اورنگزیب ایک ہندو مورخ کی نظرسے
(Shamim Iqbal Khan, India)
بھارت میں خاکی چنڈی والوں نے سفید
ٹوپی والوں کا اپنے طور پر جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف زہر
اگلنے میں ہر’ بھگوا رنگی‘ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں بے قرار نظر آتا
ہے۔اور جب وہ مسلمانوں کے خلاف کچھ اُگل دیتا ہے تو اُسے اُسی طرح سکون
حاصل ہوتا ہوگا جیسے درد زِہ میں مبتلاعورت کو ولادت کے بعدسکون حاصل ہوتا
ہے۔ آج کی بھگواسوچ کے ساتھ اورنگ زیب عالمگیر پر بھی جھوٹھے الزامات لگا
کر اپنے کو سچّاہندو ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ لگتا ہے اورنگ زیب کے وقت
میں سچّے ہندو تھے ہی نہیں ۔بلکہ سچّائی تو یہ ہے کہ اس وقت سچے ہندو ہی
تھے اسی لیے عالمگیر کے دربار میں، پچھلے درباروں کے مقابلہ میں ، سب سے
زیادہ ہندو تھے۔اورنگ زیب کے زمانے میں جتنا بڑابھارت تھا، سمراٹ اشوک کا
بھارت بھی بمقابلہ اورنگ زیب کے بھارت کے بونا تھا۔ایسا اُس وقت کے سچے
ہندوؤں کی بدولت ہی ہوا تھا۔
بہر حال’’اورنگ زیب۔۔ایک نیا درشٹی کونڑ‘‘ ہندی میں لکھی گئی ایک کتاب ہے
جس کے مصنف’ڈاکٹر اوم پرکاش پرساد‘ شعبہ تاریخ، پٹنہ یونیورسٹی، پٹنہ ، ہیں،
یہ تم جیسے نہیں ایک سچّے ہندو ہیں۔ انھوں نے اورنگ زیب کے بارے میں جو
لکھا ہے ، پڑھو تو شاید بھگوے کاگاڑھا رنگ کچھ ہلکا پڑے۔(حالانکہ یہ ممکن
نہیں ہے)۔ فی الحال میں اس کتاب پر لکھے گئے پیش لفظ میں مصنف کا ’دولفظ‘
اور مترجم ’فیضان رشیدصاحب‘ کا ’عرض مترجم‘ آپ کے موقر اخبار کے قاری کے
لیے پیش ہے جو پوری کتاب کا نچوڑ ہے۔
’عرضِ مترجم‘ میں’فیضان رشید صاحب لکھتے ہیں:
’’تاریخ کے مظلوم اکابر کا مطالعہ جب گہرائی اور جذباتیت سے الگ ہو کر کیا
جاتا ہے تو بے ساختہ انگریزی کا یہ مقولہ یاد آ جاتا ہے(مقولہ کچھ تصرف کے
ساتھ):
"Most of events are not true in history except names years and dates,
and most events are true in stories except names, years and dates."
ترجمہ: ’’تاریخ میں بیشتر واقعات سچّے نہیں ہوتے سوائے ناموں، سالوں اور
تاریخوں کے جبکہ کہانی میں بیشتر واقعات درست ہوتے ہیں سوائے ناموں ، سالوں
اور تاریخوں کے‘‘۔
مذکورہ بالا مظلوم شاہوں کو تذکرہ نویسوں نے اپنی ذہنی ساخت قومی عصبیت یا
ذاتی اور قومی مفادات کی روشنی میں پیش کیا۔ یا محض داستان سرائی کا شوق
پورا کیا۔اس کے بعد اُسی ذہنیت کے بعد میں آنیوالے ’دانشوروں‘ اور مورخین
نے اپنے’ پیشرورہبران‘ کی باتوں کو کافی نمک مرچ لگا کر اپنی دوکانداری
چمکائی۔ گویا’اپنے پہ اہل دہر کو قیاس کیا‘۔ ایسے میں پھر ایک دوسرے
انگریزی کا مقولہ کا ذکر بے محل نہ ہوگا:
"We see things as we are, not as they are"
ترجمہ: ’’چیزیں ہمیں ویسی ہی نظر آتی ہیں جیسے کہ ہم خود ہیں- نہ کہ جیسی
وہ بذات خود ہیں‘‘۔
اور ان’’ فنکار دانشوروں اور متعصب مورخوں کی کاریگری‘‘ کی قیمت آنے والی
