نوے کی دہائی میں قومی سیاسی افق پر پیپلز پارٹی اور مسلم
لیگ نون ایک دوسرے کی بدترین حریف تھیں۔ایک دوسرے کے وقار کی چنداں اہمیت
نہ تھی۔اول درجے کی قیادت سے لے کر عام کارکن تک ایک دوسرے کی ہرزہ سرائی
کرنے اور غلیظ القابات سے نوازنے میں پیش پیش رہتے۔ایک دوسرے کے رہنماوں کی
کردار کشی اس شدو مد سے کی جاتی کہ گمان ہوتا یہ عمل بھی ان جماعتوں کے
منشور کا حصہ ہے۔پھر اچانک قومی و سیاسی افق نے رنگ بدلا اور دونوں جماعتوں
کی اعلیٰ قیادت کو جلا وطنی کا کڑوا گھونٹ پینا پڑا اور پاکستان میں اقتدار
کی بھاگ ڈور جنرل پرویز مشرف نے سنبھال لی۔دونوں جماعتوں کی قیادت یعنی
محترمہ بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کئی سالوں تک جلاوطن رہے اور یہی
جلاوطنی کا مشترکہ زخم بدترین سیاسی مخالفین کو ایک میز پر لے آیا۔دونوں
طرف کے زیرک اور جہاندیدہ رہنماوں کی مشترکہ جدوجہد کی بدولت ایک معاہدہ
تشکیل پایا جسے چارٹر آف ڈیموکریسی کا نام دیا گیا جس کی رو سے دونوں
جماعتیں ماضی کی تلخ اور ناخوشگوار یادوں کو بھلا کر جمہوریت کے فروغ کی
خاطر ایک دوسرے سے بھرپور تعاون پر آمادہ ہو گئیں۔بعدازاں دونوں جماعتوں کی
سر توڑ کوشش کے سبب جنرل پرویز مشرف نے ایک این آر اوجاری کیا جس پر سوار
ہو کر محترمہ بے نظیر بھٹو پاکستان تشریف لے آئیں اور باقاعدہ طور پر عوامی
رابطہ مہم کا آغاز کر دیا۔بدقسمتی سے محترمہ راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ایک
جلسہ عام سے خطاب کرنے کے بعد جب روانہ ہونے لگیں تو دہشت گردی کا نشانہ بن
گئیں۔ان کی شہادت کے بعد ان کے شوہر آصف علی زرداری پارٹی کے سربراہ کے طور
پر ابھرے اور سیاسی مفاہمت کے نعرے سے اپنی سیاسی چالوں کا باقاعدہ آغاز کر
دیا۔یہ وہ دور تھا جب قصر صدارت پر ایک فوجی حکمران مسلط تھا اس لیے سیاسی
جماعتوں بالخصوص مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے سیاسی مفاہمت کا لبادہ اوڑھ
کر سیاسی بساط پر نئی چالیں ترتیب دیں اور بالآخر ان دو جماعتوں کی شاندار
پارٹنر شپ اور عمدہ حکمت عملی سے جنرل پرویز مشرف کو اقتدار سے الگ ہونا
پڑا۔یہ وہ وقت تھا جب آصف زرداری نے سیاسی پچ کے دونوں جانب دلکش سٹروک
کھیلے اور میاں صاحب نے بھی زرداری کا بھرپور ساتھ دیا۔الیکشن میں کامیابی
کی صورت میں پیپلز پارٹی چونکہ بر سر اقتدار آ چکی تھی اور آصف زرداری کی
سیاسی فہم و فراست کے ڈونگرے ہر جانب بجائے جا رہے تھے۔یہاں تک کہ مسلم لیگ
ن پیپلز پارٹی کی بی ٹیم کا طعنہ سننے کے باوجود پیپلز پارٹی کی ہمرکاب
تھی۔دونوں جماعتوں کی سیاسی بصیرت سے مشرف اقتدار سے الگ ہوے تو صدارت کی
کرسی کے لیے رسہ کشی کا آغاز ہوا۔سیاسی مفاہمت کے گرو آصف علی زرداری نے اس
موقع پر بھی بھرپور سیاسی سوجھ بوجھ کا استعمال کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے
کرسی صدارت پر براجمان ہو گئے۔آصف علی زرداری جب اقتدار کے ایوان میں متمکن
ہوے تو سیاسی اور صحافتی حلقوں میں ان کی سیاسی بلوغت اور سیاسی مفاہمت کا
تذکرہ اور چرچا ہونے لگا۔بعد ازاں دوران اقتدار پیپلز پارٹی متعدد مرتبہ
ایسے خطرناک بحرانوں کا شکا ر ہوئی کہ ان مواقع پر تجزیہ نگار وں اور تبصرہ
