یادوں کی برات کا قلمی نسخہ اور اُس کے گمشدہ وغیر مطبوعہ اوراق

(ایک تحقیقی دریافت)
تحقیق وتدوین:ڈاکٹرہلال نقوی
صفحات:۳۸۴، قیمت:۱۰۰۰روپے/۲۰ ؍امریکی ڈالر
ناشر:جوش لٹریری سوسائٹی (کیلگری)کینیڈا

جوش ہماری ادبی تاریخ کے ایک زندہ کردار ہیں۔ ہندوستان میں وہ رسالہ ’’آج کل‘‘ کے ایڈیٹر رہے۔ ۱۹۵۱ء میں پاکستان آگئے اور کراچی میں سکونت اختیار کی۔ترقی اردوبورڈ موجودہ اردو ڈکشنری بورڈ کے مشیر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیتے رہے۔ جوش جدید شاعروں میں شمار ہوتے تھے۔ ان کو شاعراعظم، شاعر شباب اور شاعرانقلاب کے خطاب بھی ملے۔ان کی شاعری میں جوش اور گونج پائی جاتی ہے۔یہی گونج ان کی خود نوشت سوانح حیات ’’یادوں کی برات‘‘ میں بھی اُسی شدت سے ملتی ہے ۔’’یادوں کی برات‘‘ میں جوش نے اپنی زندگی اور اپنے قریبی ساتھیوں کے کردار تخلیق کیے ہیں اور ہر واقعے اور واردات کو دلچسپ اسلوب میں بلاکم وکاست بیان کردیا ہے۔کچھ نقادوں نے ’’یادروں کی برات‘‘ میں جنس نگاری کے حوالے بھی دیئے ہیں جس کا جواب جوش نے کبھی نہیں دیا۔

جوش پر تحقیقی کام کے حوالے سے نمایاں نام ڈاکٹرہلال نقوی کا ہے جنھوں نے اب تک جوش شناسی پر سات خاص شمارے نکالے ہیں۔ زیرنظر کتاب کی دریافت اور اس پر ایک مبسوط مقدمہ جوش کی اس خود نوشت کے حوالے سے بلاشبہ ایک عالمانہ اور محققانہ کام ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بحیثیت محقق انھوں نے جتنا بھی کام کیا ایمان داری اور خلوص کے ساتھ کیا۔ جن احباب نے ڈاکٹر صاحب کے ساتھ جس طرح کا بھی تعاون کیا،ہلال صاحب اُن کے ہر سطح پر مشکور رہے۔خصوصًا رفیق نقش مرحوم پر ڈاکٹر صاحب نے اپنے مقدمے میں جگہ جگہ ذکر کیا ہے۔ راقم الحروف سے رفیق نقش صاحب نے کہا تھا کہ یہ جوگمشدہ اوراق میرے پاس ہیں وہ میں ڈاکٹر صاحب کواس لیے دینا چاہتا ہوں کہ وہ ہی اس کے جائز حق دار ہیں۔اسی کا نتیجہ آج زیرتبصرہ کتاب کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔

جوش ملیح آبادی کی یادوں کی برات کا پہلا ایڈیشن ۱۹۷۰ء میں سامنے آیا تھا۔ جسے جوش اکیڈمی، کراچی نے شائع کیا تھا ۔ اس میں شمس زبیری، سبط حسن اور منور عباس پر اظہارخیال کیا گیا تھا۔ بعد والے ایڈیشن میں ان صفحات کو نکال کے مجاز کا خاکہ شامل کیا گیا۔اب زیرنظر کتاب میں ۱۰۱ دریافت شدہ خاکے شامل کیے گئے ہیں۔جن میں جگرمرادآبادی، شنکرپرشاد، سیدمحمدحسن عسکری، ابوالخیرمودودی، ودیاشنکر، کشن لال، اعجازالحق قدوسی، محمدذکریا مائل، امجدحیدرآبادی، عارف قریشی، ڈاکٹرعبداللطیف، حبیب اﷲ رشدی، بسمل ٹونکی، لطیف الدین احمد، مخموراکبرآبادی، اسرائیل احمدخاں، آغاحشرکاشمیری، سیماب اکبرآبادی، ساغرنظامی، جمیل مظہری، مولوی غیاث الدین، خواجہ شمس الدین، اخترعلی تلہری، علی عباس حسینی، احتشام حسین، یونس سلیم، رضافرنگی محلی، اجمل خاں، پنڈت کیلاش نرائن، اشعر دہلوی، شیوراج بہادر، اسلم خاں، گوپی ناتھ امن، منورلکھنوی، آنند نرائن ملاّ، سراج وقدیر، ہوش بلگرامی، ساحل بلگرامی، آل رضا، نواب سیدمحمدمہدی، خورشیدفریدآبادی، پنڈت بدری ناتھ شنگلو، امیدامیٹھوی، کرشن چندر، مالک رام، صفدر آہ سیتاپوری، آغا جانی کاشمیری، پنڈت ہری چند اختر، سیدعلی اختر، رزی جے پوری، اخترشیرانی، جاں نثاراختر، جگن ناتھ آزاد، جذبی، رعناجُگی، سیدسبطِ حسن، سجادظہیر، سردار جعفری، نریش کمار شاد، شکیل بدایونی، عرش ملسیانی، فیض احمدفیض، کیفی اعظمی، گل زار، مجروح سلطان پوری، مجاز، مجتبیٰ حسین، مصطفی زیدی، احمدندیم قاسمی، ابوالحسن بلگرامی، بدرالٰہ آبادی، پیرحسام الدین راشدی، سیدمحمدتقی، جمیل نشتر، مولانا محمد مصطفی جوہر، حکیم نصیرالدین، راغب مرادآبادی، رعنااکبرآبادی، روشن علی بھیم جی، رئیس امروہوی، زیباردولوی، سراج الدین ظفر، سروربارہ بنکوی، سلامت علی خاں، سلیم اﷲ فہمی، حمایت علی شاعر، شمس زبیری، صبااکبرآبادی، آغاحسن عابدی، صابرتھاریانی، فضلی، نظیرحسین قیصر،مبین الحق صدیقی، محمدطفیل، میرزا ابوجعفرکشفی، میرعترت حسین علی احمد تالپور، منورعباس، ذہین شاہ تاجی شامل ہیں۔واضح رہے کہ یادوں کی برات کے پہلے ایڈیشن میں شمس زبیری،سبطِ حسن اور منور عباس کے خاکے شامل تھے جودوسرے ایڈیشن سے نکال دیے گئے تھے، اور اُن کی جگہ اسرار الحق مجاز کا خاکہ شامل کردیا گیا تھا مگر اب ان گمشدہ اوراق میں ان چاروں کے خاکے بھی موجود ہیں۔ڈاکٹر صاحب نے بیشترخاکوں پر حاشیوں میں وضاحت کردی ہے تاکہ قاری کو ان کی افادیت اور اس کے پس منظر سے آگہی ہوسکے۔کچھ دریافت شدہ خاکوں سے متعلق جوشؔ کی آرا دیکھیے۔مالک رام کے خاکے میں انھوں نے کہا:
’’……اگر ہندوستان کے حالات ومزاج میں زبردست تبدیلی نہ آچکی ہوتی تو وہ ڈنکے کی چوٹ پر ’’مشرف باسلام‘‘ہوچکے ہوتے……‘‘

