ہمارا آج کا موضوع خواتین میں
بڑھتا ہوا چھاتی کا سرطان ہے جس سے ہر سال لاکھوں خواتین اس سرطان میں
مبتلا ہو کر تیزی سے موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔ ہمارے موضوع کا مقصد صرف
عورتوں کو چھاتی کے سرطان کے بارے میں معلومات فراہم کرنا اور اس سے بچاؤ
کی تدابیر کے بارے میں آگاہی دینا ہے تاکہ چھاتی کے سرطان سے بڑھتے ہوئے
خطرات پر قابو پایا جا سکے اور خواتین میں اسکی جانکاری پیدا کی جائے اور
اس مرض میں مبتلا ہونے سے پہلے اسکی پیش بندی ہو سکے اور خواتین میں چھاتی
کے کینسر سے بڑھتی ہوئی اموات سے بچا جا سکے۔
سرطان جسے انگریزی میں کینسر کہتے ہیں انسان کے جسم میں مختلف حصوں میں
پایا جاتا ہے جن میں چند معروف سرطان جیسے چھاتی کا سرطان، جلد کا سرطان،
معدے کا سرطان، جگر کا سرطان، بڑی او ر چھوٹی آنت کا سرطان، پھیپھڑوں کا
سرطان ، ہڈیوں کا سرطان، اندام نہانی کا سرطان، گلے ،منہ اور زبان کا سرطان
، مثانے کا سرطان، مثانے کے غدود کا سرطان، پیشاب کی نالی کا سرطان، دماغ
کا سرطان، خصیوں کا سرطان، بچے دانی کا سرطان اور اسی طرح دوسرے اہم انسانی
جسم کے بڑے بڑے حصوں کا سرطان پایا جاتا ہے ۔ سرطان اصل میں انسانی جسم میں
موجود خلیات کا تیزی سے بے قابو ہوکر بے قاعدگی سے بڑھنے کا نام ہے جس سے
خلیات میں خلل پیدا ہو جاتا ہے ۔ انسانی جسم میں موجود کروڑوں خلیات جو
بنتے اور تباہ ہوتے رہتے ہیں جیسے ہی کسی ایک خلئے سے حرکت کرکے علیحدہ
ہوتے ہیں تو وہ اپنی عام باقاعدہ بڑھوتری سے راہ فرار اختیار کر لیتے ہیں
اور اسطرح انکی بے قاعدہ بڑھوتری کو سرطان یا کینسر کا نام دیا گیا
ہے۔خلیوں کی یہ بے قاعدگی خلئے میں موجود جینیاتی مادے کی خرابی یا تباہی
کیوجہ سے وقوع پذیر ہوتی ہے۔خلیوں میں جینیاتی مادے کی تباہی کا عمل خلیوں
کی تقسیم کے دوران ہوتا ہے۔ مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ کسی ایک خلئے کے
جین کے نقصان یا تباہی کے واقع ہونے سے ایک صحت مند خلئے کا کینسر میں
تبدیل ہونا کافی نہیں ہوتا۔کسی ڈی این اے ( ایک ایسا ڈھانچہ جو خلیات کے
مرکزے میں پایا جاتا ہے اور انسانی جنس اور اسمیں پائی جانے والی خصوصیات
کا تعین کرتا ہے اور یہ خصوصیات پیدائش کے عمل سے ایک سے دوسرے میں منتقل
ہوتی ہیں جس سے موروثیت کا علم بھی ہوتا ہے) ایک خلئے کا متعددبار حادثہ ہی
کسی کینسر کا باعث بنتا ہے۔ بعض اوقات یہ بڑھوتری میں اتنا سست رو ہوتاہے
کہ اسمیں کئی سال بھی لگ سکتے ہیں۔ جینیاتی حادثات جو کینسر کے بڑھنے میں
مددگار ثابت ہوتے ہیں اسمیں بہت سے عوامل کار فرما ہوسکتے ہیں جن میں سب سے
بڑا عنصر ہمارے ارد گرد کا ماحول ہے۔اسکے علاہ موروثی سرطان بھی ہو سکتا ہے
جس میں ایک انسان پیدائشی طور پر جینیاتی عمل سے متاثر ہو کر کینسر کے مرض
میں مبتلا ہو سکتا ہے۔کینسر پیدا کرنے والے عوامل کو تین گروپوں میں تقسیم
کیا جا سکتا ہے۔ ورم پیدا کرنے والے وائرس، ماحولیاتی آلودگی، کیمیائی مادے
