65 کی جنگ میں ہم ایک تھے، بنگالی کہلاتے تھے سر
دھڑ کی بازی لگا کر دشمن کے خلاف لڑے، ایم ایم عالم نے پاکستان سے محبت کی
نئی تاریخ رقم کی ،پنجابی ہونے پر فخر کرتے بھی تھا ، لیکن گھر بار چھوڑ کر
محاذ جنگ پر پہنچ دشمن کو للکارا،بلوچ ور پختون اور سرائیکی سب اپنے
اختلافات کو پس پشت ڈال کر پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑے تھے اردو بولنے والے
خواہ وہ کراچی میں رہتے تھے ، اندرون سندھ میں آباد تھے پنجاب ، میں نسلوں
سے رہائش پذیر تھے غرض سب پاکستانی ہونے پر ناز کیا کرتے تھے تو فتح ہمارے
سرکا تاج بن گئی……1971 کی جنگ میں ہم منتشر تھے، ہمارے اندر اتفاق کی جگہ
نفرت تناور درخت بن چکی تھی ایک دوسرے پر غداری کے الزامات لگائے جا رہے
تھے بلکہ اس پر باقاعدہ فخر کیا جاتا تھا( یہ روش ابھی بھی جاری ہے) ہم
بنگالی ،پنجابی،بلوچی، پٹھان،سرائیکی مہاجر سب کچھ تھے مگر پاکستانی نہیں
نتیجہ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کی صورت میں دنیا کے نقشے پر ابھرا……1965میں
ہمارے دشمن جو ہم سے کئی گنا بڑا تھا اسے وہ ہزمیت ،ذلت،رسوائی اور شرمندگی
اٹھانی پڑی لیکن ہمارے دشمن نے محض چھ سات سالوں میں ہم میں ایسے بیج بوئے
کہ ہم بھائی ہونے پر فخر کرنے والے ایک دوسرے کو اپنا ازلی دشمن سمجھنے لگے
اور پھر 65 کی شکست کا بدلہ اس طرح لیا کہ ہمارا مشرقی بازو یعنی مشرقی
پاکستان ہم سے الگ کرکے کہا کہ دوقومی نظریہ ختم ہوگیا
آج بھی دشمن اپنی سازشوں اور چالوں میں کامیاب ہے کہ اس نے ہم پر ایک ایسی
جنگ مسلط کر نے میں کامیابی حاصل کر لی ہے جو سرحدوں پر لڑی جانے کی بجائے
ہماری گلیوں کوچوں، محلوں، پارکوں تعلیمی اداروں مساجد سمیت دیگر عبادت
گاہوں کو محاذ جنگ میں تبدیل کردیا ہے،مرنے والے بھی ہم اور مارنے والے بھی
ہم ہی ہیں دشمن کا تو اس میں کوئی نقصان نہیں ہو رہا ، ہمارے حکمران اور
ادارے عرصہ دراز سے یہ دعوی کرتے آ رہے ہیں کہ بلوچستان کے حالات میں بگاڑ
کے درپردہ بھارت ملوث ہے ہمارا یہ بھی دعوی رہا ہے کہ کراچی کی روشنیاں
چھینے والوں کی پشت پر بھی انڈیا ،اسرائیل اور افغانستان کی خفیہ ایجنسیاں
کام دکھا رہی ہیں،لیکن آج تک کسی حکومتی عہدیدار کو ان ممالک کی کارستانیوں
کے ثبوت عالمی برادری کے سامنے رکھنے کی زہمت نہیں کی، جس کے باعث عالمی
فورم پر ہماری آواز پر کان دھرنے کی بجائے ہمیں نظرانداز کیا گیا اور ہمارے
سچ کو بھی محض الزامات کہ کر ہمیں نظرانداز کیا جا رہا ہے
اگر ہم خود پر مسلط کی گئی دہشت گردی کی جنگ میں 65 کی طرح فتح کے آرزو مند
ہیں اور دل کی گہرائیوں سے اس بات کے متمنی ہیں کہ ہم ارض پاک کو ایکبار
پھر امن کا گہوارہ بنانے میں کامیاب ہوں اور دشمن(اندرونی اور اسکے بیرونی
سرپرستوں) کو شکست سے دوچار کریں تو ہمیں اپنی سوچ کو تبدیل کرنا ہوگا،
اپنے سوا باقیوں کو غدار کہنے کی پالیسی کو خیرباد کہنا ہوگا،سب کو ڈانڈے
کے زور پر ہانکنا ترک کرکے سب کو بلا امتیاز رنگ و نسل ،مذہب و ملت اور جنس
