اسلام کا ابتدائی دور اور انصاف کا اعلیٰ معیار
(Rizwan Ullah Peshawari, Peshawar)
معاشرے میں انصاف کی وجہ سے ہی
امن قائم ہوسکتا ہے ظالم انسان اﷲ پاک کوپسند نہیں اﷲ عادل ہے اورعادل بندہ
ہی خداکوپسندہے بدحالی اوربدامنی سے نکلنے کا واحد حل منصف کا عادل ہونا ہے
اسلام کے ابتدائی دور میں جب اہل مکہ کے مظالم زیادہ بڑھ گئے تو رسول اﷲ
صلی اﷲ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے کہا کہ تم لوگ مکہ چھوڑ کے حبشہ چلے جاو
وہاں شاہ نجاشی کی حکومت ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ نہایت منصف اور
امن پسند انسان ہے اس کی حکومت میں کوئی کسی پر ظلم نہیں کرتا ، تم لوگ
وہاں جاو ہوسکتا ہے اﷲ تمہارے لئے وہاں کوئی بہترصورت پیدا کردے ۔پھر یہی
ہوا کہ مسلمانوں کی ایک خاطر خواہ تعداد حبشہ پہنچ گئی ۔اس بات کا علم جب
قریش مکہ کو ہوا تو انہوں نے آپس میں مشورہ کرکے اپنے دو خاص آدمیوں کو
حبشہ بھیجا جن میں سے ایک عبداﷲ بن ربیعہ اور دوسرے عمروبن العاص تھے ان
لوگوں نے حبشہ پہنچ کر سب سے پہلے بادشاہ کے درباریوں کو تحفے و نذرانے پیش
کئے اور انہیں اپنے اعتماد میں لیا تاکہ وہ لوگ بادشاہ سے ان کی سفارش کریں
اور بادشاہ ان کی باتیں سن کر براہ راست مسلمانوں کو ان کے حوالے کردے ۔مکہ
کا وفد دربار میں پہنچا اس نے بادشاہ سے کہا ہمارے وطن سے کچھ لوگ اپنے
آبائی دین سے پھر کر آپ کے ملک میں آگئے ہیں ، ان کی نادانی کا خیال کرتے
ہوئے امید ہے کہ آپ تعاون کریں گے اور انہیں ہمارے حوالے کرنے کی اجازت دے
کے ہمیں اور پورے قبیلہ قریش کو ممنون کریں گے جس کی تائید تمام درباریوں
نے بھی کی ۔
وفد سمجھ رہا تھا بادشاہ ان کی باتیں سن کر متاثر ہوگا اور بغیر کسی پوچھ
گچھ کے مسلمانوں کو ان کے حوالے کردے گا ،لیکن ایسا نہ ہوا بادشاہ ان کی
باتیں سن کر برہم ہوگیا اس نے کہا ،خدا کی قسم ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا کہ ان
سے تفتیش کئے بغیر میں انہیں تمہارے حوالے کردوں۔ حالانکہ درباریوں نے بھی
بادشاہ کو مشورہ دیا کہ مسلمانوں کو فورا وفد کے حوالے کردینا چاہئے لیکن
بادشاہ اپنی بات پر قائم رہا ، اس نے کہا کہ انصاف کا تقاضا ہرگز یہ نہیں
ہے کہ میں ان کی باتیں سنے بغیر فیصلہ کردوں ، چنانچہ اس نے مسلمانوں کو
دربار میں طلب کیا وہ آئے تو انہوں نے درباری آداب کے مطابق بادشاہ کوسجدہ
نہیں کیا ، بادشاہ مذہبا عیسائی تھا اور اپنے عقیدے کے مطابق حضرت مسیح
کوخداکا بیٹا مانتا تھا، دوران گفتگو حضرت عیسٰیؑ کا ذکر چلا تو مسلمانوں
کے امیر جعفرابن ابی طالب نے صاف لفظوں میں کہا حضرت مسیح خدا کے پیغمبر
تھے نہ کہ بیٹے ، بظاہر یہ دونوں ہی باتیں بادشاہ کو مشتعل کرنے والی تھیں
