شہید مرتے نہیں
(Haq Nawaz Jilani, Islamabad)
لو گ چلے جاتے ہیں ان کی صرف یاد
رہ جاتی ہے ، ۔کچھ ہمیشہ کے لئے زندہ رہ جاتے ہیں لیکن کبھی کبھی تو سو چتے
ہوئے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔انسان کر بھی کیا سکتا ہے ۔ ہمارے بس میں کچھ
بھی نہیں ہوتا۔ہم بھی ان کی طرح سوچتے ہیں ۔ ان کی طرح سب کچھ کرتے ہیں ۔
ان کی طرح کھاتے اور پیتے ہیں جس طرح ان کو یقین تھا ویسے یقین تو ہمیں بھی
ہے لیکن جیسے وہ چلے گئے ویسے ہم نے بھی جانا ہے۔انسان کتنی جلدی بھول جاتا
ہے ۔ جن کیساتھ بچپن جوانی گزاری ہوتی ہے۔ جن کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہوتا ہے
وہی لوگ ہم سے جدا ہو جاتے ہیں جس طرح ہم ہر روز نئی پلاننگ اور منصوبہ
بندی کرتے ہیں اسی طرح وہ بھی کیا کرتے تھے ۔ ان کو بھی یقین نہیں تھا اور
ہمیں بھی یقین نہیں ہے کہ ندگی تو منٹوں اورسیکنڈز کی گیم ہے۔ ایک واقع،
ایک حادثہ یا کوئی درد زندگی تبدیل یا ختم کر دیتا ہے۔ ہمارے بہت سے اپنے
رشتہ دار بہن اور بھائی تو چلے گئے لیکن ہمارے ساتھ کیا ہوگا؟ ہماری موت ان
کی طرح ہوگی ۔ ہماری لاش کو غسل اور کفن نصیب ہوگا یا کسی بم دھماکے یا
سیلاب میں فنا ہو جائیں گے۔ آنکھیں بند کرنے سے حقیقت تبدیل نہیں ہوتی اور
نہ ہی آنکھیں کھولنے سے اندھیرا ختم ہوجاتا ہے۔ سوال تو یہ ہے کہ جب ہم اس
دنیا سے چلے جائیں گے تو ہمارے ساتھ کیا ہوگا ۔ ہم نے کونسے وہ کام کیے ہیں
جس پر ہم فخر کر سکتے ہیں یا یہ امید کر سکتے ہیں کہ اﷲ میاں ہم سے راضی
ہوں گے ۔ہم بھی ان کی طرح جنت کی سیر کریں گے ۔ ہم بھی ان کی طرح قبر میں
نہیں بلکہ ہمیشہ کی طرح زندہ جاوید ہوجائیں گے۔ہم پچپن سے سنتے تھے کہ جو
لوگ شہید ہو جاتے ہیں وہ کبھی مرتے نہیں بلکہ وہ ہمیشہ کی طرح زندہ ہو جاتے
ہیں۔یہ بھی سنتے تھے کہ وہ اس دنیا میں واپس آجاتے ہیں۔ کسی نہ کسی روپ میں
وہ رہتے ہیں ۔ ہمارے اردگرد موجود ہو تے ہیں لیکن ہمیں پتہ نہیں چلتا ۔ بڑے
ہوئے کچھ کتا بیں پڑھی تو معلوم ہوا کہ شہیدکو کبھی مردا نہ کہو بلکہ وہ
زندہ ہوتے ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ جس موت سے ہم سب سے زیادہ ڈرتے ہیں وہ
موت اﷲ میاں کے نزدیک سب سے زیادہ عزیز ہے۔ شہادت کی موت تو ہر بندے کو
نصیب بھی نہیں ہوتی۔ حضرت خالد بن ولید ؓ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں
نے اتنی جنگوں میں حصہ لیا تھا کہ ان کے جسم کا کوئی حصہ ایسا نہیں تھا جو
زخمی نہ ہوئی ہو۔ ایک بہادر کمانڈر اور سپاہ سالار رہیں ۔خواہش بھی تھی کہ
اﷲ میاں شہادت کی موت دیں لیکن اﷲ میاں نے ہمیں سمجھانے کے لیے ان کو شہادت
کی موت نہیں دی ۔ اﷲ میاں نے ان کے درجات مز ید بلند کیے ہوں گے لیکن شہادت
کی موت نصیب نہیں ہوئی ۔
میں نے جب خواب میں اپنے کزن کو دیکھا تو یقین نہیں آرہا تھا میں ان سے
سوالوں پے سوال پو چھے جا رہا تھا اور وہ خاموشی رہتے تھے۔ ایسا بھی نہیں
تھا کہ میں نے ان کو پہلی بار خوب میں دیکھا بلکہ وقتاً فو قتاً میں ان کو
دیکھتا رہتا ہوں ۔ کہ کبھی وہ جنت کی باتیں کرتا ہے کہ جنت میں لوگ اس طرح
ہوا میں چکر لگا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جاتے ہیں تو کبھی وہ اپنی
شہادت کی بات کر تا ہے لیکن گزشتہ رات کی خوب میں جب دیکھا تو میں نے صحا
فیوں کی طرح سوالات پو چھنا شروع کر دیے اور انہوں نے ان اینکرز کی طرح جو