اور تابکاری شعائیں سرطان کا باعث ہو سکتی ہیں۔پچھلے چند سالوں سے خواتین
میں چھاتی کے سرطان کی شکایات انتہائی سرعت سے وقوع پذیر ہوئی ہیں ۔ گو کہ
چھاتی کے سرطان کی وجوہات تا حال مکمل طور پر معلوم نہ ہو سکی ہیں مگر
ماحولیاتی آلودگی اور جینیاتی عوامل ہی ایسے عنصر ہیں جو سرطان کا باعث بن
سکتے ہیں یہاں پر ہم خواتین کو احتیاطی تدابیر کے بارے میں بھی روشناس
کراوائیں گے تا کہ وہ اپنے جسم میں ہونے والی غیر معمولی تبدیلیوں کے بارے
میں جانکاری حاصل کر سکیں اسطرح اس موذی مرض کے بڑھنے کے امکانات میں کمی
واقع کی جا سکتی ہے اور فوری علاج سے اس مرض پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ کسی
بھی خاتون کا خاندانی پس منظر چھاتی کے کینسر کیلئے اہم عنصر ہو سکتا ہے جس
سے چھاتی کے سرطان کے بڑھنے کے خطرات ہو سکتے ہیں جنہیں موروثی خطرات کہا
جا سکتا ہے ۔ جینیات میں پائے جانے والے خاص تغیرات چھاتی کے سرطان میں اہم
کردار ادا کرتے ہیں یہ تغیرات یا تو موروثی ہو سکتے ہیں یا پھر کسی طرح سے
انسانی جسم میں واقع ہو جاتے ہیں ۔ جن خواتین کا خاندانی پس منظر چھاتی کے
کینسر سے وابسطہ ہو انہیں اپنے بارے میں بہت زیادہ خبردار رہنا چاہئے۔ ایسی
خواتین جنہیں ماہواری میں مختلف تکالیف درپیش ہو تی ہیں اور ایسی لڑکیاں
جنہیں 12 سال کی چھوٹی عمر میں ماہواری شروع ہو جاتی ہے یا ایسی خواتین
جنکا ماہواری کا عمل رک جاتا ہے یا جنہیں 50 سال سے بھی ذائد عرصے تک
ماہواری آتی رہتی ہے یا پھر انکی ماہواری دشواری سے آتی ہو یا اسمیں بے
قاعدگی پائی جاتی ہو ایسی خواتین میں چھاتی کے سرطان کے امکانات دوسری
خواتیں کی نسبت بڑھ سکتے ہیں۔خواتین میں ماہواری کا عمل انتہائی اہمیت کا
حامل ہوتا ہے جو خواتین کے جسم میں مختلف تغیرات پیدا کرنے میں اہم کردار
ادا کرتا ہے اسلئے خواتین کیلئے ضروری ہے کہ جیسے ہی وہ اس عمل سے فارغ ہوں
اپنے جسم میں رو نما ہونے والی غیر معمولی بتدیلیوں کی طرف دھیان دیں
۔دوران ماہواری قدرتی طور پر چھاتیوں کا وزن یا سائز بڑھ جاتا ہے اور انمیں
سختی سی محسوس ہونا شروع ہو جاتی ہے بعض اوقات ماہواری کے دوران خواتین کو
بخار کی سی کیفیت بھی ہو جاتی ہے ۔ ایسی حالت میں خواتین کے پستانوں میں
گلٹیاں ، ابھار یا پھر گومڑے وغیرہ بھی ہو جاتے ہیں ان حالتوں میں فوری طور
پر اپنے معالج سے رابطہ کرنا انتہائی ضروری ہوتا ہے تاکہ اس تبدیلی کے بارے
میں صحیح معلومات حا صل کی جا سکیں جو خواتین کے چھاتی کے سرطان میں اہم
کردا ر ادا کرتے ہیں۔
ایسی خواتین جو تولیدی عمل سے نہ گزری ہوں یا پھر وہ خواتین جو تیس سال کی
عمر کے بعد عمل تولید سے گزرتی ہیں انمیں بھی چھاتی کے سرطان کے امکانات
بڑھ جاتے ہیں۔ ایسی خواتین جو تولیدی عمل سے گریز کرنے کیلئے مختلف قسم کی
ادویات کا استعمال کرتی رہی ہوں یا پھر ہارمون کے بد نظمی کا شکار رہی ہوں