و زبان برابری کا درجہ دینے کی پالیسی ترتیب دینا ہوگی،ناراض بلوچ نوجوانوں
کو قومی دھارے میں لانا ہوگا اور انہیں یقین دلانا ہوگا کہ وہ اتنے ہی محب
وطن ہیں جتنے کوئی اور……!!! یہ ملک انکا بھی اتنا ہی ہے جتنا جنرل راحیل
شریف یا نواز شریف کا ہے، انہیں بھی اس ملک میں وہیں حقوق حاصل ہیں جو ہر
پنجابی ،پختون، اور سندھی کو حاصل ہیں پھر دیکھنا یہ ملک کیسے ترقی کرتا ہے
حکومت کون ہوتی ہے اور اسے کس نے اختیار دے رکھا ہے کہ وہ لوگوں کو اپنے
حقوق مانگنے پر غداری کے سرٹیفیکیٹس بانٹیں، یہ ملک سب کا برابر کا ہے،
برہداغ بگتی، شاہ زین بگتی ہوں یا ماما قدیر ہو یا پھر کوئی اردو بولنے
والا ہو یا پنجابی اور سرائیکی خطے سے تعلق رکھنے والا ہو ……محض اپنے آئینی
حقوق مانگنے پر کسی کو غدار کہنے کی مشق بند کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس
ملک اور قوم کو اتحاد و اتفاق کی جسقدر ضرورتموجودہ حالات میں ہے پہلے کبھی
نہیں تھی، ہمیں اور ہمارے صاحبان اختیار و اقتدار کو چاہیے کہ وہ پہلے سے
بوئے ہوئے نفرتوں کے بیجوں کو بے اثر کرنے کی تدابیر کرے نہ کہ عوام کے
درمیان مذید خلیج پیدا کرنے والے فیصلے کیے جائیں،اگر ایسا نہ کیا گیا اور
اپنے ماضی سے سبق نہ سیکھا گیا تو دہشت گردی کے خلاف جنگ بری طرح متاثر
ہوگی ، اس جنگ میں ہماری ناکامی ہمارے لیے گھاٹے کا سودا ہے اور اس سے صرف
اور صرف ہمارے دشمن خوش ہوں گے -
کوئی کچھ بھی کہے لیکن وزیر اعظم نواز شریف اس ملک اور قوم کے منتخب قائد
ہیں انہیں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جنرل راحیل شریف سے دوقدم آگے ہونا
چاہیے جنگ میں دشمن سے برسرپیکار فوجی جوانوں کے پاس اگلے موچوں پر پہنچنا
چاہیے اور انکی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرکے انکے حوصلے بلند کرنا
چاہئیں کیونکہ اگر لیڈر ناکام ہو جائے تو باقی قوم بھی دل چھوڑ جاتی ہے،
نواز شریف کو یاد رکھنا چاہیے کہ لیڈر وہیں ہوتا ہے یا کہلوانے کا مستحق
ہوتا ہے جو بروقت فیصلے لینے کی صلاحیتوں سے مالا مال ہو اور جو خود کو
لیڈر کہلوانے کے باوجود نروس ہوجائے وہ قوم کو منزل پر لیجانے کی بجائے
منزل سے دور لے جاتا ہے۔
ضرب عضب ہماری زندگی اور موت کا مسلہ ہے ،دہشت گردی کی جنگ میں ناکامی
ہماری موت ہے اور کامیابی ہماری زندگی…… جنرل راحیل شریف کی سپہ سالاری میں
افواج پاکستان نے تو طے کر رکھا ہے کہ ضرب عضب آخری دہشت گرد اور اس کے
سہولت کار کی موت تک جاری رہے گا مگر سیاسی قیادت کے بارے میں چہ میگوئیاں
جاری ہیں کہ فوج اور اسکے درمیان دوتیاں پائی جاتی ہیں سیاسی قیادت کو
خصوصا وزیر اعظم نواز شریف جو کہ اس قوم کے منتخب لیڈر ہیں انہیں ٓاگے بڑھ
کر اس قسم کی چہ میگیوں کو ختم کرنا چاہیے اور دو ٹوک بتانا چاہیے کہ فوج
اور حکومت کے درمیان کسی قسم کی دوریاں نہیں ہیں ہم سب 65 کی طرح ایک ہیں
اور ایک رہیں گے ورنہ ……جدہ تو منزل ٹھہرے گی |