے گی اور اِس کے باوجود بھی آج ہمارے حکمران اپنے ملکی وسائل سے فائدہ اٹھانے کے بجائے بجلی جیسی بنیادی ضروری توانائی کے بحران پر قابو پانے سمیت اِسے ختم کرنے کے لئے اپنے پرائے سب کی تمیز ختم کر کے سب کی دہلیزوں پر کشکول لئے اپنے یہاں بجلی جیسی توانائی کے بحران کے خاتمے کے لئے بھیک مانگتے پھریں گے اور پھر کبھی امریکا، برطانیہ ، چین اور ایران، سعودی عرب اور ترکی بھی سے بجلی کے بحران کو کم کرنے اور ختم کرنے کے لئے اِن ممالک سے مدد طلب کریں گے ۔

وہ تو اچھا ہے کہ ترکی ہمارا ایک برادر اسلامی ملک ہے جس نے اکثر و بیشتر ہمارے بُرے وقتوںمیں ہماری مدد کی ہے اور آج بھی جب ترکی کے صدرعزت مآب عبداللہ گل پاکستان کے اپنے سرکاری چار روزہ دورے پر ہیں تو اُنہوں نے پاکستان کو بجلی کے بحران سمیت اور دیگر مسائل سے فوری طور پر نکالنے کے لیے بھی کئی معاہدوں پر دستخط کئے ہیں۔ اِس حوالے سے ترکی کے صدر عبداللہ گل کا یہ دورہ کئی حوالوں سے بھی پاکستان کے لئے بنیادی اہمیت کا دورہ ہے جس کے عنقریب نہایت ہی سود مند اور مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔

اور اِدھر میرا خیال یہ ہے پاکستان جو پہلے ہی ایک غریب اور پسماندہ ملک ہے تو دوسری طرف دنیا کا ایک ایٹمی ملک ہونے کے باوجود بھی اپنے یہاں بجلی کے بحران پر قابو نہ پاسکنے کے باعث ساری دنیا سمیت بھارت جیسے کنگلے ملک میں بھی اپنی جگ ہنسائی کا سبب بنا ہوا ہے۔

تو وہیں ہماری قوم کی عیاشی ، بے فکری اور بے حسی کا بھی یہ عالم ہے کہ ہمارے ملک کے عوام بجائے اِس کے کہ یہ ملک اور قوم کو اپنی انتھک محنت اور جدوجہد سے اُس مقام اور اوج پر لے جائیں کہ جہاں دنیا کے اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک ہیں تاکہ پھر کوئی اِن کی جگ ہنسائی نہ کرسکے مگر ہائے رے !افسوس کہ اُلٹا ہماری قو م کو بس یہ ہی جنون مارے جاتا ہے کہ دنیا کی تو خیر ہے ہم اِس سے کوئی ٹکر نہیں لے سکتے وہ ہمارے بارے میں کچھ بھی سوچے اور کہئے.... مگر.... بس بھارت ہمارے بارے میں کوئی غلط ریمارکس نہ دے جِسے ہم اپنی انا کا مسئلہ بنا ڈالیں اور اِسی بنا پر ہماری قوم صرف یہ ہی چاہتی ہے کہ یہ بھارت کا کسی نہ کسی حوالے سے کوئی نہ کوئی ریکارڈ ضرور توڑے۔ اور اِسی جذبے کے تحت جب ہماری قوم کو بھارت کا کسی بھی میدان میں کوئی ریکارڈ توڑنے کا کوئی موقع ہاتھ نہ آیا تو اِس نے محض بھارت کا یہ ریکارڈ توڑنے کی غرض سے کہ اِس کا ورلڈ شیونگ ریکارڈ ٹوٹ جائے تو گزشتہ دنوں ایکسپو سینٹر کراچی میں شیونگ ریزر تیار کرنے والی ایک معروف کمپنی اور اِس کے منتظمین نے اپنے ریزر کی تشہیر کے لئے 1800افراد کی اجتماعی شیو کی تقریب کا اہتمام اِس بنا پر کیا تھا کہ اِن کا یہ دعویٰ تھا کہ اِس تقریب میں 1800افراد کی شیو کرنے سے بھارت کا ورلڈ شیونگ کا ریکارڈ ٹوٹ سکتا ہے مگر اِس تقریب کے منتظمین کا منصوبہ شرمندہ تعبیر ہونے سے قبل ہی اُس وقت لپیٹ کر رکھ دیا گیا تھا کہ جب اِس تقریب کے خلاف ایکسپو سینٹر کراچی کے باہر متعدد کالجوں اور جامعات کے طلبا اور ڈنڈا بردار مذہبی و سیاسی جماعتوں کے کارکنوں نے مظاہر کیا اور اُدھر شیونگ ریزر بنانے والی کمپنی نے اِس صورتِ حال کے پیشِ نظر بھارت کاورلڈ ریکارڈ توڑنے والی داڑھی مونچھ منڈواؤ یہ تقریب منسوخ کردی تھی۔

اور آج اِس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری قوم دنیا کی آسائشوں میں پڑ کر ایک عیاش پسند قوم بن چکی ہے مگر میں یہاں یہ سمجھتا ہوں کہ اِس کی عیاشی بھی اُسی وقت دیر پا ثابت ہوگی کہ جب ہمارا ملک مسائل کے جھمیلوں سے نکل چکا ہو اور اِسے مسائل سے نجات دلانے کے لئے بہت ضروری ہے کہ پاکستان کا ہر فرد اپنی قومی ذمہ داریوں کو سمجھے اور یہ احساس کرے کہ اِسے خود کو ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لئے بھی پیش کرنا ہے تب تو ٹھیک ہے ورنہ ہماری قوم نہ تو اپنی عیاشیوں کے مزے ٹھیک طرح سے لے سکے گی اور نہ ہی دنیا کے دیگر ممالک کی طرح ترقی ہی کر پائی گے کیونکہ مسائل میں جکڑا کوئی بھی ملک ترقی کرسکتا ہے اور نہ ہی اِس کے عوام زندہ رہتے ہوئے بھی کچھ کرسکنے کے قابل ہوتے ہیں۔
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 893554 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.