نسلوں نے اپنے ذہنوں کو تنگ نظر بنا کے اور اپنے خون کو بہا کر ادا کی اور
کر رہے ہیں اور نہ جانے کب تک ادا کرتے رہیں گے۔
لیکن شر کی تاریکی خواہ کتنی ہی مہیب کیوں نہ ہو اس کی یہ مجال نہیں کہ خیر
کی حقیر ترین چنگاری کو دبا سکے۔اور ایسا ہی ہوتا رہا ہے کہ ایک طرف یہ ریا
کاردانشور مورخین زہر اور نفرت کو تخم ریزی کرتے رہے ، تو دوسری طرف کچھ
سعید روحیں حقائق کے سامنے لا کردودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر کے
انسانیت کی خدمت کرتی رہیں اور حتی الامکان نفرت کی دیواروں کو ڈھا کر محبت
اور بھائی چارہ کے راستے ہموار کرتی رہیں۔
ان نیک طینت مورخین کے قافلہ میں ڈاکٹر اوم پرکاش پرساد شعبہ تاریخ پٹنہ
یونیورسٹی بھی شامل ہو گئے ہیں۔ موصوف نے ہندوستانی تاریخ کی ایک مظلوم و
بد نام شخصیت اورنگ زیب عالم گیر کو انتہائی دیدہ ریزی اور مستند حوالوں کی
روشنی میں اپنی کتاب’’اورنگ زیب-ایک درشٹی کونڑ‘‘ میں پیش کر کے نہ صرف
اورنگ زیب پر معروضی مطالعہ کیا ہے بلکہ موجودہ اور آنے والی نسلوں کی
راستی کے رخ پر رہبری کی ہے۔
چونکہ یہ کتاب ہندی میں لکھی گئی ہے اس لیے اس کتاب سے صرف ہندی داں طبقہ
ہی فیض اٹھا سکتا ہے۔ کتاب کی افادیت اور جس خلوص نیت سے اور نیک مقصد کے
لیے لکھی گئی ہے، ان سب باتوں کا تقاضا تھا کہ اس کا ترجمہ ہندوستان کی سب
زبانوں میں کیا جائے۔ فی الحال اس کا اردو ترجمہ اردو قارئین کی خدمت میں
پیش ہے‘‘۔
مصنف کتاب ڈاکٹر اوم پرکاش پرساد کے ’دو لفظ‘:
’’ہندوستان کی تاریخ نویسی میں کچھ ایسی غلطیاں پائی جاتی ہیں جن کی وجہ سے
ہمیں کئی طرح کے اختلافات اور بیجاجانبداریاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ مثال کے
طور پراگر’ موریہ سمراٹ اشوک‘ کے بارے میں صرف اتنا ہی بتایا جائے کہ:
۱) اس نے گدّی حاصل کرنے کے لیے اپنے سو(۱۰۰) بھائیوں کو جان سے مار دیا۔
۲) جنگ کلنگ میں اُس نے ایک لاکھ لوگوں کو قتل کیا۔
۳) اس جنگ میں اس نے ڈیڑھ لاکھ لوگوں کو قید کیا۔
۴) وہ ایک کٹر مذہبی حکمراں تھا کیوں کہ اس نے بودھ دھرم کی تبلیغ اور
توسیع کے لیے نہ کہ صرف اپنے رشتے داروں کو مقبوضہ علاقوں کے مختلف گوشوں
میں بھیجا بلکہ اپنی حکومت کے افسران کو بھی اس کام میں لگا دیا اور مزید
یہ کہ سرکارمی خزانے کو استعمال کیا۔
۵) اس کی مذہبی پالیسی نے برہمنوں کو کافی دکھ پہنچایا۔
تو کوئی بھی سادہ لوح قاری لازمی طور پر اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ اشوک ایک
برا اور ظالم حکمراں تھا۔ اور ہندوستان کی تاریخ میں کوئی راجہ، شہنشاہ،
سلطان یا بادشاہ ایسا نہیں ملتا کہ جس نے اشوک کی طرح اتنے بڑے پیمانے پر
قتل عام کیا ہو، دشمنوں کو قیدی بنایا ہو اور اپنے ذاتی مذہب کے لیے سرکاری
خزانے کا استعمال کیا ہو۔
لیکن تاریخ میں اشوک کے بارے میں متعدِد اچھے اور رفاہی کاموں کا تذکرہ
تاریخی حوالوں سے کیا گیا ہے جس کی بنیاد پر ایک عظیم شہنشاہ ہمیں اس کو
ماننا ہی پڑیگا۔