ایسی عورتوں میں بھی چھاتی کے سرطان کے بڑھنے کے امکانات موجود ہو سکتے ہیں
ایسی عورتیں جو اپنے بچوں کو دودھ نہیں پلاتیں انمیں بھی چھاتی کے سرطان کے
بڑھنے کے امکانات ہو سکتے ہیں۔ ایسی عورتیں جو باقاعدگی سے ورزش نہیں کرتیں
اور اپنے موٹاپے پر قابو نہیں رکھ سکتیں ان میں بھی چھاتی کے سرطان کے
امکانات بڑھ سکتے ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی کے علاوہ سگریٹ نوشی اور شراب کی
ذیادتی بھی چھاتی کے سرطان کا باعث بن سکتے ہیں۔ جو عورتیں رات گئے تک یا
تمام رات کام کرتی ہیں ان میں بھی چھاتی کے کینسر کے امکانات بڑھ سکتے ہیں
۔ رات کے اوقات میں جبکہ عورتوں کے جسم میں پایا جانے والا ایک خاص ہارمون
جو رات کے اوقات میں نیند کے دوران کام کرتا ہے رات کے اوقات میں کام کرنے
والی خواتین میں یہ جنسی ہارمون کی باقاعدگی کو متاثر کرتا ہے اسطرح
ایسٹروجن ہارمون کی سطح بڑھ جاتی ہے جس سے چھاتی کے کینسر کے امکانات بڑھ
سکتے ہیں۔چھاتی کے کینسر کی تین چوتھائی وجوہات کے بارے میں یہ نہیں کہا جا
سکتا کہ وہ کون سے عوامل ہیں جو چھاتی کے کینسر کا باعث بن سکتے ہیں۔نتیجے
کے طور پر ڈاکٹر حضرات خواتین کوہدایت کرتے ہیں کہ انہیں اپنے معالج سے سال
میں دو مرتبہ یا پھر ہر سال چھاتی کا معائینہ کروانا لازمی ہے ۔ اور خواتین
کو اپنے معالج کی ہدایت کے مطابق اپنا از خود ماہانہ معائینہ بھی کرتے رہنا
چاہئے ۔ جو خواتین اپنی چھاتیوں میں کسی بھی قسم کا غیر ضروری ابھار محسوس
کریں یا پھر چھاتیوں میں سختی محسوس کریں یا کسی بھی قسم کی گلٹی محسوس
کریں یا چھاتیوں سے کسی بھی قسم کی رطوبت نکلتی ہوئی محسوس ہو یا انمیں درد
کی کیفیت ہو تو انہیں فوراً اپنے معالج سے مشورہ کرنا چاہئے ۔ چھاتی کا
سرطان اگر ابتداء میں تشخیص کر لیا جائے تو اسکا علاج ممکن ہے اور موت کے
منہ میں جانے سے بچا جا سکتا ہے۔ ۔ ذیادہ تر چھاتی کا سرطان دودھ پیدا کرنے
والے غدود اور سر پستان سے شروع ہوتا ہے۔ چھاتیوں کے سرطان کی تحقیق کیلئے
ایکسرے(میموگرافی)، سکریننگ، پستان سے حاصل کردہ مواد یا پھر بافتوں کا
لیبارٹری ٹیسٹ، سی ٹی سکین، ایم آر آئی ، خواتین میں پائے جانے والے
ایسٹروجن اور پرو جیسٹون ہارمونز میں پائی جانے والی بے قاعدگی کا ٹیسٹ
وغیرہ شامل ہیں ۔خواتین اپنے پستانوں کا معائنہ خود بھی کر سکتی ہیں۔مہینے
میں کم از کم ایک مرتبہ خوب روشن کمرے میں ایک قد آور آئینے کے سامنے کھڑے
ہو کر پورے جسم کا سر تا پاء بغور انتہائی احتیاط اور بیداری سے جائزہ لیں۔
اگر جسم پر کسی بھی قسم کا پیداہونے والا نیا تل، گومڑہ، گلٹی، گٹھلی یا
پھر کوئی سا بھی ابھار محسوس ہو جو6 ملی میٹر یا پھر اس سے ذیادہ ہو تو
فوری طور پر اپنے معالج سے رابطہ کرکے مشورہ کرنا انتہائی ضروری ہے۔اسکے
علاوہ جونہی ماہواری کا دورانیہ ختم ہو تو خواتین کو چاہئے کہ وہ آئینے کے
سامنے گھڑی ہوکر اپنی چھاتیوں میں ہونے والی کسی بھی قسم کی غیر معمولی
