عید کے موقع پر سعودی عرب میں دو المناک حادثات

یوں تومسلمانوں پر رنج و الم کا دور سقوط بغداد کے وقت سے ہی مستقل طور پر چلا آ رہا ہے تاہم یہ عید االا ضحی سعودی عرب میں حج کے موقع پر ہونے والے دو المناک حادثات کی وجہ سے دکھ اور افسوس کے احساس سے منائی گئی۔ پہلے خانہ کعبہ میں تعمیراتی کاموں میں استعمال ہونے والے ایک بھاری بھرکم کرین طوفانی بارش کے دوران گر جانے سے ایک سو سے زائد حجاج جاں بحق اور بڑی تعداد میں زخمی ہوئے۔اس کے بعد منی میں بھگڈر مچ جانے سے سعودی سرکاری حکام کے مطابق 717حاجی جاں بحق ،ایک ہزار کے قریب زخمی اور سینکڑوں لاپتہ ہو گئے ،جن میں ایران،نائیجیریا،مراکش، کیمرون،مصر ،پاکستان،ر بھارت اور دیگر ملکوں کے حجاج شامل ہیں۔گزشتہ 25سال میں حج کے موقع پر ہونے والا یہ بدترین حادثہ ہے۔1990ء میں مکہ میں بھگڈر سے1426افراد جاں بحق ہوئے۔1994ء میں منی میں بھگڈر سے270،تین سال بعد منی میں آگ لگنے سے340افراد جاں بحق 1500زخمی ہوئے،1998میں بھگڈر سے180،اور2006ء میں بھگڈر سے360جاں بحق ہوئے۔ سعودی حکومت نے کہا ہے کہ حج کے انتظامات اور حاجیوں کی نقل و حمل کے طریق کار کو بہتر بنایا جائے گا۔ مسجد الحرام میں تعمیراتی کرین گرنے کے حادثے پر سعودی حکام کے انتظامات زیر بحث آئے تھے۔بھگدڑ کا واقعہ اس وجہ سے پیش آیا ہے کہ زائرین کے لیے آنے اور جانے کے لیے مختص راستے ایک جگہ پر مل جاتے ہیں اور ایسا نہیں ہونا چاہیے۔سعودی حکام کے مطابق بعض حجاج نے طریقہ کار کی پابندی نہیں کی جس کی وجہ سے یہ المناک حادثہ رونما ہوا۔یہ حادثہ ’’آنے اور جانے‘‘ والے راستوں پر لوگوں کے آمنے سامنے آنے سے رونما ہوا۔سعودی عرب اپنے اس موقف پر قائم ہے کہ یہ واقعہ حاجیوں کی جانب سے ہدایات پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے پیش آیا۔ایران کی حکومت کی طرف سے حج کے موقع پر ہونے والے اس حادثے پر سعوی حکومت کے خلاف تنقید سے ایران کی سعودی عرب کی مخالفت کوسیاسی حربے کے طور پر استعمال کرنا بھی ظاہر ہو رہا ہے۔

