ہم تومخدوم جاویدہاشمی کوہی باغی سمجھتے رہے لیکن اب پتہ
چلاکہ اصل باغی تو ہمارے کپتان صاحب ہیں جن کے مقابلے میں جاویدہاشمی تو
’’کَکھ‘‘ بھی نہیں۔ہمیں کپتان صاحب کی بغاوت کاادراک تھااسی لیے ہم نے
نوازلیگیوں کوبہت سمجھایاکہ ’’نہ چھیڑملنگاں نوں‘‘ لیکن ’’اثراُن پر
ذرانہیں ہوتا‘‘۔ شایداُنہیں بھی ’’چسکے‘‘ لینے کی عادت سی ہوچلی ہے۔اب
دیکھئے ناں ! یہ’’چَسکا‘‘ نہیں تو اورکیا ہے کہ ایازصادق کوایک دفعہ
پھرمیدان میں اتار دیا۔خیال تویہی تھاکہ وہ بھی خواجہ سعدرفیق کی طرح سپریم
کورٹ سے حکمِ امتناہی حاصل کرلیں گے لیکن وہ تو لنگوٹ کَس کے میدان میں ہی
اترآئے اورکپتان صاحب کو’’وَخت‘‘ میں ڈال دیا۔’’وَخت‘‘ میں اِس لیے کہ
2002ء کے انتخابات میں ایازصادق نے اُنہیں 19 ہزار اور 2013ء کے انتخابات
میں 9 ہزار ووٹوں سے شکست دی۔اِس سے پہلے میاں نواز شریف صاحب عمران خاں کو
5 ہزارکے مقابلے میں 50 ہزار ووٹوں سے شکست دے چکے۔متکبر لیگئے کہتے ہیں کہ
اب 50 ہزارووٹوں سے شکست دیں گے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ’’اندرکھاتے‘‘
نوازلیگ سے ملے ہوئے الیکشن کمیشن نے ہمارے کپتان صاحب کوضمنی انتخابات میں
عبد العلیم خاں اور جہانگیرترین کے حلقوں میں انتخابی مہم چلانے سے منع
کردیا حالانکہ یہ دونوں اصحاب توخاں صاحب کی ’’جندجان‘‘ ہیں کیونکہ لمبے
چوڑے عطیات توانہی سے ملتے ہیں۔اگرتحریکِ انصاف کے یہ دمکتے ستارے ’’روٹھ‘‘
گئے توہم ڈی جے بَٹ توکجا ٹینٹ سروس والوں کو بھی پیسے دینے کے قابل نہیں
رہیں گے ۔ہیرے موتیوں کے بھاؤ بِکنے والے اِن ’’نگینوں‘‘ کی انتخابی مہم
میں حصّہ نہ لینے کے حکم نے خاں صاحب کومغضوب الغضب کردیا اوراُنہوں نے
اعلانِ بغاوت کرتے ہوئے کہہ دیا’’ایسے دستور کو ، صبحِ بے نور کو ِ ، میں
نہیں جانتا ، میں نہیں مانتا‘‘۔خاں صاحب کی اِس بغاوت پرہم بہت خوش ہیں کہ
ایک دفعہ پھر’’دھوم دھڑکا‘‘ ہوگا لیکن تھوڑے تھوڑے ڈرے ہوئے بھی کہ کہیں
سپریم کورٹ اُنہیں’’پھڑکا‘‘ کے نہ رکھ دے اور الیکشن کمیشن اُن کی ’’پَکّی
پکّی چھُٹی‘‘ نہ کروادے۔ اگرکارزارِ سیاست میں خاں صاحب نہ ہوئے توجلسے
جلوسوں اور دھرنوں میں ’’کَکھ سواد‘‘ نہیں آئے گا۔یہ بجاکہ 20 جنوری 2013ء
کو الیکشن کمیشن نے تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے 40 نکات پرمشتمل ضابطۂ
اخلاق جاری کیاجس میں ضمنی انتخابات کے لیے یہ شِق بھی شامل تھی کہ الیکشن
شیڈول کے اعلان کے بعدصدر ،وزیرِاعظم ،سپیکر وڈپٹی سپیکر، چیئرمین وڈپٹی
چیئرمین سینٹ ،گورنر ،وزرائے اعلیٰ ،وزراء ،وزرائے مملکت اوروفاقی وصوبائی
اراکین نہ توکسی حلقے کادورہ کریں گے اورنہ ہی خفیہ یااعلانیہ طورپر کوئی
پیش کش کریں گے، عطیہ دیں گے نہ وعدہ کریں گے اورکسی منصوبے کاافتتاح کریں
گے نہ منصوبے کاوعدہ کریں گے لیکن کپتان صاحب جیسی عظیم ترین ہستی کے
استثناء کے لیے کوئی ’’نظریۂ ضرورت‘‘ گھڑاجا سکتاتھا جوخاں صاحب کے ازلی
ابدی دشمن الیکشن کمیشن نے گھڑا ،نہ گھڑنے کاارادہ اِس لیے بغاوت توبنتی ہے
