وِل پاور

Jooکی کہانی عبرت بھی ہے سبق بھی ہے مختلف ترغیبات کا مجموعہ بھی ہے جو کہ دیکھنے اور سننے کے بعد ایک دفعہ تو ہر انسان کے دل میں جوکے لئے ہمدردی کے جذبات ابھرتے ہیں ۔ انہی جذبات کی رو میں نہ چاہتے ہوئے بھی نظر اپنے وجود پر ڈالنی پڑتی ہے Jooکی کہانی شیئر نہ کرنا بھی زیادتی ہے ۔ اس کہانی سے عبرت حاصل کرنے اپنے وجود پر صحت پر ورک آؤٹ نہ کرنا خود کشی ہے Jooکی عمر تیس سال کے لگ بھگ ہوگی Jooچلتا پھرتا گوشت پوست ہڈیوں کا ہمالیہ ہے ۔ ان کے وزن کا حساب یوں لگائیں کہ تین ہٹے کٹے انسانوں سے بھی زیادہ وزن رکھتے ہیں۔ ان کا وزن 365کلوگرام تھا اس وزن کے ساتھ زندگی ایک ناقابل برداشت بوجھ ہوتی ہے۔ یہ فیلنگ Jooکی بھی تھیں ۔ وہ زندگی سے مکمل طور پر مایوس ہوچکے تھے ۔ مایوسی انہیں خود کو مردہ تصور کرنے اور جلد قبرستان تک جانے کا راستہ دکھا رہی تھی ہر دن ایک آزمائش بن کر نازل ہورہا تھا۔ اتنے وزن کے ساتھ سانس بھی بوجھ ہوتے ہیں یہ بمشکل چل پھر سکتے تھے۔ ہر وقت ایک بیڈ کے برابر صوفے پر دراز رہتے تھے ان کی مایوسی انہیں ہمیشہ کھانے پر اکساتی آرہی تھی۔ دلچسپ تحقیق ہے کہ مایوسی اور محرومی انسان کو ڈپریس کرتی ہیں لوگ انڈر ڈپریشن مختلف ابنارمل عادات اپنا لیتے ہیں۔ ان میں سے ایک عادت اور ایٹنگ بھی ہے Jooکے ساتھ بھی یہی ہوا تھا ۔ وہ اس قدر وحشی بن کر خوراک کا استعمال کیوں کر رہے تھے اس کی وجہ ایک محرومی تھی اس محرومی کا ذکر آگے ہوگا جو شائد میرے لئے بھی دھماکہ تھا جب میں ڈاکومنٹری دیکھ رہا تھا ۔ Jooکی والدہ بھی بیٹے کو ہر گزرتے دن کے ساتھ موت کے قریب ہوتے نہیں دیکھ پا رہی تھیں ۔ ماں بیٹے کے پاس مایوسی اور رونے کے سوا کرنے کو کچھ نہ تھا ۔ ایک دن خود سے تنگ آکر Jooنے حالات سے لڑنے کا فیصلہ کیا اور ڈاکٹر کے پاس وزن کم کروانے کے لئے آپریشن کامشورہ کرنے جا پہنچا۔ڈاکٹر نے Joo کو 300کلوگرام تک کم کرنے کا مشورہ دیا کہ اس کے بعد ہی آپریشن کرنا ممکن ہو سکے گا۔اس کے لیئے جو کو خوراک پر قابو کرنا تھا۔ گیم آف وِل پاور شروع ہوچکی تھی جو کو کیلوریز کے حساب سے ڈاکٹر نے ڈائٹ چارٹ ترتیب دے کر گھر بھیج دیا ۔ کام مشکل تھا مگر جو زندہ رہنے کی ٹھا ن چکا تھا ۔ چٹی پٹی چیزیں ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق نہ صرف ترک کردیں بلکہ خوراک کے معاملے میں بھی مکمل احتیاط کرنے کی بدولت چھ ماہ میں Jooنے 30کلو وزن کم کرلیا ۔Jooکو اس جدوجہد کیلئے اپنا شہر تک چھوڑنا پڑا تاکہ وہ اس شہر میں شفٹ ہوجہاں سے ہاسپٹل نزدیک تھا ۔ماں نے بھی ہر طرح بیٹے سے محبت کا ثبوت دے کر ثابت کیا کہ ماں ہر جگہ نہ صرفمامتا کا نام ہے بلکہ رحمت اور محبت کا سورس ہوتی ہے ۔ چھ ماہ بعد Jooنے ایکسرسائز بھی شروع کردی ۔ علاج کے دوران اسے ایک سائیکاٹرسٹ کے زِیر نگرانی دیا گیا ۔ اس نے ہدایات کے دوران اپنی لائف ہسٹری بتاتے ہوئے چند فقر ے بولنے کے بعد Jooنے رونا شروع کردیا ۔ یہی ٹرننگ پوائنٹ تھا اس کہانی کا اور Jooکی ابنارمل زندگی کا۔ اس کا باپ بچپن میں اس کی طرف سے بالکل لاپرواہ تھا باپ کی محبت سے دوری نے Jooکو احساس کمتری کا شکار بنا دیا ۔ اس نے توجہ ہٹانے اور اس محرومی سے مقابلے کے لئے بہادری کی بجائے خوراک کو اپنی ہابی بنا لیا۔ کھانے میں انسان کو خوشی ملتی ہے Jooنے محرومیوں کو مٹانے کے لئے ہر وقت کھا کر خوشی حاصل کرنے کا طریقہ اپنا لیا ۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ عادت اس کی صحت کے لئے تباہ کن ہے اس نے اس عادت کو اپنائے رکھا ۔کیونکہ باپ کی عدم توجہی کا واحد یہی علاج تھا کہ خود کو مزیدار کھانوں کی دنیا میں مگن رکھا جائے ۔ یہ بات Jooنے اپنی تیس سالہ زندگی میں کسی کو نہیں بتائی تھی کیوں کہ بتانا خود اپنی انسلٹ تھی۔ سائیکاٹرسٹ کے سامنے اس کے ضبط کا وہ بند ٹوٹ گیا جو اس نے تیس سال تک اپنے جذبات کے سامنے باندھ رکھا تھا ۔ Joo نے بارہ ماہ تک محنت جاری رکھی اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس نے ستر کلو وزن کم کرلیا۔وزن جب 295کلوگرام تک پہنچا تو ڈاکٹر نے آپریشن کی حامی بھر لی۔ کامیاب آپریشن کے ذریعے Jooکی خوراک کی نالی کا حجم کم کردیا گیا ۔ تاکہ وہ کم کھائیں اور خوراک کی نالی کاحجم کم ہونے کی وجہ سے پیٹ جلد بھرا ہوا محسوس ہو۔ Jooنے ایک سال میں جو اذیت اور تکلیف سہی وہ ول پاور کی ان مٹ کہانی ہے۔ ول پاور نے اسے دوبارہ زندگی کی دوڑ میں لا کھڑا کیا۔ آپریشن کے بعد ان کا وزن تیزی سے گرنے لگے گا یہاں تک کہ وہ عدنان سمیع کی پوزیشن تک آن پہنچیں گے۔اس کہانی میں مختلف سبق ہیں جو سیکھنے میں ہی ہر طرح کا سکون اور زیر تحریر لانے کی وجہ ہیں ۔ اول یہ کہ زندگی صحت کا نام ہے ۔ اگر صحت نہیں تو زندگی ایک بوجھ ہے جسے اٹھانے سے مر جانا ہی بہتر محسوس ہوتا ہے ۔ ہماری صحت اور خوراک کا بھانڈہ تو آئے روز پھوٹتا رہتاہے ۔دیسی خوراک اور گھی کا زمانہ کب کا گزرگیا ۔ فاسٹ فوڈ اور بھاگ دوڑ میں ہم کھاتے جا رہے ہیں ۔ کیلوریز کا کچھ حساب نہیں نہ اپنے وجود پر توجہ دینے کا وقت کسی کے پاس ہے۔ ہم ایک جسمانی طور پر ان فٹ نیشن ہیں۔ یقین نہ آئے تو اپنے اردگرد نظر دوڑا کر جائزہ لیں ۔ مرد اور خواتین دونوں بلاتمیز جسمانی بھدے پن کا شکار ہیں ۔ امیر ہو یا غریب ہر کوئی جسامت کے لحاظ سے بے ڈھنگا ہے ۔ خوراک کا چسکا اور ہر قسم کی جسمانی مشقت سے دوری ہمیں بیماریوں کے گڑھ میں دھکیلتی جارہی ہے ۔ ٹین ایجر بچے موٹاپے کا شکار ہیں ۔ جوان پیٹ لٹکائے پھر رہے ہیں۔ ڈاکٹر چلا رہے ہیں چیخ رہے ہیں کہ اپنی اور بچو ں کی صحت و خوراک پر توجہ دیں وقت کی کمی صحت کو چٹ کرتی جارہی ہے۔ دوسرا سبق اس سے زیادہ ضروری ہے وہ یہ کہ ہم ایک گھر میں رہتے ہوئے ایکدوسرے سے کوسوں دور ہیں ۔ باپ کے پاس بیٹے کے لئے ٹائم نہیں ہے ۔ ماں کو بیٹی کی ایکٹویٹیزکے بارے میں کچھ پتا نہیں۔ دن چڑھا تو بھاگ دوڑ کا آغاز ہوا ، دن ڈوب گیا ۔موبائلز اور انٹرنیٹ کی دنیا واپس گھر آتے ہی آباد ہوگئی رات پھیلی ہر کوئی تنہائی اوڑھ کر سوگیا ۔ ماں باپ کے ہوتے ہوئے بچے شیئرنگ کرنے کے لئے محبتیں ڈھونڈتے پھر رہے ہیں۔ ماں باپ کے پاس وقت کی کمی ہے جذبات کی کنجوسی ہے ۔ بچے ماں باپ سے دور جھوٹی محبتوں میں منشیات میں ون ویلنگ کرکے محرومیوں کا علاج تلاش کرتے پھر رہے ہیں آنکھ تب کھلتی ہے جب دھماکہ ہوتاہے۔ ہمارا بچہ Jooکی طرح ناقابل علاج ہو چکا ہوتاہے یا کسی حادثے کا شکار ہو جاتا ہے ۔ ہر کسی کے پاس Jooجیسی محبت کرنے والی خیال رکھنے والی ماں نہیں ہوتی ۔ بچہ ڈوب رہا ہوتا ہے ماں باپ زندگی کے کشکول کو بھرنے میں مگن ہوتے ہیں ۔ پرابلم کبھی بھی کسی کے ساتھ بھی ہوسکتی ہیں۔ ہمارے ہاں سائیکاٹرسٹ سے کنسلٹ کرنا خود کو پاگل ڈکلیئر کرنے کے مترادف سمجھاجاتاہے۔ بیماری کے مطابق علاج کروانا ضروری ہوتاہے ۔ ذہنی بیماریوں کا علاج کروانے کے لئے سائیکاٹرسٹ سے رابطہ کرنا کوئی قابل شرم بات نہیں ۔ بہتر تو یہ ہے کہ ماں باپ محبت کی تھراپی سے بچوں کا علاج شروع کریں۔ توجہ کی فزیو تھراپی ذات کے تمام کس بل سیدھے کردیتی ہے۔ ماں باپ سے زیادہ بچوں کو کوئی نہیں سجھ سکتا ۔بچوں کو گیمز اور فزیکل سپورٹس کا عادی بنائیں اس سے پہلے کہ زندگی اوور ویٹ ہوکر آنکھوں کے سامنے بوجھ بن جائے ۔ آخری سبق ول پاور ہے۔ اگر آپ کے اندر وِل پاور ہے تو آپ کے لئے سب کچھ ممکن ہے وِل پاور کا خاتمہ ہی دراصل زندگی کا اینڈ ہے۔ زندگی کی لڑائی ہو ، غربت سے چھٹکارہ ہو یا قومی زندگی میں دہشت گردی سے نجات ہر مرض سے لڑنے کے لئے وِل پاور درکار ہے ۔ ول پاور کے بارے میں کیا خوب کہا ہے کسی نے کہ I am indeed a king because I know how to rule myselfخواہشات پر قابوپانے کانام ہی زندگی ہے ۔ اگر خود پر آپ کو کنٹرول ہے تو آپ ایک فاتح ہیں ۔ اس فتح کے بعد زندگی کے تمام محاذ آپ کے سامنے سر نگوں ہیں چند منٹ کی واک یا ایکسر سائز تو ول پاور نامی پہاڑ کے سامنے کچھ بھی نہیں۔
 
Muhammad Rizwan Khan
About the Author: Muhammad Rizwan Khan Read More Articles by Muhammad Rizwan Khan: 24 Articles with 20015 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.