پیسہ' طاقت' ہتھیار اور اختیار
بولتے نہیں' سر چڑھ کر' گرجتے اور برستے ہیں۔ وہ زندگی اپنے طور اور اپنی
مرضی سے بسر کرتے ہیں۔ کون جیتا اور کون مرتا ہے' انہیں اس سے کوئی غرض
نہیں ہوتی۔ انہیں کبھی اور کسی سطح پر' یہ امر خوش نہیں آتا کہ ان کے سوا'
کوئی اور بھی ہے۔ زندگی کی پگ ڈنڈی پر چلتے لوگ' لوگ نہیں' محض غلاظت بھرے
کیڑے لگتے ہیں۔ ان کے لیے' ان کے پاس حقارت اور نفرت کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔
وہ انہیں اپنے گراں قیمت جوتے سے' ٹھوکر لگانا بھی پسند نہیں کرتے' مبادہ
آلودہ ہو جائیں گے۔ ایسے کام کے لیے' ان کے پاس' چمچوں کڑچھوں کی کمی نہیں
ہوتی۔
پیسہ' طاقت' ہتھیار اور اختیار خود کو اٹل اور مکمل سمجھتے ہیں۔ ان کے
نزدیک' ان کا کیا اور کہا' ہر کجی سے بالاتر ہے۔ اس پر انگلی رکھنا' موت
اور دکھ درد کو ماسی کہنے کے مترداف ہوتا ہے۔ چوری خور مورکھ اور قصیدہ
گزار شاعر' اس سب کو' اقوال و افعال زریں قرار دے دیتا ہے۔
جہاں کہیں یہ باطورگیسٹ' باطلاع یا بلا اطلاع ورد ہوتے ہیں' پروٹوکول'
حفاظت اور دوسرے معاملات کے حوالہ سے' وختہ پڑ جاتا ہے۔ لوگوں کو سمجھ نہیں
آتا کہ انہیں بٹھائیں کہاں' ڈکارنے اور پھاڑنے کے لیے 'کیا پیش کریں۔ اس
ذیل میں' جملہ چمچگان اپنے پیچھے کا پورا زور لگا دیتے ہیں۔ یہ سب کرنے کے
باوجود' انسان ہونے کے ناتے' کہیں ناکہیں کوئی کمی کوتاہی رہ ہی جاتی ہے۔
سارے کیتے کترائے پر' پانی پھر جاتا ہے۔ کسی چہاڑ چھنب کے باوجود' انہیں
غصہ نہیں آتا۔ غصہ کرنے کا' انہیں حق بھی حاصل نہیں ہوتا۔ وہ کسی اگلی بار'
اس کمی کوتاہی کو دور کرنے کا' اپنی ذات سے عہد باندھ لیتے ہیں۔
پیسہ' طاقت' ہتھیار اور اختیار کی معمولی خوشی پر' رو بہ رو ہی نہیں' دور
دراز علاقوں میں رہتے ہوئے لوگ' دوہائی کا جشن مناتے ہیں۔ ظاہری اور باطنی
سطح پر' وہ خالص اور اصلی ہی دکھائی پڑتا ہے۔ درحقیقت انہیں معلوم ہوتا ہے'
کہ مخبر کی آنکھیں کھلی اور معاملہ شناس ہوتی ہیں۔ دوسرا مقامی حرف گر' منٹ
منٹ کی خبریں' قرطاس ہنر پر رقم کر رہا ہوتا ہے۔ وہ اس ساری عمومی کوشش کو'
حتی المقدور اپنی کوشش اور خوشی ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ زیادہ تر
کامیاب بھی ٹھہرتا ہے اور آوٹ آف ٹرن ترقی بھی حاصل کر لیتا' ورنہ گڈ بک
میں اس کا نام نامی اسم گرامی' زعفرانی روشنائی سے' بلاتکلف درج ہو جاتا ہے
اور کسی دوسرے وقت' پچھلے کیے کا بھی انعام گرہ لگتا ہے۔
معمولی ناسازی طبع' یا گماشتے جی حضوری میں' اپنے کمال کا شیرہ ڈال کر' شفا
گاہوں کے درودیوار اور ان کے اکڑوند باسی' ہلا کر رکھ دیتے ہیں۔ گویا یہ
پہلی ترجیح کلاس ایمرجنسی ہوتی ہے۔ اس ڈرامے کے دورانیے میں' کتنے بی اور
تھرڈ کلاس' ایمرجنسی میں پڑے لوگ' جان سے جاتے ہیں یا جان جانے کی اسٹیج پر
پہنچ جاتے ہیں. یہ سب' کسی کھاتے پر نہیں چڑھتا' ہاں یہ پہلی ترجیح پلس
ایمرجنسی' یادوں کے کھاتے پر چڑھ جاتی ہے۔