حج اسلام کے پانچ اراکان میں سے ایک رکن ہے اورؤؤؤ ہر قابلِ استطاعت اور صحت مند مسلمان پر زندگی میں ایک بار حج کرنا لازم ہے۔گذشتہ چند دہائیوں کے دوران مکہ آنے والے افراد کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس سال20 لاکھ افراد نے حج کیا ہے۔ سعودی حکومت کی طرف سے حجاج کی سہولت کے لئے انتظامات کا سلسلہ تمام سال جاری رہتا ہے اور اس حوالے سے تو سیع اور بہتری کا تعمیراتی کا م بھی جاری رہتا ہے۔سعودی حکومت کا ہمیشہ سے موقف رہا ہے کہ حج اور عمرے کے لیے آنے والے لاکھوں افراد کی حفاظت اس کی سب سے اہم ذمہ داری ہے۔لوگوں کی حفاظت کے پیشِ نظر ماضی میں بھیڑ کے باعث بھگدڑ مچنے سے ہلاکتوں کے بعد سعودی حکومت نے مسجد الحرام اور مکہ سے باہر حج سے منسلک دیگر مقامات کی توسیع پر کروڑوں ڈالر خرچ کیے ہیں۔سعودی حکومت کے انہی انتظامات کی وجہ سے حج کے موقع پر2006 سے کوئی بڑا ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا تھا ۔ کچھ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں نسبتا تنگ جگہوں میں لوگوں کی آمدورفت کی وجہ سے ایسے حادثوں کو مکمل طور پر روکنا بیحد مشکل کام ہے۔منتظمین کو ایک اہم چیلنج یہ درپیش ہوتا ہے کہ حجاج کرام دو سو ممالک سے آتے ہیں اور سینکڑوں مختلف زبانیں بولتے ہیں۔ اس لیے حفاظت پر مامور عملے کو عازمینِ حج کو حفاظتی طریقہ کار پر عمل کرانے میں دشواری پیش آتی ہے۔وسرے ممالک میں بھی حج کا انتظام کرنے والے افراد نے حجاج میں اس سلسلے میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔تاہم سعودی حکومت کو بھگدڑ کے علاوہ دہشت گردی کے حملوں سمیت کئی دیگر خطر ات کے لئے بھی انتظامات کرنا پڑتے ہیں۔جہاں کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ سعودی محکمہ شہری دفاع کے اہلکاروں کی بروقت کارروائی نے ہلاکتوں کو بڑھنے سے روکا ہے وہیں کچھ لوگ حادثے کی ذمہ داری منتظمین کی نااہلی پر ڈال رہے ہیں۔سعودی حکومت نے خبردار کیا ہے کہ وہ کسی کو بھی اس حادثے کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

ایک امریکی ماہر،لاس اینجلس کے ‘‘ کنسلٹنسی کراؤڈ منیجمنٹ سڑیٹیجک ‘‘ کے پال ورتھیمر نے اس حادثے کے بارے میں کہا ہے کہ منی میں ہونے والے اس حادثے کا مسئلہ ’’ آر ٹیٹکچرل‘‘ ہے۔منی میں حجاج کے گزرنے کی جگہیں بہت تنگ ہیں جو اتنے بڑے ہجوم کے لئے مناسب نہیں، گزرنے کے اضافی راستوں کی تعمیر کے باجود یہ مسئلہ حل نہ ہو سکا ،یہ ’’ کراؤڈ منیجمنٹ‘‘ کی ’’ کلاسک‘‘ ناکامی ہے۔جب ہجوم میں سات افراد ایک مربع میٹر جگہ میں پھنس جائیں تو وہ ہجوم ہلاکت خیز ہو جاتا ہے،اس سے ہجوم میں’’شاک ویوز‘‘ پیدا ہوتی ہیں جو ہجوم میں شامل افراد کے پاؤں اکھاڑ دیتی ہیں جس سے ان کے جوتے اور کپڑے بھی اتر جاتے ہیں اور اتنے ہجوم میں سانس لینا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔پال ورتھیمر کہتے ہیں کہ ’’ کراؤڈ منیجمنٹ‘‘ کے تقاضوں کو یقینی بناتے ہوئے مستقبل میں اس طرح کے المناک حادثات سے بچا جا سکتا ہے۔

ہر سال حج کے موقع پر لاکھوں افراد سعودی عرب آ کر مناسک حج ادا کرتے ہیں۔حج کے ارکان کی ادائیگی میں وسعت ،بہتری تو درست لیکن حجاج کی مجموعی تعداد پر اتنا کنٹرول ضروری ہے کہ حج کرنے والے والے سہولت اور آسانی سے حج کا فریضہ ادا کر سکیں۔اس حوالے سے کئی بار حج کر چکنے والوں کی تعداد پر بھی سخت چیک قائم کرنا ضروری ہے۔مختلف ملکوں کو بھی اس حوالے سے اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے حجاج کرام کی بہترین تربیت کو بھی یقینی بنانے کی اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہئے تا کہ انہیں مناسک حج ادا کرنے سے متعلق ہر قسم کی آگاہی حاصل ہو سکے اور وہ حج کے موقع پر طے شدہ طریقہ کا ر کی مکمل پابندی کریں۔یہ ضروری ہے کہ دنیا بھر سے آنے والے مسلمانوں کے حج کے فرض کو اتنا با سہولت بنا دیا جائے کہ وہ حادثات سے محفوظ رہ سکیں۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 699202 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More