(20ستمبر ، یوم پیدائش پر خصوصی)
جاوید اختر
محمد مسلم صاحب ہندوستانی سماج کا بیش قیمت اثاثہ اور مسلم سماج کے کیسۂ زر
کا آبدارموتی تھے۔ اعلیٰ اخلاق، تدبر، حکمت، فہم و دانش، دور
بینی،دوراندیشی، تحمل وبردباری اور حق گوئی و بے باکی جیسی صفات ان میں
بدرجہ اتم موجود تھیں۔وہ آزادی کے بعد اردو صحافت کا ایک بڑا اور معتبر نام
ہیں۔ معروضیت، مقصدیت اور فنی صحافت کے آسماں کے وہ ایک درخشندہ ستارہ تھے۔
وہ اردو صحافت کی صرف آبرو ہی نہیں تھے بلکہ ملک کے ممتاز سنجیدہ رہنماؤں
میں ان کا شمار ہوتاتھا۔ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت، آل انڈیا مسلم پرسنل
لاء بورڈ اور دینی تعلیمی کونسل کے قیام اور آل انڈیا اردو ایڈیٹرس کانفرنس
کو مستحکم کرنے میں ان کا بڑا ہی اہم رول تھا۔ وہ جماعت اسلامی ہند کے اعلیٰ
ترین فیصلہ ساز کمیٹی یعنی مجلس شوریٰ کے بھی رکن تھے۔
محمد مسلم صاحب 20ستمبر 1920کو بھوپال میں پیدا ہوئے۔ ڈیڑھ سال کی عمر میں
والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا جب کہ والدہ کا انتقال اس سے نو ماہ پہلے ہی
ہوچکا تھا۔ اس وقت بڑے بھائی غیور حسن صاحب کی عمر صرف پانچ سال تھی۔ ان
دونوں بھائیوں کی پرورش ان کے نانا عبدالمتین صاحب ’’متین‘‘نے کی ،جو عربی
، فارسی، انگریزی،ترکی اور سنسکرت کے ماہر اور سائنس و فلسفہ پر کئی کتابوں
کے مصنف تھے۔ عبدالمتین صاحب ریاست بھوپال میں تحصیلد ار مقرر ہوئے بعد میں
ترقی دے کر انہیں ’کامدار‘ بنایا گیا۔ 1908 میں جب وہ کلیا کھیڑا (بھوپال)
کے تحصیلدار تھے ، ان کی متعدد اہم ادبی شخصیات کے ساتھ خط و کتابت
رہی۔عبدالمتین صاحب نے یوسف قیصر کے ساتھ مل کر ’مالوہ ریویو‘ کے نام سے
اردو کا ایک پندرہ روزہ بھی نکالا تھا۔انہو ں نے متعدد کتابوں کے ترجمے بھی
کئے۔ان کی وفات 20 اپریل 1938کو بھوپال میں ہوئی۔ عبدالمتین صاحب کی صرف دو
بیٹیاں تھیں۔ ان میں سے ایک کا نکاح مستقیم الدین ابن قمرالدین ابن مفتی
یقین الدین کے ساتھ ہوا۔جن سے دو بیٹے محمد غیور حسن اور محمد مسلم پیدا
ہوئے۔ جب کہ دوسری بیٹی کا نکاح محمد شفیع سے ہوا ‘ جن سے محمد شکیل پیدا
ہوئے۔
محمد مسلم صاحب نے ابتدائی تعلیم اپنے نانا جان سے حاصل کی ۔بعد میں مقامی
اسکول میں داخل ہوئے۔ جہاں انہوں نے ہائی اسکول تک تعلیم حاصل کی۔اس کے
بعدباضابطہ تعلیم کا سلسلہ منقطع ہوگیا لیکن گھر پر عربی ،فارسی اور انگریز
ی کی درس و تدریس کا سلسلہ بدستور جاری رہا اورانہوں نے ان تینوں زبانوں پر
دسترس حاصل کرلی۔مسلم صاحب کی شادی 1950میں تمیزہ بیگم کے ساتھ ہوئی۔جن سے
گیارہ اولادیں(آٹھ بیٹے اور تین بیٹیاں) ہوئیں۔ان کے نام ہیں: ڈاکٹر اسلم
عبداﷲ،اسماء حبیب، امتہ المتین طیبہ، عبدالرحمن اکرم، اطہر مسلم، عبداﷲ
انور، عبداﷲ احسن،عبداﷲ خلیل،سیدہ اکبر حسین، مسعود اختر اورسعود ارحم۔
محمد مسلم صاحب کے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کی تعداد اس وقت 30 سے