میں نے پیسہ' طاقت' ہتھیار اور اختیارکو' کوئی شخصی نام نہیں دیا' کیوں کہ
یہ خود کو فرعون کی پیروی میں خدا نہیں کہتے' حالاں کہ ان کا کہنا اور
کرنا' فرعون کا سا ہی ہوتا ہے۔ انسان اس لیے نہیں کہا جا سکتا' کہ وہ
انسانوں کو کیڑے مکوڑے سمجھتے ہیں۔ گزشتہ سے عبرت لینا' ان کے مزاج میں
داخل نہیں ہوتا۔ فنا کا فلسفہ اور ان گنت مثالیں' ان کے مزاجی نالج میں
داخل نہیں ہوتیں۔ اگر کوئی' یاد دلانے کی کوشش میں' سدھار اور ان ہی کی
خیرخواہی کا جتن کرتا ہے' تو جان سے جاتا ہے۔ گویا فنا ان کے لیے نہیں ہے
اور مالک کے دربار' ان کی حضوری کا کوئی تعلق واسطہ نہیں۔ ہر کوئی ان کے
حضور حاضری کا پابند ہے۔ زندگی کے آخری موڑ پر بھی' دنیا سے جانا یاد میں
نہیں آتا اور یہ گمان سے نکل نہیں پاتا کہ میں کے لیے فنا ہے اور بقا تو
صرف اورصرف الله ہی کی ذات کو ہے اور وہ ہی باقی رہنے کے لیے ہے۔
عین قانون قدرت کے مطابق' وہ فنا سے گزرتے ہیں' تو فقط چوری خور مورکھ کا
لکھا باقی رہ جاتا ہے۔ اکثر اوقات وہ لکھا' متنازعہ ہو جاتا اور عمومی
حلقوں کی تقسیم کا باعث بنتا ہے' جو آتے یگوں میں' آتی نسلوں کے لیے نقصان
کا باعث بنتا ہے۔ یہ چاروں آواگونی ہیں' نئے انداز اور نئے روپ کے ساتھ
نمودار ہو جاتی ہیں' تاہم چلن اور اطوار میں تبدیلی نہیں آتی۔ حجاج سفاک
تھا' لیکن چرچل اس سے کسی طرح پیچھے نہ تھا۔ مسڑ چہاڑی کا ذکر امریکی ہونے
کے باعث' نہیں کیا جا سکتا۔ جب کوئی نئی قوم' ہیرو کے مرتبے پر فائز ہو گی'
تو گزرا کل آتے لوگوں کے لیے' محض داستان ہو کر رہ جائے گا۔ ہوسکتا ہے' نئے
کے چکر میں پرانے کو بھول جائیں' تاہم مورکھ کی لکھتوں کے باعث' تنازعہ کا
دروازہ ضرور کھل جائے گا۔۔ ناظر مٹی میں مل کر مٹی ہو چکے ہوں گے۔ کسی
عارضی اور مصنوعی و جعلی قوت کو' بقا نہیں۔ قارون اس لیے یاد میں ہے' کہ اس
کا پالا' الله کے منتخب شخص کے ساتھ تھا۔
طاقت کی بات اپنی جگہ' اس کے خصوصی بلکہ عمومی کنکبوتی بھی' انہیں وی آئی
پیز کہا جاتا ہے' مذکوران سے کہیں زیادہ زہریلے ہوتے ہیں۔ ان کا ڈسا پانی
بھی مانگ نہیں پاتا۔ بجلی پانی گیس کے بل کیا ہوتے ہیں' سے ناآشنا ہوتے
ہیں۔ عید پر قربانی کے بکرے' تحفہ میں مل جاتے ہیں۔ ہر چھوٹے موٹے تہوار
پر' سو طرح کے مہنگے تحفے بلا طلب کیے' ان کی دہلیز چڑھنے کا اعزاز حاصل
کرتے ہیں۔ تہوار چڑھانے والا' اس میں فخر محسوس کرتا ہے اور خود کو'
کنکبوتی کا اپنا آدمی سمجھنے لگتا ہے۔ یہ سوچ اسے' انھی پانے پر مجبور کر
دیتی ہے۔
جنسی تسکین کے لیے' انہیں لڑکی پٹانے کے لیے' کسی طرح کا' ویل نہیں کرنا
پڑتا اور اس ذیل میں جیب ہلکی کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ بستر نواز' انہیں
ہر قسم کی محتاجی سے' بچائے رکھتے ہیں۔ یہ ہی نہیں' ورائٹی صاحب کے مزاج کے
مطابق' بدلتے رہتے ہیں۔
لفافہ کلچر' ان ہی کی دین ہے۔ لفافہ اپنی کارگزاری کا جواب نہیں رکھتا۔ یہ
لفافے ہی کا کمال ہے' کہ ڈی میرٹی کے جملہ داغ دھبے' مٹا دیتا ہے۔ میرٹ کو