نگاروں نے حکومتی رخصتی کے اوقات متعین کرنا شروع کر دیے لیکن تب بھی
زرداری کی مفاہمانہ سیاست کی جادوانہ چھڑی ایسا کارگر ہتھیار ثابت ہوئی کہ
تمام بحران اپنی موت آپ مر گئے اور اقتدار کا ہما طویل ہوتا چلا گیا۔اور
پیپلز پارٹی کی قیادت سمیت ،وزرا اور پرکشش عہدوں پر فائز افراد اقتدار کے
مزے لوٹنے کے علاوہ کرپشن کی سواری کرتے بھی دکھائی دئیے جو خبر کی صورت
روزانہ میڈیا کی زینت بنتی۔لیکن حکمران کرپشن کے بلند مینار تعمیر کرنے میں
اس قدر منہمک تھے کہ میڈیا کی آواز ان کے لیے نقار خانے میں طوطی کی آواز
سے زیادہ نہ تھی۔اس ساری صورتحال میں مسلم لیگ ن نے بھی کسی قسم کی مزاحمت
کا مظاہرہ نہ کیا اور نتیجے میں میاں نواز شریف کے سامنے تیسری بار
وزیراعظم بننے کی جو دیوار حائل تھی ریت کی دیوار ثابت ہوئی اور آئینی
ترمیم کی بدولت میاں صاحب کے تیسری بار وزیراعظم بننے کی راہ ہموار ہو
گئی۔پیپلز پارٹی نے اپنا پانچ سالہ دورحکومت کرپشن کی گنگا میں نہاتے ہوے
گزارا اور پھر ۲۰۱۳کے الیکشن کا بگل بج گیا۔۲۰۱۳ ،الیکشن کے نتیجے میں مسلم
لیگ ن ملک کی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری اورمیاں نواز شریف تیسری بار ملک
کے وزیراعظم بن گئے۔یہ وہ وقت تھا جب ہر قسم کا بحران منہ کھولے سب کچھ ہڑپ
کرنے کے درپے تھا۔لوڈشیڈنگ کا سلسلہ عروج پر تھا۔عوام کو گیس کی قلت کا
سامنا تھا ۔پیٹرول ،ڈیزل کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی تھیں۔عوام کی پچاس
فیصد سے زیادہ ٓبادی غربت کی سطح سے بھی نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور تھی
اور مہنگائی کی چکی میں پس رہی تھی۔دہشت گرد جہاں چاہتے آزادانہ دہشت گردی
کی واردات کرتے اور بڑے فخریہ انداز میں اس کی ذمہ داری بھی قبول کرتے۔ ان
دگرگوں حالات کے پس منظر میں بہت حد تک سیاسی مفاہمت کا ہاتھ تھا۔آصف
زرداری نے تمام اتحادی جماعتوں کو حصہ بقدر جثہ کے مصداق نوازنے کی پالیسی
اپنائی اور سب نے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر ملک کے ہر ادارے کو خوب لوٹااور
ارض وطن کی سیاسی سماجی اور معاشی کشتی میں دل کھول کر سوراخ کیے اور
اقتصادی جڑوں کو کھوکھلا کر دیا۔
ایک طرف سیاسی مفاہمت کے نام پرکی جانے والی لوٹ مار کا نقصان وطن عزیز کو
ہواتو دوسری جانب سیاسی مفاہمت کے منحوس سائے سے پیپلز پارٹی بھی محفوظ نہ
رہی ۔آصف زرداری کی خودغرض،مفاد پرست اور دوست نواز پالیسی کے سبب پیپلز
پارٹی کا عوام میں امیج بری طرح متاثر ہوا جس کا خمیازہ پیپلز پارٹی کو
الیکشن ۲۰۱۳ میں بھگتنا پڑا اور رہی سہی کسر کنٹونمنٹ بورڈ الیکشن نے پوری
کر دی جس میں پیپلز پارٹی کا پنجاب بھر سے صفایا ہوتا دکھائی دیا اور اب
صورتحال یہ ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر تجربہ کار،نظریاتی اور پرانے کارکنوں
کی پرواز وقفے وقفے سے جاری ہے جو دوسری سیاسی پارٹیوں بالخصوص تحریک انصاف
کی منڈیر پر بسیرا کرنے کے لیے بیتاب ہیں۔شنید ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت
کو اپنے طرز حکمرانی پر پچھتاوا ہے لیکن اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ
گئیں کھیت۔
|