ٹی وی پر اپنے پروگرام میں مہمان کو جواب دینے کا موقع کم ہی دیتے اور آخر
میں پروگرام ختم کر دیتا ہے۔میں نے پوچھا کہ آپ قبر سے کیسے نکلے۔اس دوران
خیال آیا کہ ہمارے نادانوں نے تو ان کی قبر سیمنٹ سے پکی بھی کر لی تھی تو
یہ وہاں سے کیسے نکلے ۔جب وہ جواب دینے کی کوشش کر تا تو یک دم سے مجھے
خیال آیا اور میں کہتا ہوں کہ میں کسی کو بتاؤ کہ جن لو گوں نے ان کو قتل
کیا ان کو کوئی بتا دیں کہ وہ گاؤں واپس آجائے سلیم احمدشاہ زندہ ہے وہ بچ
گیا تھا۔ہم نے توان کو دفنا دیا تھا لیکن وہ قبر سے زندہ نکل آیا ہے ۔ سلیم
کو میں ان کی گر ین کلر کی شلوار قمیص میں دیکھتا ہوں تو میں سو چتا ہوں کہ
یہ شلوار قمیص کہاں سے ان کے پاس آئی یہ تو قبر میں سفید کفن میں تھا۔ اس
دوران وہ مجھے شایدبتا تا ہے کہ تھوڑی دیر بعد میری آنکھیں کھلی تومیں دل
میں خیال کرتا ہوں کہ پھر یہ کیسا نکلا ہوگا کیاآئندہ ہمیں قبر وں پر زیادہ
مٹی وغیر ہ اور سیمنٹ نہیں لگانا چاہیے۔ اب مجھ نادان کو تو یہ معلوم نہیں
کہ وہ ہمیشہ کے لیے زندہ ہے ویسے ہی میں ان سے پو چھتا رہا کہ اتناعرصہ آپ
کہاں پر تھے ۔ کہاں چلے گئے تھے ۔ مٹی کے بنے ہوئے دیوارجو لگ رہا تھا کہ
وہ جگہ سر سبز وشاداب تھا میں ان کوچارپائی پر بیٹھا دیتا ہوں اور خود پتہ
نہیں کہی چلا جاتا ہوں ۔ میں بھی بہت خوش تھا کہ وہ واپس آیا لیکن ایک بات
ہے کہ وہ باتیں زندگی میں جس طرح زیادہ کرتے تھے اس طرح نہیں تھے ۔ جس طرح
دنیا زندگی میں وہ ہر وقت تیزی میں تھے اور کہا کرتے تھے کہ میر ے پاس وقت
نہیں ہے ۔ اب ان کی زندگی ویسے نہیں ہے۔ان کی زندگی میں ایک ٹھہراؤ آیا ہے۔
ویسے میں نے اپنے کزن سلیم احمد شاہ کو کئی بار خواب میں مختلف انداز میں
دیکھا ہے ۔ انہوں نے تو مجھے یہاں تک بتا یا تھا کہ جب مجھے گولی لگی تو اس
وقت معمولی سا درد محسوس ہوا تھا اس کے بعد کوئی درد نہیں ہوا اور میں
بالکل ٹھیک ہو گیا ہوں ۔ وہ خوش و خرم ہے ۔ شاید وہ ہمیں باربار بتانے کی
کوشش کرتا ہے کہ میں یہاں پرخوش ہوں لیکن نجانے ہمیں ان کی یاد کیوں ہر وقت
آتی ہے۔وہ تو خود ہمیشہ کے لیے زندہ ہو گیا لیکن وہ ہر وقت ہمارے یادوں میں
ہے۔ ہم ہر وقت ہر دعامیں وہ یاد آتا ہے۔یہاں پر مجھے سردار شہدا حضرت ہمزا
ؓ کی شہادت کا واقعہ یاد آیا کہ جب ظلموں نے ان کو شہید کیا تو میر ے آقا
نے فرمایا کہ میں ہمزا کے بدلے صحیح اعداد تو یاد نہیں لیکن غلباً 100 کا
کہا تھا کہ سو کافروں کو قتل کروں گا ۔ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے وحی آیا کہ اے
میرے محبوب جتنا ظلم ہوا ہے اتنا بدلہ لے لواسے زیادہ نہ لو اور اگر معاف
اور صبرکرتے ہو ، تواس کا اجر عظیم ہے۔ میرے آقانے فرمایا کہ ہم بدلہ بھی
نہیں لیتے ہم اپ کی راضا پر صبر کریں گے ۔ اﷲ تعالیٰ نے میر ے آقاکے چچاکو
تمام شہداکا سردار بنا دیا اور ان کے درجات کو بلند کیا جو ہمارے لیے مشعل
رہ ہے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ معاف کرنے میں جو اجر اور ثواب ہے اس کا
اندازہ ہم لگا ہی نہیں سکتے۔دوسری مجھ پر یہ حقیقت آشکار ہو گئی کہ شہید
لوگ ہمیشہ کے لیے زندہ ہوجاتے ہیں وہ ہمارے آس پاس
رہتے ہیں لیکن ہم ان کو دیکھ نہیں سکتے جبکہ بعض اوقات تو ان کی حقیقت
محسوس بھی کی جاتی ہے۔ کبھی کبھی مجھے ایسا لگتا ہے کہ سلیم اپنی صدقات اور
خیرات کی وجہ سے بخشے گئے ہیں وہ وہاں زیادہ خوش ہے۔اسلئے شہادت کی موت کو
اعظیم موت کہا کیا ہے اور شہید کبھی مرتے نہیں۔
|
|