اس سلسلے میں مالک رام کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد ایک افواہ یہ بھی تھی کہ وہ مسلمان ہوگئے تھے۔ مگر آج تک اس کی تصدیق نہ ہوسکی۔

اخترشیرانی سے جوش کا ایک قلبی لگاؤ تھا وہ اِن کے خاکے میں کہتے ہیں کہ وہ:
’’رومانی شاعری میں یکتائے روزگار، دن رات کے بادہ خوار، ہمہ وقت سرشار، رندِحیات سوز، پروانۂ خوبانِ شب افروز، فردا سے بیگانے، امروز کے پروانے۔‘‘

اخترشیرانی کے انتقال پر جوشؔ نے ماہنامہ آج کل دہلی ، شمارہ اکتوبر۱۹۴۸ء میں لکھا کہ ’’مرحوم اخترکی شاعری ایسی شاعری نہیں کہ اس پر چندسطروں میں خامہ فرسائی کی جاسکے۔وہ کیا تھا اور کیا کچھ ہوسکتا تھا اس کے لیے ایک دفتردرکار ہے۔اخترایک ایسا بے نظیر خواب اور ایک ایسا عدیم المثال رومانی شاعر تھا کہ صدیوں کے بعد ایسے شاعر پیدا ہوا کرتے ہیں۔‘‘

کرشن چندرسے جوش کا تعلق بہت گہرا تھا۔ وہ ہمیشہ اپنی نجی محفلوں میں کرشن چندر کو یاد کیاکرتے تھے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’ہندوستان کے افسانہ نگاروں کے بادشاہ، محبت واخلاص کے اوتار، قلم کے دھنی، درم سے محروم۔ حُبِّ زر سے پاک رندی اور سرشاری میں بے باک اور کسی نہ کسی گیسوئے خم دار میں ہمیشہ گرفتار، پونے میں ایک زمانہ دراز تک ہم ایک دوسرے کے ساتھ رہ اور ’’شالی مار‘‘میں کام کرچکے ہیں۔……‘‘

خود کرشن چندرکے دل میں جوش صاحب کے لیے احترام ومحبت موجود تھا۔افکار کے جوش نمبر کے موقع پر انھوں نے اپنے پیغام میں کہاتھا ’’وہ میرے بزرگ رفیق اور شفیق دوست ہیں اور میں اُن کے لاکھوں پرستاروں میں سے ایک ہوں اور ہر لحظہ اُن کی درازیٔ عمر کے لیے دعا گو ہوں…… اس برصغیر میں انھوں نے اس وقت حریت، صداقت اور آزادی کا علم بلند کیا جب دوسرے لوگ انگریزوں کی شان میں قصیدے کہتے تھے۔‘‘

ڈاکٹر ہلال نقوی نے ان گمشدہ اوراق کی دریافت اور اُن کی ترتیب وتزئین کا جس طرح اہتمام کیا ہے وہ قابل ستائش ہے، بلاشبہ تحقیق کی دنیا میں جوشؔ کے حوالے سے کئی گم شدہ پہلو پر سامنے آئیں گے اور محققین کے لیے رہنمائی کا باعث بنیں گے۔ کتاب دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ معیاری کاغذ پر طبع ہوئی ہے۔
 

صابر عدنانی
About the Author: صابر عدنانی Read More Articles by صابر عدنانی: 34 Articles with 79733 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.