سیاستدانوں کےدلفریب وعدوں کا جال
(عبالرزاق چودھری , lahore)
گر پاکستان کی تاریخ پر نظر
دوڑائی جائے تو یہ بات واضح طور پر دکھائی دیتی ہے کہ قیام پاکستان سے لے
کر اب تک حکمران عوام کو بے وقوف بنانے میں کامیاب ہیں۔حکمران طبقہ جو غریب
عوام کو کھوکھلے نعروں اور دلفریب وعدوں کے جال میں پھنسا کر خود اپنے
مفادات کی آبیاری میں مصروف عمل رہتا ہے اور ساتھ ساتھ مفلسوں کے گھروں میں
جاری غربت کے رقص سے بھی لطف اندوز ہوتا ہے۔یہ حکمران کبھی روٹی،کپڑا اور
مکان کے نام پر سادہ لوح عوام کو دھوکا دیتے ہیں اور کبھی سات نکاتی ایجنڈے
کے سحر میں جکڑ کر ان غریبوں کے جذبات سے کھیلنے کا شوق پورا کرتے ہیں۔کبھی
سستی روٹی اور نیلی،پیلی ٹیکسی جیسے منصوبوں کی آڑ میں غریب عوام کی آنکھوں
میں دھول جھونکتے ہیں اور یوں اپنے اقتدار کو دوام بخشتے ہیں۔
الیکشن کے دنوں میں ان سیاسی شعبدہ بازوں کے نعرے،وعدے اور دعوے اس قدر
پرکشش اور دلفریب ہوتے ہیں کہ یوں گمان ہوتا ہے کہ یہ اقتدار میں آتے ہی
دودھ کی نہریں بہا دیں گے۔اور پھرتقریروں میں ان کے خیالات،نظریات اور
افکار سے جانکاری حاصل کر کے عوام کو یہ فیصلہ کرنے میں دیر نہیں لگتی کہ
فہم و فراست،دوراندیشی اور مستقبل بینی جیسے اوصاف صرف ان ہی کے گھر کی
پیداوار ہیں لیکن جونہی یہ طوطا چشم بر سر اقتدار آتے ہیں ان کے تیور اور
مزاج یکسر بدل جاتے ہیں۔اپنے وعدوں اور دعووں سے یوں منہ پھیر لیتے ہیں
جیسے ان سے یہ امر کبھی سرزد ہوا ہی نہ تھا۔اتنی بے شرمی اور دھٹائی سے
اپنی کہی ہوئی باتوں سے مکرتے ہیں کہ شرم و حیا کا شائبہ تک دکھائی نہیں
دیتا۔مثال کے طور پر الیکشن ۲۰۱۳ سے پہلے اور بعد کے منظر کو ہی دیکھ
لیجیے۔سیاسی جلسوں کی برسات میں تمام ہی سیاستدان ہتھیلی پر سرسوں جماتے
دکھائی دئیے۔کوئی چھ ماہ میں لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے دعوے کر رہا تھا تو کوئی
تین مہینوں میں نیا پاکستان تخلیق کرنے کے خواب دکھا رہا تھا اور الیکشن کے
بعد، کوئی دھاندلی کا شور مچا رہا ہے،کوئی اپنی کرپشن چھپانے اور احتساب سے
بچنے کی کوششوں میں ہے۔کوئی بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ کے جرائم میں ملوث
ہونے کی بنا پر زیر عتاب ہے۔کوئی مذہب کے نام پر سیا ست کی دوکان چمکانے
میں مشغول ہے تو کوئی اپنے رشتہ داروں کی اک لمبی قطار کو پر کشش عہدوں پر
فائز کرنے کا خواہشمند دکھائی دیتا ہے۔
دوسری جانب ان سیاسی مگرمچھوں کی یہ بھی روایت ہے کہ الیکشن کے انعقاد سے
کچھ روز پہلے ترقیاتی کاموں کے نام پر قومی خزانے کا منہ کھول دیتے ہیں اور
پھر نام نہاد عوامی خدمت گار اس رقم کا یوں آزادانہ اور بے دریغ استعمال
کرتے ہیں جیسے یہ رقم ان کے باپ دادا کی میراث ہو۔ووٹ خریدنے،سیاسی مخالف
کو دبانے اور ووٹروں سپورٹروں کو نوازنے کے لئے قومی خزانے کا یہ سرمایہ ہی
کام آتا ہے۔یہ سلسلہ کئی دہائیوں سے جاری ہے اور نہ جانے کب تک جاری رہے
گا۔کرپشن کی داستانوں میں یہ بھی اپنی طرز کی انوکھی اور عجب داستان کرپشن
ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ سیاست دانوں کو عوام سے اور عوام کے مفاد سے کوئی غرض
نہیں۔یہ سب اپنے اپنے مفادات کی نگہداشت میں مصروف عمل ہیں اور دلچسپ امر
یہ ہے کہ سادہ لوح عوام بار بار ان سیاسی مداریوں کے ہاتھوں تماشہ بننے کے
باوجود ان ہی عطار کے لونڈوں سے دوا لینے کے خواہش مند ہیں جو ان کے مسائل
سے بے خبر اور لاپرواہ ہیں۔غور طلب پہلو یہ ہے کہ عوام کب تک ان
ڈاکووں،لٹیروں اور جھوٹے خدمت گاروں کے ہاتھوں یر غمال بنے رہیں گے۔اگر
عوام حقیقی معنوں میں وطن عزیز کی ترقی و خوشحالی کے طلبگار ہیں تو انہیں
اپنی سوچ کا رخ بدلنا ہو گااور جھوٹی خدمت کا لبادہ اوڑھ کر سادہ لوگوں کو
بیوقوف بنانے والوں پر گہری نظر رکھنی ہو گی اوربالخصوص ووٹ کی طاقت کا
استعمال خوب سوچ سمجھ کر کرنا ہو گا ۔ |
|