جنگ کے ابتدائی مشن کی کامیابی کے بعد ایئر کموڈور نذیر
احمد خان نے پلٹ کر نہ دیکھا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ قوم کے لئے زیادہ سے
زیادہ کرنے کا جذبہ بڑھتا رہا۔ ستمبر کے دوسرے ہفتے ٹرانسپورٹ وگ ایک منفرد
خیال کے ساتھ سامنے آئی کہ ہرکولیس کو بھاری بمبار کے طور پر استعمال کیا
جائے۔ نذیر احمد خان کو پروفیشنل ٹرانسپورٹ ایئر کریو ٹیم کے ہمراہ ہرکولیس
کو استعمال کرنے کے لئے نئے طریقہ کار اور پروسیجرز کو بروئے کار لانے کا
ہدف دیا گیا کہ وہ اپنے اس نئے کردار میں کیسے جاں بر ہوسکتا ہے۔ انہوں نے
جمرود پہاڑی سلسلوں کی طرف ہرکولیس کی بمباری کرنے کی درستی کو جانچنے کے
لئے کئی پروازوں کے مشن سرانجام دیئے۔ کامیاب امتحانوں کے بعد ان کی ٹیم نے
تجویز پیش کی کہ ہرکولیس کو اپنے نئے کردار میں موثر طور پر اسی وقت
استعمال کیا جاسکتا ہے جب اس کی ریمپ کو ختم کیا جائے اور عقبی دروازے کو
اوپری سمت سے بند کردیا جائے۔ باقی انجینئروں اور ٹیکنیشنز کی بہترین ٹیم
پر چھوڑ دیا گیا جنہوں نے ریکارڈ ٹائم میں یہ تبدیلیاں مکمل کیں۔ نذیر احمد
خان نے جنگ کے بمبار مشن کو شروع کرنے کے تاریخی مشن پر پرواز کی۔ ہدف
لاہور، قصور سیکٹر تھا جہاں بھارتی افواج مسلسل پاک افواج کے لئے خطرہ بنی
ہوئی تھیں۔ C-130 دشمن کے ایک ایک (ACK-ACK) فائر کے مقابلے میں خاموش بطخ
کی مانند تھا کہ جسے آسانی سے نشانہ بنایا جاسکتا تھا۔ نذیر احمد خان نے
اپنے حوصلہ مند عملے کے ساتھ کوہاٹ کے فضائی اڈے سے اڑان بھری۔ طیارہ
25000lbs بم کارگو سے مسلح تھا۔ اس روز انہوں نے بموں کے اسٹیک لادنے کی
انتہائی گہری نظر سے نگرانی کی تھی جو 50بموں پر مشتمل تھے۔ تباہ کن سامان
لادنے کے بعد ہرکولیس اپنے ہدف کی جانب اڑان شروع کرتے ہوئے تاریخ رقم کرنے
کے لئے تیار ہوئے۔ جب وہ ہدف کے نزدیک پہنچے تو نیوی گیٹر نے بم پھینکنے کے
لئے گرین لائٹ سگنل دیا۔ نذیر احمد خان نے بٹن دبایا اور تین سیکنڈز کے
اندر بم نیچے اندھیرے میں بہت تیزی سے گرنے لگے۔ پورا علاقہ آگ کے شعلوں سے
روشن ہو گیا۔ دشمن کی ایک ایک (ACK-ACK) گنوں سے غیر مسلح ہرکولیس پر آگ کے
دہانے کھول دیئے اس لئے پاک فضائیہ کے مشاق پائلٹ نے طیارے کا رخ موڑا اور
درختوں کی چوٹیوں سے ہوتے ہوئے یوں نچلی پرواز کی کہ پھلجھڑیوں کی مانند
دوبدو گنوں کے فائر سے بچتے ہوئے نچلی، اوپری درمیانی پرواز کرتے ہوئے
بحفاظت اثر گئی۔ ’’بھارتی بمباری‘‘ سے ہونے والی بمباری کی خبر پہلے ہی آل
انڈیا ریڈیو نے نشر کردی۔
فلائٹ لیفٹیننٹ امان اﷲ خان نے مسلح ہتھیاروں سے آراستہ اپنا پہلا آپریشنل
مشن 3ستمبر کی صبح اسکوارڈرن لیڈر وقار عظیم کے ساتھ شروع کیا اور اندھا
دھن (ACK-ACK) فائر کے باوجود اس کی زد سے بچتے ہوئے اپنا مشن مکمل کیا اور
دشمن کی حرکت اور پڑاؤ کے بارے میں قیمتی معلومات پاک فوج کو فراہم کیں۔
4ستمبر کو انہوں نے دو مشنز پر پروازکی۔ پہلا مسلح ہتھیاروں سے آراستہ مشن