تبدیلی کا معائنہ کریں اورچھاتیوں پر ابھرنے والے سخت یا پھر نرم قسم کے
ابھار، جلد میں سختی کا رونما ہونا، سر پستان کا سرخ ہونا پستان کا انتہائی
سخت ہو جانا اور اس میں تکلیف ہونا، اسی طرح اگر مکمل چھاتی سرخ ہواور
اسمیں درد کی کیفیت محسوس ہوتو اپنے معالج سے آگاہی حاصل کرنا انتہائی
ضروری ہے۔یہاں ایک بات واضح کر دینی بہت ضروری ہے وہ یہ کہ یہ ضروری نہیں
کہ پستان میں ہونے والی یہ تبدیلی کینسر ہی ہو مگر اسکے باوجود رونما ہونے
والی یہ تبدیلیاں اپنے معالج کے علم میں لایا جانا بہت ضروری ہیں تاکہ کسی
قسم کا شک و شبہ دور کیا جا سکے اور زندگی اطمینان سے گزر سکے۔ پوری دنیا
میں ہر سال چھاتی کے سرطان میں مبتلا ہونے والی خواتین کی تعداد دس لاکھ سے
بھی ذیادہ ہے۔ سال 2000 ء کے اوائل تک چھاتی کے سرطان میں مبتلا تقریباً
پانچ لاکھ خواتین موت کے منہ میں چلی جاتی تھیں۔پوری دنیا میں خواتین کے
چھاتی کے سرطان سے بڑھتی ہوئی اموات نے بین الاقوامی طور پر ہلچل مچا دی جس
سے پوری دنیا میں عورتوں کو چھاتی کے سرطان کے بارے میں بنیادی معلومات
فراہم کرنے کی ضرورت پیش آئی اسطرح اکتوبر کے مہینے کو چھاتی کے کینسر کی
آگاہی کے طور پر منایا جاتا ہے اور ہر سال اکتوبر کے پورے مہینے میں چھاتی
کے کینسر کے بارے میں ہسپتالوں میں سیمینار منعقد کئے جاتے ہیں، عورتوں کی
آگہی کیلئے انکے گھروں ، انکے کام کرنے کی جگہوں پر ہسپتال کے ڈاکٹر خواتین
میں پمفلٹس تقسیم کرتے ہیں ، فورم عمل میں لائے جاتے ہیں، کینسر کی ٓگاہی
کییلئے سیمینار منعقد کرائے جاتے ہیں اور ماہر ڈاکٹرز سیمینار کے موقع پر
خؒواتیں کو اہم معلومات فراہم کرتے ہیں۔پوسٹروں ، اشتہارات اور ٹی وی شو کے
ذریعے اس سے آگاہی میں مدد دی جاتی ہے اورواک کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں
اس موذی مرض کے بارے میں آگاہی دی جاتی ہے تاکہ خواتین اپنے اندرکسی بھی
طرح کی رونما ہونے والی تبدیلی کو پا کر اسکے بارے میں اپنے معالج یا پھر
میڈیکل سینٹر سے رابطہ کر سکیں اور اپنے ٹیسٹ کروا کر اسکیں اور اس بارے
میں جتنی جلد ممکن ہو سکے جانکاری حاصل کر سکیں ۔ایسی خواتین جو چھاتی کے
سرطان میں مبتلا ہو کر علاج معالجے کے بعد ٹھیک ہو چکی ہیں اور وہ اب حسب
معمول زندگی کے کام سر انجام دے رہی ہیں انہیں چاہئے کہ وہ بھی اسطرف سے
غافل نہ ہوں اور ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق اپنے تمام ٹیسٹ کرواتی رہا کریں
کیونکہ یہ موزی مرض ذرا سی بے احتیاطی کی وجہ سے دوبارہ لاحق ہو سکتا ہے جو
ذیادہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔معمولی سی احتیاط آپکو ایک بہت بڑے حادثے سے
بچانے میں کارآمد ثابت ہو سکتی ہے اور آپ ان معمولی سی تدابیر کو اختیار
کرکے اپنے زندگی کے شب و روز کو ہنسی خوشی گزار سکتی ہیں۔آئیں ہم اس موذی
مرض کے خلاف جنگ میں حصہ لیکر انسانیت کو سسک سسک کر مرنے سے بچائیں کہ یہی
انسانیت ہے۔ |