زائدہے۔
محمد مسلم صاحب کے اجداد ریواڑی(ہریانہ) کے رہنے والے تھے۔ ریواڑی کے مفتی
محلہ میں ان کا آبائی مکان تھا۔مسلم صاحب کا سلسلۂ نسب سالار مسعود غازی سے
ملتا ہے۔ 1857کی جنگ آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی پاداش میں اس خاندان
کے انیس (19)افراد کو پھانسی دی گئی تھی۔لیکن قمرالدین نام کے ایک نوعمر
لڑکے کو اﷲ نے بچالیا جو کسی طرح چھپ چھپا کر بھوپال پہونچ گیا او ر وہیں
کا ہوکر رہ گیا۔ یہی قمر الدین صاحب محمد مسلم صاحب کے دادا تھے۔ قمرالدین
صاحب کے صاحب زادے مستقیم الدین صاحب نے محکمہ اکاونٹس میں ملازمت اختیار
کی اور ساتھ ہی ساتھ اصلاحی اور رفاہی کاموں کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ انہوں
نے کئی انجمنیں قائم کیں جن میں انجمن امداد بیوگان و یتیمی اور بلاسودی
قرضہ دینے والی ایک انجمن کی کارکردگی خاص طور پر نمایاں رہی ہیں۔مستقیم
صاحب کے دو صاحب زادے غیو ر حسن اور محمد مسلم تھے۔ کمزور و بے سہارا لوگوں
کا سہارا بننے‘ لوگوں کے دکھ درد میں شریک ہونے اور محبتوں کے کبھی نہ ختم
ہونے والے خزانے کو دونوں ہاتھوں سے لٹاتے رہنے کی جو تابندہ مثال مستقیم
الدین صاحب نے ایک محدود حلقے میں قائم کی تھی ،مسلم صاحب نے اس کا دائرہ
پورے ملک تک وسیع کردیا۔ انہوں نے ایک ایک سانس اسلام کی سربلندی ، مظلوموں
کو انصاف دلانے ،کمزوروں کا سہارا بننے اور حق و انصاف کی جدوجہد کے لئے
وقف کردی اور یہی ان کی سب سے اہم شناخت قرار پائی۔ خاندانی پس منظر کی
بنیاد پر یہ کہنا یقیناََ غلط نہ ہوگا کہ ایثار و قربانی اور حق کے لئے سر
دھڑ کی بازی لگادینے کی جو روایت محمد مسلم صاحب کو وراثت میں ملی تھی،
انہوں نے اپنے عمل سے یہ ثابت کردکھایا کہ وہ اس روایت کے نہ صرف حقیقی
وارث تھے بلکہ اس کے بہترین امین و محافظ بھی تھے۔
محمد مسلم صاحب نے1938میں اخبار ’’ندیم‘‘ میں اعزازی سب ایڈیٹر کی حیثیت سے
صحافتی زندگی کا آغاز کیا اور کچھ ہی دنوں بعد خاکسار تحریک سے وابستہ
ہوگئے اور آگے چل کر اس کے مغربی کمان کے کمانڈر مقرر ہوئے۔ 1946 میں پہلی
مرتبہ دفعہ 144کی خلاف ورزی کے الزام میں گرفتار کئے گئے ۔ مہینوں تک مقدمہ
چلا جس کی پیروی انہوں نے خود کی اور سرکاری وکیل کا ناطقہ بند کردیا۔
عدالت نے انہیں باعزت بری کردیا۔ 1947 میں ندیم اخبار کے ایڈیٹر بن گئے
۔1948 میں دوبارہ گرفتار ہوئے اور چند مہینوں کے بعد رہا کردئے گئے۔ 1950
میں تین ماہ کے لئے ایک بار پھر نظر بند کئے گئے۔
محمد مسلم صاحب 1952 میں بھوپال سے دہلی آئے ۔جماعت اسلامی ہند کے اولین
امیر مولاناابو اللیث اصلاحیؒ کی خواہش پر اکتوبر 1953 میں دعوت ہفت روزہ
کے اسسٹنٹ ایڈیٹر کی ذمہ داری سنبھالی۔جو اس وقت معروف صحافی اصغر علی
عابدی کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔اصغرعلی عابدی صاحب کی سبکدوشی کے
بعد1956 میں دعوت کے باضابطہ ایڈیٹر مقرر ہوئے۔اس سے ایک برس قبل 1955 سے