تھا جس میں انہوں نے اکھنور بیراج کے نزدیک بھارتی ٹینکوں کو نشانہ بنا کر
نیست و نابود کردیا۔ ان کا دوسرا مشن چار طیاروں پر مبنی صف بندی (فارمیشن)
کا مشن تھا جو اکھنور میں بھارتی فوجی قافلے پر حملے کے لئے شروع کیا گیا۔
اس کے بعد جب 6ستمبر آیا اور کشمیر میں محدود فضائی اور زمینی حملے اس وقت
مکمل جنگ کا روپ اختیار کر گئے جب بھارتی افواج نے لاہور پر مکمل جارحانہ
حملہ شروع کیا۔ 6ستمبر کی صبح فلائٹ لیفٹیننٹ امان اﷲ نے چار طیاروں کی صف
بندی میں لاہور کی جانب پیش قدمی کرنے والے بھارتی افواج کے قافلے پر حملہ
کردیا۔ ان کی فارمیشنز نے لاہور، امرتسر روڈ پر کئی بھارتی ٹینکوں اور
ٹرکوں کے قافلوں کو نشانہ بنا کر بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا۔ 7اور
8 ستمبر کو امان اﷲ خان نے دو قریبی سپورٹ مشنز میں شرکت کی جو چارواہ اور
پھلوڑہ سیکٹروں میں جمع ہونے والے بھارتی ٹینکوں کے دستوں کے خلاف تھی۔ اس
حملے سے آگے بڑھتی بھارتی افواج کو کاری ضرب پہنچی اور اس کے مذموم عزائم
خاک میں ملتے نظر آئے۔ 9سے 12ستمبر ستمبر تک امان اﷲ خان نے چیمہ کھیم کرن،
واہگہ اور سیالکوٹ سیکٹر میں قریبی مشن اور مسلح حملوں میں پرواز کرتے ہوئے
دشمن افواج کے حواس باختہ کردیئے۔ 13ستمبر 1965ء کو اسکوارڈرن لیڈر علاؤ
الدین احمد کی قیادت میں تین نوجوان پائلٹوں امان اﷲ، سلیم اور منظور کو
بٹالہ، گورداس پور سیکٹر میں اپنے دوسرے سبق سکھانے والے مشن کو شروع کرنے
کے لئے مفصل بریفنگ دی گئی۔ صبح سویرے یہی فارمیشن چوندہ، نارووال سیکٹر
میں کئی دشمن ٹینکوں اور گنوں کو تباہ کرچکی تھی۔ درختوں کی چوٹیوں سے نچلی
پرواز کرتے ہوئے یہ فارمیشن گورداس پور علاقے میں بھارتی افواج کے لئے
ہتھیار اور گولہ بارود لانے والی ریل گاڑی کی تلاش میں تھی۔ ہدایات تھیں کہ
ہر قیمت پر ریل گاڑی کو تباہ کیا جائے۔ ساڑھے دس بجے کے لگ بھگ امان اﷲ نے
ایموٹرین کو دیکھا اور لیڈر کو مطلع کیا۔ فارمیشن نے ٹرین پر حملہ اور
شاندار نتائج حاصل ہوئے۔ بم لگتے ہی پوری ریل گاڑی آتش فشانی لاوا بن گئی
اور چاروں طرف آگ کے شعلے بلند ہونے لگے۔ اسکورڈرن لیڈر علاؤ الدین احمد
نچلی پرواز کرتے ہوئے دھماکے سے تباہ ہونے والی ریل کے ملبے کے قریب سے
پرواز کررہے تھے جس کی حدت ان کے طیارے تک آئی۔ انہوں نے طیارے کو بلند پر
اٹھانے کی سعی کی لیکن بہت دیر ہو چکی تھی۔ عظیم لڑاکا پائلٹ نے جان مادر
وطن پر نثار کردی۔ مایوسی سے دو چار فارمیشن کے دیگر ساتھی باحفاظت اپنے
اڈے پر لوٹ آئے۔ 14سے 19ستمبر تک امان اﷲ آگے بڑھتی ہوئی بھارتی افواج کو
تباہ کرنے والے جموں، سمبا، چاروا، سیالکوٹ، چونڈہ اور واہگہ اٹاری سیکٹر
میں قریبی سپورٹ مشنز میں مصروف رہے۔ انہوں نے امرت سر اور فیروز پور کے
تاریخی حملے میں بھی شرکت کی جس سے بھارتی ریڈاروں کو شدید نقصان پہنچا۔
یوں وہ 1965ء کی جنگ سے معروف ہیرو کے طور پر ابھرے۔ |