دوستو! ۔
خاں صاحب توخیرقومی لیڈرہیں لیکن یہاں تو چیونٹیوں کے بھی پَرنکل آئے۔
سپریم کورٹ نے ’’نفاذِاُردو‘‘ کاحکم صادرفرمایا لیکن ہماری افسرشاہی نے کہا
’’ظلم کے ضابطے ، ہم نہیں مانتے‘‘۔ نفاذِاُردو انگریزوں کے ذہنی غلاموں پر
تو ظلم ہی کے مترادف ہے لیکن ہماری قومی شناخت ؟۔ ’’نفاذِاُردو تحریک‘‘ کے
شعبہ خواتین کی صدر اور نفاذِاُردو کی جذباتی حامی محترمہ فاطمہ قمر سے
اکثراِس موضوع پرگفتگو ہوتی رہتی ہے ۔اُن کابھی یہی خیال ہے کہ نفاذِاُردو
کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ’’افسرشاہی‘‘ ہی ہے ۔افسرشاہی کوتو رکھیے ایک
طرف ،یہاں تو کئی لکھاری بھی’’جِزبِز‘‘ ہورہے ہیں۔ایک معروف اخبارکے لکھاری
جوماشاء اﷲ’’ بیرسٹر‘‘ بھی ہیں، اُنہوں نے انگریزی زبان کے حق میں کالم
لکھتے ہوئے فرمایاہے کہ میاں نواز شریف کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں
اُردوکی بجائے انگریزی میں خطاب کرناچاہیے، وجوہات اُنہوں نے دو بتلائیں
لیکن دلائل ناقص اوربھونڈے ۔پہلی وجہ یہ کہ مترجم کبھی بھی اصل الفاظ
اورجذبات کی ترجمانی نہیں کر سکتا، مثال یہ کہ ’’پنجابی کاکرپشن کے بارے
میں ایک جملہ یامحاورہ ہے ’’اوتھے انّی پئی ہوئی اے‘‘ جس کا انگریزی میں
مترجم نے ترجمہ یوں کیا Blind woman as lying there ۔‘‘ عرض ہے کہ کیایہ
قصور پنجابی زبان کاہے یااُس نااہل اورنالائق مترجم کاجسے اتنابھی نہیں پتہ
کہ پنجابی میں’’انّی پئی‘‘کا مطلب کرپشن ہوتاہے۔ ویسے اطلاعاََ عرض ہے کہ
مترجم ہمیشہ وہی شخص ہوتاہے جسے دونوں زبانوں پرعبور ہو ۔چلیں مان لیاکہ
مترجم نالائق توکیا میاں صاحب کی اُردومیں کی جانے والی تقریرکا بامحاورہ
انگریزی میں ترجمہ کرکے مترجم کونہیں دیاجا سکتا؟۔جنرل اسمبلی سے ہرملک
کاسربراہ اپنی قومی زبان میں ہی خطاب کرتاہے لیکن ایسا ’’لطیفہ‘‘ سُنا نہ
سُننے کاامکان جیساکہ بیرسٹرصاحب نے لطائف کی کسی کتاب سے پڑھ کراپنے کالم
کی زینت بنادیا۔بیرسٹرصاحب نے یہ بھی لکھا ’’میرامشورہ ہے کہ وزیرِ اعظم
پاکستان اقوامِ متحدہ میں انگریزی زبان میں تقریر کرکے یہ پیغام دیں کہ ہم
پاکستانی تعصب کی سیاست سے پاک ہیں‘‘۔ بجاارشاد ، سوال مگریہ کہ کیا چین
،روس ،فرانس ،جاپان ،جرمنی اوردیگرممالک جواپنی قومی زبان میں خطاب کرتے
ہیں وہ سبھی بیرسٹرصاحب کی نگاہ میں متعصب ٹھہرے اورتعصب سے پاک صرف
انگریزی میں تقریر کرنے والے؟۔ ایسی بھونڈی دلیل کی کسی بیرسٹرسے توبہرحال
توقع نہیں کی جاسکتی لیکن چونکہ وہ بیرسٹرہیں اِس لیے ’’جو چاہے اُن کا
حسنِ کرشمہ سازکرے‘‘۔ ابھی کل ہی کی بات ہے عظیم چین کے صدر تین روزہ دورے
پر پاکستان تشریف لائے اوردورانِ قیام اُنہوں نے انگریزی کاایک لفظ بھی
ادانہیں کیا ۔کیاوہ بھی بیرسٹرصاحب کی نظرمیں متعصب ٹھہرے؟۔ ویسے
بیرسٹرصاحب کواتنا توپتہ ہی ہوگا کہ سپریم کورٹ کی حکم عدولی کی سزاکیا ہے
؟۔ کیا بیرسٹرصاحب چاہتے ہیں کہ میاں نواز شریف صاحب بھی ’’میں نہ مانوں‘‘
کانعرہ لگاکر اپنا انجام یوسف رضاگیلانی جیساکروالیں؟۔ |