لیکن دو عظیم شخصیتوں یعنی’ محمد بن تغلق‘ اور’ اورنگ زیب ‘کے بارے میں ہم
دیکھتے ہیں کہ ان دونوں سلطان اور بادشاہ کے کافی اہم کاموں کو نظر انداز
کرتے ہوئے تاریخ کی کتابوں میں انہیں اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ سلطان (محمد
بن تغلق) ایک پاگل حکمراں اور بادشاہ( اورنگ زیب) ایک کٹر اور ظالم مسلمان
کے روپ میں شناخت کیے جانے لگے۔جبکہ ان دونوں حکمرانوں کے عہد میں نہ اشوک
کی طرح قتل عام ہوا اور نہ لاتعداد دشمن قیدی بنائے گئے ، نا ہی مذہبی
تبلیغ کے لیے سرکاری خزانہ حکومت کی طاقت اور رشتہ داروں کا استعمال کیا
گیا محض اپنے ذاتی مذہب کو توسیع دینے کے خاطر۔
مذکورہ بالا عناصر کو ذہن میں رکھتے ہوئے عالم مورخوں کے لیے یہ بات بہت
اہم ہے کہ وہ جب محمد بن تغلق اور تاریخ اورنگ زیب کے بارے میں لکھیں تو یہ
حقیقت مدّ نظر رہنا چاہئے کہ وہ سمراٹ اشوک کی طرح صرف برا ہی نہ تھا بلکہ
اچھے کاموں کے لیے بھی پہچانا جائے۔ اورنگ زیب دوسرے حکمرانوں کی طرح پہلے
ایک بادشاہ تھا پھر کسی مذہب کو ماننے والا کامیاب حکمرانی کے لیے اس نے
مختلف تجربات کیے جن کے اچھے برے اثرات ہندو اور مسلمانوں دونوں پر پڑے۔
اورنگ زیب کے خلاف سب سے زیادہ متعصبانہ روّیہ انگریزی عہد کے مورخوں نے
اپنایا۔’ایلیٹ اور ڈاوسن‘ نامی دو انگریز مورخوں نے اپنی کتابوں میں مسلم
سیاحوں کے سفر ناموں اور مسلم مورخوں کی لکھی ہوئی کتابوں کا انگریزی میں
ترجمہ کیا۔ اپنے ترجمہ میں ان مورخوں نے خاص طور سے اس بات کا دھیان رکھا
کہ وہی باتیں انگریزی میں ترجمہ کی جائیں جن سے ہندوؤں اور مسلمانوں کے
درمیان معاشرتی، معاشی، سیاسی اور خاص طور سے مذہبی زاویہ نظر سے اختلاف
پیدا ہوں۔ ان دونوں کے درمیان بھید بھاؤ بڑھتا رہے۔ انگریزوں نے اپنی عقل
کے بل پر دنیا کے بیشتر علاقوں پر قبضہ کیا اور ہمیشہ’ پھوٹ ڈالو اور حکومت
کرو‘ کی پالیسی پر یقین کیا۔ انگریزوں کی اس پالیسی کا ’ایلیٹ اور ڈاؤسن‘
کی تحریروں پر کافی گہرا اثر پڑا۔دوسرے مسلم حکمرانوں کی بات اگر یہاں نہ
بھی کریں اور اورنگ زیب پر دھیان دیں تو بھی ہم دیکھتے ہیں کہ اُسے مغلیہ
عہد کا سب سے خراب بادشاہ ثابت کرنے کے لیے انھوں نے صرف اورنگ زیب کے اچھے
کاموں کو کوئی مقام نہیں دیا بلکہ اس کی شخصیت میں داغ لگانے کے لیے غلط
اور جھوٹی باتوں کو بنیاد بنا کرتاریخ کے ساتھ نا انصافی کی۔
دوسری کتاب مشہور تاریخ داں جادو سرکار(سر جادو ناتھ سرکار) کی لکھی ہوئی
ہندی اور انگرریزی زبانوں میں موجود ہے۔ ویسے ’سر‘ کا خطاب انگریزوں نے
زیادہ تر ایسے ہی لوگوں کو دیا جنھوں نے انگریزوں کے خیالات و بہبودی کا
خیر مقدم دل کھول کر کیا۔جادو ناتھ سر کار کی کتاب پڑھنے پر ہمیں بڑی دلچسپ
باتیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ وہ یہ ہیں کہ سرکار صاحب کوئی ایسا قدم اٹھانے
سے باز نہیں آتے ہیں ،محض یہ ثابت کرنے کے لیے کہ اورنگ زیب مغلیہ عہد کا