ہی دعوت سہ روزہ شائع ہونے لگا تھا۔1960میں اس کا روزنامہ ایڈیشن بھی شروع
ہوا جب کہ 1979سے ٹیبلائڈ کی شکل میں دعوت ہفت روزہ بھی نکلنے لگا۔ 1980کی
دہائی کے اوائل میں دماغ کے ٹیومر کا آپریشن ناکام ہوجانے کے بعد گرتی ہوئی
صحت کے پیش نظر مسلم صاحب 1982 میں دعوت کی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوگئے۔ ان
کی سبکدوشی کے ساتھ ہی دعوت کا روزنامہ اور ہفت روزہ ایڈیشن بند ہوگیا۔دعوت
کے ایڈیٹر کی حیثیت سے ان پر پانچ مقدمات حکومت نے دائر کئے۔ تین میں
جرمانہ ہوا اور دو میں بری ہوئے ۔1964میں 13دنوں تک تہاڑ جیل میں نظر بند
کئے گئے۔ 1971 میں ہندو پاک کی جنگ کے دوران 42دنوں تک جیل میں نظر بند کئے
گئے جب کہ1975میں ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد دہلی اور انبالہ کی جیلوں میں
21مہینے تک نظر بند رہے۔
محمد مسلم صاحب کا انتقال3جولائی 1986کو پرانی دہلی میں کرائے کے ایک چھوٹے
سے مکان میں ہوا اور ان کی نماز جنازہ تاریخی جامع مسجد میں مولاناابواللیث
اصلاحی ندوی نے پڑھائی۔ تدفین مہندیان کے تاریخی قبرستان میں ہوئی۔ جہاں
شاہ عبدالرحیم اور ان کے صاحبزادے شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی اپنے خانوادے نیز
متعدد یگر اہم شخصیات بشمول مسلم صاحب کے قریب ترین رفقاء ڈاکٹر سیدمحمود ،
مجاہد ملت مولانا فضل الرحمن، مفتی عتیق الرحمن عثمانی اور مولانا افضل
حسین دفن ہیں۔
مسلم صاحب اپنے دور کے ایک نابغہ روزگار شخصیت تھے۔وہ صرف ایک صحافی یا
اسلامی جماعت کے رہنما نہیں تھے بلکہ ان کی زندگی کے اتنے ڈھیر سارے پہلو
ہیں جن سب پر اگر تھوڑی تھوڑی بھی روشنی ڈالی جائے تو اس کے لئے متعدد
کتابیں درکار ہوں گی۔محمد مسلم صاحب کی شخصیت ایک ایسے عبقری انسان کی
حقیقی داستان ہے جس کی پوری زندگی حرکت و عمل سے عبارت تھی، جس کے قول و
عمل میں کوئی فرق نہیں تھا،جو کلمہ حق ادا کرنے پر قید وبند کی صعوبتوں کے
باوجود بھی ہمیشہ مسکراتا رہا، جس نے اپنے قلم کی حرمت پر کبھی آنچ نہیں
آنے دی، جس نے اپنے نظریات کا کبھی سودا نہیں کیا ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ
صرف محمد مسلم صاحب ہی نہیں بلکہ ایسی نہ جانے کتنی قابل قدر ہستیاں گذری
ہیں جن کی داستان حیات میں ہمارے لئے روشنی ، رہنمائی اور تحریک کا بہت
سامان ہے لیکن وقت کی دھول کے ساتھ ساتھ ان کے کارنامے،ان کی قربانیاں
ہماری نگاہوں سے معدوم اور ہمارے حافظے سے محوہوتی جارہی ہیں۔ایسے لوگوں کی
داستان حیات اگر مرتب نہیں کی گئی تو آنے والے دنوں میں یہ اندازہ لگانا
بھی مشکل ہوجائے گا کہ ملک و ملت کی بہتری کے لئے کن لوگوں نے طوفان و
حوادث کا مقابلہ کرتے ہوئے حالات کا رخ موڑا۔
اف یہ جادہ کہ جسے دیکھ کے جی ڈرتا ہے
کیا مسافر تھے جو اس راہ گزر سے گزرے
(راقم الحروف کی زیر طبع کتاب’’محمد مسلم-- عظیم انسان ، بے باک صحافی‘‘ کا
ایک باب) |