ڈی میرٹ کرنے کے' سارے گن' اس کے گرد رقص کرتے ہیں۔ لفافہ بردار کو اگر
مسکراہٹ میسر آ جائے' تو گویا اس کے بھنے اگ پڑھتے ہیں' ورنہ سپلیمنٹری
لفافہ پیش کرنے کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔
منشی گاہوں میں بھی' کنکبوتی موجود ہوتے ہیں. یہ بڑی' بلکہ بہت بڑی شے ہوتے
ہیں۔ یہ تو یہ' ان کے معاون پی یو سی طراز' بڑے بلند مرتبے پر فائز ہوتے
ہیں۔ یس کو نو اور نو کو یس میں بدلنے کے ہر گر' سے واقف ہوتے ہیں۔ گویا
آسمان سے ٹاکی اتارنا اور لگانا' ان پر ختم ہے۔
خواتین اپنے آپ میں' بڑی شے' بنتی ہیں لیکن نخرہ بازی میں' ان کے عشر عشیر
بھی نہیں ہوتیں۔ ہوٹل کے کھانے' انہیں اور ان کی گھر والیوں کو' بڑے ہی خوش
آتے ہیں۔ گرہ خود سے کھانا' رزق حرام کے زمرے میں آتا ہے۔ سامیاں اپنے اپنے
علاقے کی سوغات' لانا نہیں بھولتیں۔ میں میں کرنے کے ساتھ ساتھ کھانے کا
اہتمام بھی کرتی ہیں۔ ان کے گھر والوں کے لیے' الگ سے شاپر تیار کرواتی
ہیں۔ گویا وی آئی پیز کے ماحت ہونے کے سبب' داسوں گھی میں اور سر کڑاہے میں
رہتا ہے۔ گھر کی کسی تلخی کا غصہ نکالنے کے لیے' سامیاں قدم بوس ہوتی رہتی
ہیں۔
کہا جاتا ہے' زندگی کرنا آسان نہیں' ان طبقوں میں' اس مقولے کا دور تک اتہ
پتا نہیں ملتا۔ ہاں آخرالذکر طبقے پر' بعد از ریٹائرمنٹ اطلاق کیا جا سکتا
ہے۔ یہ طبقے' چوں کہ تعدادی حوالہ سے' زیادہ نہیں ہیں' لہذا تعدادی حوالہ
سے زیادہ پر' اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ وہ ناصرف غیر محفوظ ہوتے ہیں' بل کہ ان
گنت معاشی معاشرتی اور دفتری مسائل میں' گھرے ہوتے ہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ
دہلیز کے اندر' چھے ستمبر کی کیفیت طاری رہتی ہے۔ نہ جی سکتے ہیں اور زندگی
جیسی بھی سہی' انہیں مرنے نہیں دیتی۔ گویا
نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن
میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حوالہ سے بات نہیں کر رہا۔ یہاں مسلمان
اقامت پذیر ہیں۔ یہ ملک اپنی بنیادوں میں پروفسر اصغر سودائی کا یہ نعرہ
رکھتا ہے۔
پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا الله
یہاں کی طاقتیں اور ان کے کنکبوتی بھی بااصول اور مجوزہ شرع پر کار بند
ہیں۔
اصولی طور پر کچھ حاصل کرنے کے لیے کچھ دینا تو پڑتا ہی ہے۔
دراصل میں ہی بےاصولا تھا' جو بلاچہڑے' اپنے ایم فل الاونس کی حصولی کا
1997 سے منتظر رہا۔ بعد از ریٹائرمنٹ بھی درخواستیں گزارتا رہا۔ میں خواہش
مند تھا' کہ اس مقدس بارگاہ کا اعتراض کردہ خط ہی میسر آ جاتا' تا کہ تبرکا
تعویز بنا کر' گلے میں ڈال لیتا۔ بلاشبہ وہاں کی حرف کاری' میرے لیے اعزاز
خسروی سے' کسی طرح کم نہ ہوتی۔ میں اپنی درخواست بازی پر نہایت شرمندہ ہوں۔
ویسے بےلیے' یہ دے بھی دیا جاتا' تو حاتم کی روح اس لطف و عطا پر' شرمندہ و
نادم ہوتی۔ میرا یہ بقایا' ان کے پوٹیکدے پر مہینے میں اٹھنے والے خرچے کا'
عشر عشیر بھی نہ ہوتا۔ |