بد ترین بادشاہ تھا، جبکہ ہمیں ان ہی کتابوں میں اورنگ زیب سے متعلق کافی
اہم باتیں ایسی بھی دیکھنے کو ملتی ہیں جن پر غور کرنے سے ہم آسانی سے اس
نتیجہ پر پہنچ سکتے ہیں کہ وہ اتنا کٹّر، ظالم اور متعصب نہیں تھا کہ جتنا
بتایا گیا ہے۔ اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے اگر ہم سرکار صاحب کی کتاب میں
شائع اورنگ زیب کے ’’فرمانوں‘‘ کا مطالعہ کریں تو بات کافی حد تک سمجھ میں
آسکتی ہے۔
آشر وادی لال، ایشوری پرشاد، شری رام شرما،آر․سی․مجمدار اور وی ․ایس․اسمتھ
وغیرہ جیسے مورّخوں نے بھی وسطی عہد پر کتابیں لکھی ہیں لیکن اورنگ زیب
پرلکھتے وقت ان مورخوں نے بھی اپنے ’’جانبدارانہ‘‘ رویہ کا اظہار جانے یا
انجانے میں کچھ اس انداز سے کیا کہ پڑھنے والے نے اُسے کٹّر مسلمان اور
ظالم بادشاہ ہی سمجھا۔لیکن ۱۹۶۰ء کے آس پاس ہمیں کچھ ایسے غیر جانبدار اور
صاف ذہن مورخوں کی لکھی ہوئی تحریریں اور کتابیں ملتی ہیں جن میں اورنگ زیب
کے بارے میں کافی غیر جانبدارانہ باتوں کا علم ہوتا ہے۔جن میں عرفان
حبیب،ایس․ نورالحسن، ہر بنس مکھیا، اطہر علی اور ستیش چندر وغیرہ کے نام
کافی اہم ہیں۔ عرفان حبیب نے اپنی کتاب اور دوسری سلجھی ہوئی تحریروں کے
ذریعہ کچھ ایسے نکات اجاگر کیے ہیں جن کی بنیاد پر صاف ذہن لوگوں کی نہ صرف
ہمدردیاں اورنگ زیب کے ساتھ ہوئیں بلکہ جادو ناتھ سرکار اور دوسرے مورخین
کے تحریروں کی کمزوریاں بھی اُبھر کر سامنے آنے لگیں۔
ہر بنس مکھیا اپنی سلجھی ہوئی بے لاگ تحریروں میں بتاتے ہیں کہ
آر․سی․مجمدار اورنگ زیب کے ذریعہ توڑے ہوئے مندروں کا ذکر تو بڑے زور شور
سے کرتے ہیں لیکن ان حقائق پر چپ سادھ لیتے ہیں کہ اُسی باد شاہ نے برہمنوں
اور مندروں کو دان دیا جن کی مختصرتفصیل ڈاکٹر کے․کے․دت کے ذریعہ لکھی
گئی’’سَم فرمانس، سَنَدس اینڈ پَرواناز‘‘ نامی تحریر میں پائی جاتی ہے۔
مکھیا صاحب کا یہ عقیدہ ہے کہ حکمرانوں کے ذریعہ توڑے گئے مندروں کے تذکرہ
کو تاریخ میں مقام ضرور دیا جائے لیکن صرف مسلمانوں کے بارے میں ہی نہ لکھا
جائے بلکہ ان ہندو حکمرانوں کے بارے میں بھی لکھا جائے جنھوں نے ہندو
مندروں کو برباد کیا۔ ان کا خیال ہے کہ اہل اور قابلِ تعریف وہی مورخ ہے جو
کہ قدیم زمانے کے تذکرات میں ایک منصف مزاج جج کی طرح راست باز وغیر
جانبدار رہے۔
ایک طرف سر جادو ناتھ سرکار اور انگریز مورخین بالخصوص ایلیٹ ، ڈاؤسن اور
وی․ اے․ اسمتھ تاریخ کے معنی راجہ رانی، وزیر ، درباری ، اُمراء، ناچنے
گانے والیاں اور راج دربار سے متعلق ’تبرکات‘ سے لیتے ہیں۔ وہاں عرفان حبیب
صاحب نے تاریخ کا مطلب تکنیکی ترقی، زراعت، صنعت و حرفت اور تجارت میں
تاریخی تبدیلیوں کو خصوصی بنیاد بتایا ہے۔انھیں بنیادوں کے بل پر عرفان
صاحب نے اورنگ زیبی عہد کی خصوصیات کا اگلے اور پچھلے حکمرانوں کے ادوارسے
مقابلہ کرتے ہوئے اورنگ زیب کی خوبیوں کو ثبوت کے ساتھ اجاگر کیا ہے۔
اطہر علی نے ہندوؤں کے سب سے بڑے حمایتی کہلائے جانے والے بادشاہ اکبر اور
