کچھ دنوں سے ود ہولڈنگ ٹیکس کے نفاذ کا
معاملہ اخبارات کی شہ سرخیوں کی صورت آنکھوں کی زینت بنا رہا۔ ملک بھر سے
تاجر برادری حکومتی اقدام پر سراپا احتجاج تھی اور ملک کے طول وعرض سے اس
ٹیکس کے نفاذ کے خلاف آواز اٹھائی جا رہی تھی۔ حکومتی نمائندے تاجروں سے
مذاکرات کے لیے بے چین تھے اور دونوں فریق اپنے اپنے نقطہ نظر کی تشریح میں
مصروف عمل تھے۔ یہ خبریں پڑھتے وقت میرے ذہن کے کینوس پر ایک تیسرے فریق کی
تصویر ابھر آئی کہ کب حکومت اس کی پرسان حال ہو گی۔کب اس کے نخرے بھی
برداشت کرے گی۔کب اسے بھی منائے گی۔یہ تیسرا فریق ہے ارض وطن کا غریب طبقہ۔
یہ طبقہ ایسا بے ضرر طبقہ ہے جو اول تو کسی مسلہ پراحتجاج کی زحمت گوارا
نہیں کرتا اور اگر بادل نخواستہ کبھی اسے یہ راستہ اختیار کرنا بھی پڑے تو
ان کا یہ رونا دھونا اقتدار کے ایوانوں میں درخوراعتنا نہیں سمجھا جاتااور
ان کی آواز راستے ہی میں دم توڑ جاتی ہے۔
سوچتا ہوں غربت و افلاس بھی کس بلا کا نام ہے۔کئی گوہر نایاب اس کے بوجھ
تلے دب گئے۔معاشی ناہمواری کی تلخ داستان میں ایک طرف تو چمکتی دمکتی
گاڑیوں کا سیلاب ہے جوسڑکوں اور شاہراہوں پر رواں دواں ہے اور محل نما
کوٹھیاں اور آسمان کو چھوتے پلازے اپنے مالکان کی قدر و منزلت میں اضافے کا
باعث ہیں اور دوسری جانب غریب کی اولاد ان کوٹھیوں اور پلازوں کے باہر کچرے
کے ڈھیر پر اپنا رزق تلاش کرتے دکھائی دیتی ہے۔ایک طرف عیش و عشرت کے رسیا
ہیں اور دوسری جانب غربت محو رقصاں ہےاور متوسط طبقہ ان دونوں کے بیچ
علیحدہ بے چین و بےقرار ہے۔
مراعات یافتہ طبقہ اس قدر بے حسی اور خود غرضی کا شکار ہے کہ وہ اس احساس و
کرب سے ہی نا آشنا ہے کہ جب کوئی غریب اپنے بچے کو من پسند سکول میں تعلیم
نہیں دلوا پاتا تو اس کے دل پر کیا قیامت ٹوٹتی ہے۔جب کوئی غریب مشہور
ریسٹورنٹ میں اپنے مہمان کو کھانا نہیں کھلا سکتا تو جذبات کیسے مجروح ہوتے
ہیں۔جب کوئی غریب اپنی بیوی کی سالگرہ والے دن بھی اس کے لیے تحفہ نہیں
خرید سکتا تو وہ کیسے انگاروں پر لوٹتا ہے۔جب کوئی غریب بھوک کے ہاتھوں
مجبور ہو کے اپنے لخت جگر پر برائے فروخت کا لیبل لگاتا ہے تو اس کے سینے
میں کیسا درد اٹھتا ہے۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔
کتنا لاچار بنا دیتی ہے یہ غربت
انسان کو حیوان بنا دیتی ہے یہ غربت
عقل مند کو بے عقل بنا دیتی ہے یہ غربت
خوبصورت کو بد صورت بنا دیتی ہے یہ غربت
بے پناہ گھروں کو تباہ کر دیتی ہے یہ غربت
غربت کے پس منظر کا جائزہ لیاجائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ
غربت کا اس قدر پھیلاو لالچی اور حریص حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں اور بے
عملی کا شاخسانہ ہے جو اقتدار کے ایوانوں میں براجمان ہو کر اپنے مفادات کی
فصل کو سیراب کرتے رہے اور عیاشیوں میں مگن رہے ۔ان کی ہر پالیسی کا رخ
اشرافیہ کے مفادات کی نگہبانی تھا یہی وجہ ہے کہ غریب کو تو جسم و جاں کا
رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہو گیا ہے اور مراعات یافتہ طبقہ دولت کے ڈھیر جمع
کر کے نسل در نسل عیش و نشاط کے مزے لوٹ رہا ہے۔یہی سبب ہے جس نے غربت کی
کوکھ میں جنم لینے والے نوجوان کے ذہن پر کاری ضرب لگائی ہے اور وہ بڑی
تیزی سے جرائم کی طرف راغب ہو رہا ہے اور جرائم پیشہ گروہ ان کی اس کمزوری
سے خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
کہتے ہیں کسی بھی فرد یا قوم کی حالت بدلنے کا بنیادی نکتہ تعلیم ہے لیکن
ان ظالموں کے تخلیق کردہ نا انصافی پر مبنی نظام نے غریب کو حصول تعلیم سے
اتنا دور کر دیا ہے کہ وہ اپنے بچے کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کا خواب
تک نہیں دیکھ سکتا ۔یہی سبب ہے کہ غریب جہالت کی دلدل میں دھنس کر ظالم اور
غریب کش اشرافیہ کے چنگل میں پھنس کر غلام ابن غلام بن کر دست بستہ ان کی
خدمت میں حاضر ہے۔
|