اس کے باوجود اس نے مشتعل ہوئے بغیرمسلمانوں کی باتیں بغور سنیں اس کے بعد
وفد کے لائے تحائف واپس کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگ جاسکتے ہیں اور یہ مسلمان
میری مملکت میں جب تک چاہیں رہ سکتے ہیں میں انہیں کسی صورت تمہارے حوالے
نہیں کرسکتا ۔یہی انصاف کا صحیح طریقہ ہے اور یہ کبھی یکطرفہ کارروائی کرنے
سے وجود میں نہیں آتا، یہ اسی وقت حاصل ہو سکتا ہے جب دونوں فریقوں کی
باتیں بغور سنی جائیں اور کسی دباو اور جھکاو کے بغیر بے لاگ فیصلہ سنا دیا
جائے اس طرح سے دیا جانے والا کوئی بھی فیصلہ انصاف کا ہی فیصلہ کہا جائے
گا ، یہ بات چاہے گھریلو سطح کی ہو یا پھر علاقائی اور ملکی سطح کی ۔
جب بھی دوفریقوں کے مابین تنازعہ پیدا ہو تو کسی ایک فریق کی بات سن کر
فیصلہ کردینا انصاف نہیں ظلم کہلائے گا ایسا کرنا کسی کیلئے بھی درست نہیں
ہوسکتا ،خواہ وہ کتنے ہی بڑے منصب پرکیوں نہ فائزہو ۔مندرجہ بالا واقعہ
ہمیں انصاف کے ایک اعلی معیار کی نظیر فراہم کرتا ہے کہ انصاف کرتے وقت
ہمیں صرف اور صرف انصاف کے ان پہلوو ں پر نظر رکھنی چاہئے جہاں جہاں سے
انصاف کی فراہمی کو ممکن بنایا جاسکتا ہو ۔ نجاشی نے صرف سچائی اور انصاف
کو پیش نظر رکھا، اسے نہ تو مکہ والوں کے نذرانے اور تحائف متاثر کرسکے نہ
ہی اس نے اپنے قریبی مصاحبین اور وزرا کی پرواہ کی یہاں تک کہ اس نے اس بات
کا بھی خیال نہیں کیا جو بظاہر اس کے عقیدے سے متصادم ہورہی تھی یعنی اس کے
عقیدے کی تصغیر و توہین کی گئی ساتھ ہی درباری آداب کی مکمل خلاف ورزی بھی
جو بذات خود اس کی توہین کے مترادف تھی لیکن ان میں سے کوئی بھی بات اسے
مشتعل کرسکی نہ ہی اس پر کوئی متعصبانہ رنگ چڑھاسکی کہ وہ انصاف سے برگشتہ
ہوجاتا اور غیر منصفانہ فیصلہ سنا دیتا ۔
اس کے برعکس نجاشی نے سارے معاملے کو عدل و انصاف کی نظر سے دیکھا اور ان
سارے عوامل کو یکسر نظر انداز کیا جس کے دباو میں آکر انسان انصاف کی راہ
سے ہٹ جاتا ہے ، اس نے صرف اور صرف یہ کیا کہ دونوں فریقین کی باتیں بغور
سنیں اور پھر پورے معاملے کی غیر جانبدارانہ تحقیق کرتے ہوئے وہی کیا جو
عین انصاف کا تقاضا تھا۔ظاہر ہے اس کے برعکس کیا جانے والا کوئی بھی فیصلہ
امن کے بجائے ظلم کوہی بڑھا وا دے گا اور بدقسمتی سے ہمارے چاروں طرف آج
اسی قسم کے غیر منصفانہ عمل کے مظاہرے ہورہے ہیں جسے انجام دینے میں ہر
کوئی شامل ہے خواہ وہ امیر ہو یا غریب،چھوٹا ہو یا بڑا ، سرکش ہو یا شریف
۔آج سب سے اہم کا م یہی ہے کہ انسان عدل کے مطابق فیصلہ کرے خواہ اس پر
کیسا ہی دباو ہو ، یہاں تک کہ اس کے نفس اور مفاد کے خلاف ہی کیوں نہ ہو
اور بلا شبہ یہی وہ لوگ ہیں جو سماجی طور پر بھی سربلند رہیں گے اور اﷲ کے
یہاں بھی سرخرو ہوں گے ۔ اﷲ پاک اس ملک میں امن کی ہواچلادے (آمین ) |
|