چین بھارت تعلقات

بھارت اور چین کی کل آبادی دنیا کی ایک تہائی آبادی کے برابر ہے۔ دو ارب ساٹھ کروڑ آبادی کی حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوے چین کے وزیر اعظم لی کی یانگ نے ایک موقع پر کہا تھا کہ جب ہم بات کریں گے تو پوری دنیا سنے گی۔ چین کے صدر کا دورہ پاکستان اور بھارتی وزیراعظم کا دورہ چین خطے کی سیاست کو سمجھنے میں معاون ثابت ہو رہے ہیں۔ان دونوں دوروں کا ہمارے لیے حاصل مطالعہ یہ ہے کہ اب قوموں اور ممالک کی دوستی اوردشمنی کا معیار بدل گیا ہے اب دوستی اور دشمنی بھی تجارت دیکھ کر کی جاتی ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان دشمنی نے کبھی بھی تجارت کو راستہ نہیں دیا۔بھارت اور چین کے درمیان بھی کئی بڑے اور پیچیدہ مسائل ہیں۔لداخ ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے میں جموں و کشمیر کا ایک متنازع علاقہ ہے۔بیجنگ اور دہلی کے درمیان لداخ میں لائن آف ایکچول کنٹرول کا تنازعہ موجود ہے ۔ اس علاقے میں پیپلز لبریشن آرمی کے جوان کئی بارگھس آتے ہیں ،بھارتی حکام خاموشی سے اس دراندازی کو نظر انداز کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں ۔ایل اے سی اور دوسری تنازعات کو حل کرنے کے لیے دونوں طرف کے خصوصی نمائندوں کے مذاکرات کے اٹھارہ دور ہو چکے ہیں لیکن وہ کسی حل پر پہنچنے میں ناکام رہے اور اسی تنازع کی وجہ سے چین اور بھارت کے درمیان 1962 میں جنگ بھی ہوئی تھی۔اب حالات نیا رخ اختیار کر رہے ہیں ۔جاپان، فلپائن اور ویتنام سے سرحدوں کے اختلاف پر چین کی سخت گیر پالیسی کے برعکس بھارت کے ساتھ چین کا لہجہ نرم ہورہا ہے ۔اس لیے کہ اب ان مسائل اور کشیدگی پر تجارت حاوی ہو رہی ہے 2014 میں دونوں ممالک کے مابین ہونے والی تجارت کا حجم 71 ارب ڈالر تھا۔ جمعہ کے روزبھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے چینی کمپنیوں کے ساتھ 22 ارب ڈالر کے معاہدے کے موقع پر کہا کہ میں خود چینی سرمایہ کاری کی حفاظت کروں گا۔چین نے پاکستان چین اقتصادی راہداری منصوبے میں 46 ارب ڈالر خرچ کرنے کا معاہدہ کیا ہے اور ساتھ ہی اپنی تجارت کو مزید بڑھانے کے لیے بنگلہ دیش،چین،بھارت اور میانمار اقتصادی راہداری کا معاہدہ بھی کر لیا ہے ۔ بھارتی وزیر اعظم کے دورہ چین کے موقع پر میرے ساتھ پاکستانیوں اور کشمیریوں کی بڑی تعداد خوش ہو رہی تھی کہ چین کے سرکاری ٹی وی نے کشمیر اور اردناچل پردیش کو بھارت کا حصہ نہیں دکھایا۔اس طرح مسئلہ کشمیرپر پاکستان کے موقف کی حمایت کی گئی ہے کسی حد تک یہ بات درست ہے مگر چین کی پالیسی سے لگتا ہے کہ وہ اس طرح کے تنازعات اور مسائل پر اپنا موقف برقرار رکھتے ہوئے ساری محنت اقتصادی میدان میں کررہا ہے۔ اس پالیسی کے تحت بھارت جیسے ملک کے ساتھ معاملات آگے بڑھا رہا ہے۔ تجارتی پالیسی کے تحت ہی بین الاقوامی امور میں بھارت کی حمایت بھی کی جا رہی ہے۔ سمجھنے کی بات ہے کہ کشیدہ ماضی رکھنے والے چین اور بھارت کے مابین ایل اے سی یا سرحدی معاملات پر ہی اختلاف نہیں ، سب کچھ مختلف ہے دونوں ممالک کے سیاسی نظام بھی ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔پاکستان کے ساتھ چین کے اچھے تعلقات ، پاکستان میں سرمایہ کاری ، پاکستان کی دفاعی صنعت کی مدد پاکستان اور چین کی دوستی کو ظاہر کرتی ہے ۔ اس کے علاوہ تبت کی جلاوطن حکومت بھارت ہی میں قائم کی گئی تھی اور اس کے رہنما آج بھی بھارت میں مقیم ہیں جبکہ چین نوبل انعام یافتہ تبتی رہنما دلائی لاما کو علیحدگی پسند قرار دیتا ہے۔جبکہ دلائی لاما بھارت کی پناہ میں ہے ۔ان سب حقائق پر تجارتی حقیقت حاوی ہورہی ہے ۔ چین کے لیے بھارت جدید تکنیکی آلات کی منڈی ہے، جہاں جدید تیز رفتار ٹرینوں سے لے کر جوہری پاور پلانٹس تک کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف بھارت چاہتا ہے کہ چین صنعتی اور بنیادی ڈھانچے کے شعبوں میں سرمایہ کاری کرے۔ہمارے ہاں جو لوگ چین کے سرکاری ٹیلی ویژن سی سی ٹی وی کی طرف سے اروناچل پردیش اور کشمیر کے بغیر بھارتی نقشہ دکھانے پر خوش ہیں۔ ان کی اطلاع کے لیے مرض ہے اب حالات بدل رہے ہیں۔بھارتی اور چینی وزراء اعظم کی ملاقات کے بعد جاری مشترکہ بیان میں چین نے سلامتی کونسل کی مستقل نشست کے لیے بھارت کی حمایت کر دی ہے۔ ہم سلامتی کونسل پر بھارت کا حق اس لیے تسلیم نہیں کرتے کہ بھارت کشمیر کے سلسلے میں سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد کرانے سے انکاری ہے ۔چین سلامتی کونسل میں چین کی مستقل نشست کا حق اس لیے تسلیم کر رہا ہے کہ وہ چین کا تجارتی پارٹنر بن رہا ہے۔ مودی کے دورہ چین کے موقع پر چین اور بھارت کے مشترکہ بیان کے 41 نکات ہیں۔ اس تفصیلی دستاویز میں کئی اہم باتیں ہیں۔بھارت کے لیے مراعات بھی ہیں۔بھارت کے شمال میں شاہراہِ ریشم کی معاشی راہداری کے منصوبے کے تحت چین کے پاس ذرائع آمدورفت، تجارت اورسٹریٹیجک اثاثوں کا ایک ایسا جال بنانے کا منصوبہ ہے جس کا سلسلہ وسطی ایشیائی ممالک تک پھیلا ہوگا۔ دوسری جانب بھارت کے جنوب میں چین کا منصوبہ یہ ہے کہ وہ اپنی ساحلی شاہراہِ ریشم کو بحرِہند کے دوسرے کنارے تک لے جائے گا۔اسی طرح وہ نیپال اور بھوٹان میں بھی سرمایہ کاری کر رہا ہے جو روایتی طور پر بھارت کے حلقہ اثر میں ہیں۔ ان حقائق کے سامنے آنے کے بعدہمیں صرف نقشوٍں سے دل بھلانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر حقائق کو سامنے رکھا جائے تو معاملات واضح ہو جائیں گے۔ اکسائے چن کا معاملہ بھی ہے۔ہمیں زیادہ خوش فہمی کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ چین معاشی طاقت ہے اور اس طاقت میں اضافے کے لیے ہماری پرواہ کیے بغیر مختلف ممالک سے تجارتی معاہدے کرنے میں آزاد ہے ۔ اسی آزادی کے تحت مودی کے بھارت کے ساتھ 22 ارب ڈالر کے تجارتی معاہدوں سمیت مجموعی طور پر 32 ارب ڈالر کے معائدے کیے گئے ۔ اگر اپنی بات کرین تو آزادکشمیر میں بالخصوص کئی ترقیاتی منصوبوں میں چین کے تعاون سے کام جاری ہے۔ ہمارے معاشی حالات خراب ہیں اور معاہدے بھی چنانچہ چینی تعاون والے ترقیاتی منصوبے کئی زیادہ مہنگے ثابت ہو رہے ہیں۔ مقامی ٹھیکیداروں کے مقابلے مین چینی کمپنیاں تین گنا زیادہ مہنگی ہیں۔حکام دبے لفظوں اس حقیقت کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔
Sardar Ashiq Hussain
About the Author: Sardar Ashiq Hussain Read More Articles by Sardar Ashiq Hussain: 58 Articles with 55828 views
The writer is a Journalist based in Islamabad. Email : [email protected]
سردار عاشق حسین اسلام آباد میں مقیم صحافی ہیں..
.. View More