ہندوؤں کے سب سے بڑے مبینہ دشمن اورنگ زیب کے عہدوں کے عہدے داران حکومت کی
تفصیلات کی تحقیق دستیاب شہادتوں کی بنا پر کی ہے اور یہ ثابت کرنے میں
کامیاب رہے ہیں کہ اکبر نے اپنے دوران حکومت میں سب سے زیادہ ہندوؤں کو
نہیں نوازا ہے۔اس نے حکومتی عہدوں پر اتنی تعداد میں ہندوؤں کا تقرر نہیں
کیا جتنی تعداد میں اورنگ زیب نے اپنے دور حکومت میں کیے۔
ایک تیسرے رخ کو اجاگر کرنے کا سہرا ’ستیش چند‘ کے سر جاتا ہے جنھوں نے
جزیہ ٹیکس پر ایک غیر جانبدارانہ و سلجھی ہوئی تحریر شائع کی ہے۔ اپنی کتاب
میں سب سے پہلے بہت سلیقہ اور ٹھوس ڈھنگ پر انھوں نے اورنگ زیب کا مطالعہ
کیا ہے اور ا سکی کمزوریاں اور خوبیاں بہت ہی سلجھے ہوئے اور متوازن انداز
میں پیش کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔
رومیلا تھاپر نے اپنی کتاب’مدھیہ کالین بھارت‘ میں انتہائی واضح اور ٹھوس
الفاظ میں سلطنت مغلیہ کے زوال کا باعث بجائے اورنگ زیب کے اس زمانے کے
سماجی اور اقتصادی حالات اور اورنگ زیب کے جا نشینوں کو مانا ہے۔
بپن چندنے اپنی کتاب ’مدھیہ کالین بھارت‘ کے پہلے باب میں مغلیہ سلطنت کے
زوال کا تجزیہ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ دنیامیں کسی عہد کے عروج و زوال کی
ذمہ داری ایک فرد پر ڈالنا اسی حالت میں سچ ہوگا جب کہ تاریخ کو ہم راجہ
رانی کی کہانی مان لیں۔
بی․این․پانڈے نے خدا بخش خطبات میں اس بات پر کافی زور دیا ہے کہ اب اورنگ
زیب کے بارے میں ان حقائق کو بھی روشنی میں لانا چاہئے جنھیں اب تک نظر
انداز کیاجاتا رہا ہے۔
اورنگ زیب کے ان پہلوؤں کا اجاگر کرنے میں ڈاکٹر بیدار صاحب ڈائرکٹر خدا
بخش لائبریری نے خاصا حصہ لیا ۔اور اپنا بیش قیمتی وقت اصلی مسوّدہ کو
پڑھنے میں دیا۔ان کے قیمتی مشوروں نے مجھے اس مشکل کام کی تکمیل میں کافی
ہمت افزائی کی۔ورنہ میں خود کو اس قابل نہیں سمجھتا۔ اس کے علاوہ میں ڈاکٹر
شمشاد حسین، ڈاکٹر جناردن پرشاد سنگھ، ڈاکٹرسمنت نیوگی اور دوسرے بزرگوں کا
بیحد شکرگزار ہوں جنھوں نے پہلی دسمبر۱۹۸۶ء کو خدا بخش لائبریری میں میرا
اورنگ زیب کے بارے میں خطبہ سماعت فرما کے میری ہمت بڑھائی۔ پٹنہ کالج اور
دوسرے کالجوں سے آئے ہوئے بیدارذہن اور تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے طلبا کا
میں دِل سے مشکور ہوں جنھوں نے ۹؍دسمبر ۱۹۸۶ء کو خدا بخش لائبریری میں
میرے اورنگ زیب کے بارے میں مقالہ کو انتہائی نظم و ضبط اور دلچسپی کے ساتھ
سنا۔ان طلبا کی تعداد تین چار سو کے قریب تھی۔
اس لکچر کے ہندی میں دو اڈیشن( ۱۹۸۷ اور ۱۹۸۹) شائع ہوچکے ہیں۔ مجھے خوشی
ہے کہ لائبریری اس کا اردو اڈیشن نکال رہا ہے۔‘‘
التماس: اگر کوئی صاحب خیراس کتاب کو جو محض ۶۸؍ صفحات پر مشتمل ہے، ہندی و
اردو میں، مفت تقسیم کے لیے شائع کرا دیں تو یہ ایک بہت اچھا کام ہوگا۔ اس
سے بہت لوگوں کی غلط فہمیاں دور ہو جائیں گی اور بہت لوگوں کی معلومات میں
اضافہ ہو جائے گا۔ |
|