بلدیاتی الیکشن اورمذہبی کارکنان

پاکستان میں مذہبی ودینی سیاست کے حوالے سے دو طرح کے طبقات پائے جاتے ہیں ان میں سے پہلا طبقہ موجودہ جمہوری،سیاسی نظام کو موجودہ حالات کا ذمہ دار سمجھتا ہے اور اس نظام سے الگ تھلگ رہ کر اسلامی نظام کیلئے کوششیں کررہا ہے اس طبقے میں دو مزید حصے بن گئے ہیں پہلا وہ طبقہ ہے جو مسلحہ ہوکر میدان میں اتر آیا جس کے خلاف حکومت پاکستان سرگرم عمل ہے اور دوسرا طبقہ پر امن طریقے سے تبلیغی انداز میں کام کر رہا ہے یہ طبقہ کافی تعداد میں ملک میں موجود ہے اس کے اثرات بھی ملک میں کافی زیادہ ہیں ۔دوسرا بنیادی طبقہ موجودہ نظام کا حامی ہے وہ الیکشن میں بھی حصہ لیتا ہے ان کا کہنا ہے کہ حکومتیں ہمارے تعاون سے بنتی اور ٹوٹتی ہیں پہلے طبقے سے کئی گناہ یہ طبقہ زیادہ ہے ان کے کارکنا ن ہر گلی،محلے میں دیکھے جا سکتے ہیں پہلے طبقے کے دوسرے حصے اور دوسرے طبقے نے ملک میں دہشت گردی کے ہرواقعہ کی مذمت کی اس پر احتجاج کیا ،ایسے عمل کے خلاف فتوے بھی دئیے مگر پھر بھی مسجد،مدرسہ،داڑھی کا مسلسل ،منظم ٹرائل جاری وساری ہے اہل دین سے عوام کو دور رکھنے کیلئے ہر قدام کیا جارہا ہے ایک خوف کی کیفیت پیدا کردی گئی ہے۔اہل دین کو نہتا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی عید الضحیٰ کے موقع پر سینکڑوں مدارس پر کھالیں جمع کرنے پر پرچے ،گرفتاریاں اور کھالیں ضبط کرنے کی رپورٹس موصول ہوئی ہیں، اہل مدارس کا مزید استحصال کرنے کیلئے کھالوں کے ریٹ مخصوص لابی نے جس طرح کم کرکے اہل مدارس کی معیشت کو تنگ کرنے گھٹیا حرکت کی ہے اس میں عالمی،ملکی طاقتوں کے ملوث ہونیکی آوازیں سنائی دے رہی ہیں اس پر تحقیق یقیناً نہیں ہو گی اس لئے کہ اہل دین پر ہونے والی زیادتیوں کا نوٹس لینا حکومت یا اس کے اداروں کاشائد اب کام نہیں رہا ۔ سیکولر طبقہ کی طرف سے حتیٰ الامکان یہ کوشش کی جارہی ہے کہ موخر الذکر طبقہ بھی ہتھیار اٹھا لے تاکہ یہ ملک عراق وشام بن جائے اور اپنی منزل تک نہ پہنچنے پائے مگر دینی طبقہ نے کبھی بھی ایسا کرنے کا نہیں سوچا یہ طبقہ تو پاکستان کو مکہ ومدینہ کے بعد مقدس ترین مسلمان ریاست سمجھتا ہے۔ حالیہ دین دشمن اقدام کے بعد جمہوریت کے حامی دینی کارکنان بہت مایوس ہوگئے ہیں وہ کچھ کرنا چاہ رہے ہیں ان کا عزم ہے کہ بلدیاتی الیکشن میں حکمران جماعت ن لیگ کو متحد ہوکر شکست دے دی جائے تو شائد حکومت اپنا قبلہ درست کرلے اور انتقامی کاروائیوں سے باز آجائے بلدیاتی الیکشن میں ن لیگ کی شکست ن لیگ کیلئے ایک پیغام ہو سکتا ہے متعدد دینی کارکنان سے ملاقاتیں ہوئیں تو انہوں نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ن لیگ کی حکومت جب بھی آتی ہے اسلام اور اہل اسلام کو دیوار سے لگانے کے سوا کچھ نہیں کرتی اب ہم سوچ رہے ہیں کہ ن لیگ کو شکست سے دو چار کرنے کیلئے دینی کارکنان کو متحد کر کے ووٹ بنک ن لیگ کے مدمقابل جیتنے والے کسی بھی پارٹی کے امیدوار دیا جائے دینی کارکنا ن کے اس تاثرات سے ہمیں محسوس ہو رہا ہے کہ دینی ووٹ اگر ن لیگ کے خلاف استعمال ہو گیا تو یقیناً یہ ن لیگ کی شکست کا باعث بن سکتا ہے۔ بلدیاتی الیکشن پر تبصرہ کرتے ہوئے ن لیگ کے ایک بزرگ کارکن نے کہا کہ اگر ن لیگ سردار ایاز صادق کی سیٹ جیت جاتی ہے تو ن لیگ کو بلدیاتی الیکشن میں تاریخ ساز کامیابی ملے گی اور ہار جاتی ہے تو بلدیاتی الیکشن میں بھی ن لیگ شکست سے دو چار ہوگی این اے 122 میں بھی مذہبی ووٹ ن لیگ کے خلاف استعمال ہو رہا ہے جبکہ ہوولڈنگ ٹیکس سے ناراض تاجران بھی ن لیگ مخالف امیدوار کی کمپٔین کر رہے ہیں جو ن لیگ کیلئے ایک بڑا دھچکا ثابت ہو سکتی ہے اس حلقے کے نتائج یقیناً بلدیاتی الیکشن پر پڑھیں گے ،دوسری طرف ن لیگ سے ٹکٹ نہ ملنے والے لوگ بھی الیکشن میں کود پڑے ہیں پہلے پی ٹی آئی ن لیگ کے کارکنان سے بنی اب ن لیگ خود ہی دو حصوں میں تقسیم ہو کر رہ گئی ہے اس کے ساتھ دینی ووٹر بھی اب کسی قیمت پر ن لیگ کو ووٹ دینے کے حق میں نہیں ۔جس سے ن لیگ کی پوزیشن کمزور سے کمزور تر ہو تی جارہی ہے لاہور جسے ن لیگ کا قلعہ تصور کیاجاتا تھامندرجہ بالا صورت حال کے بعد اب یہاں سے کلین سویپ کرنا ن لیگ کیلئے مشکل ترین ہو گیا ہے مرحلہ وار الیکشن بھی اسی لئے کروائے جا رہے ہیں کہ ن لیگ کو فائدہ ہو پہلے مرحلے میں ان شہروں سے الیکشن کروائے جا رہے ہیں جہاں ن لیگ کی پوزیشن بظاہر مضبوط ہے ن لیگ کی قیادت کا خیال ہے کہ اگر یہاں سے ہم جیت گئے تو بعد میں ان علاقوں سے ہم آسانی سے جیت جائیں گے جہاں ہماری پوزیشن کمزور ہے افرادی قوت کو بھی کمزور حلقوں میں استعمال کیا جائے گا ایک رپورٹ کے مطابق اپنے کار خاص لوگوں کی تعیناتیاں عمل میں لائی جا چکی ہیں جو سرکاری وسائل استعمال کرکے ن لیگ کے امیداواروں کو شکست سے بچانے کیلئے اپنا کردار ادا کریں گے ۔ایک اخبار کی رپورٹ کے مطابق سرکاری گاڑیوں کی سرکاری نمبر پلیٹس اتار کر استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔دھونس دھاندلی،کرپشن ،فراڈکے اس بازار میں جو امیداور کامیاب ہوں گے وہ کیا ملک وملت کی خدمت کریں گے ؟ہم نے تو پہلے ہی عرض کردیا تھا اور اب بھی کہتے ہیں کہ ان لیکشن سے بہتری نہیں آنے والی اس سے مہنگائی کا طوفان تو آسکتا ہے ،کرپشن کا بازار تو مزید گرم ہو سکتا ہے ،رشور ت ستانی کی مالا تو لوگوں کو پہنائی جا سکتی ہے مگر انصاف،امن ،میرٹ،چیک اینڈ بیلنس کا نظام درست نہیں ہو سکتا ۔مذہبی جماعتوں کے کارکنان کب تک اپنے جذبات کے تحفظ کیلئے ناپائیدار طریقے کو استعما ل کرتے رہیں گے ہم یہ یقین کرتے ہیں کہ مذہبی کارکنان کے ووٹ سے بہت سے امیدوار شکست تو کھا جائیں گے لیکن موجودہ کرپٹ نظام کا خاتمہ نہیں کر پائیں گے کیونکہ ہر جمہوریت پسند جماعت میں ایک مضبوط ترین کرپٹ مافیا موجود ہے جو احتساب کی بات کرنے پر ملک میں جنگ لگادینے کا اعلان سرعام کرتا دکھائی دیتا ہے ،ملک کے اہم ترین سیاست دان اہم ترین ذمہ دار سے جب یہ کہہ دیں کہ اگر آپ نے جمہوریت پال کرپٹ لوگوں پر ہاتھ ڈالنا ہے تو مارشل لاء لگا دیں تو ایسی حالت میں دینی ومذہبی کارکنان کے جذبات کی وقتی طورپر تسلی تو ہو سکتی ہے مگر ترجمانی نہیں ۔مذہبی ودینی کارکنان کو اپنے جذبات کی ترجمانی کیلئے حکیم نابغۂ روزگار شاہ ولی اﷲ دہلوی کے در پر حاضری دینا ہوگی ان کی تعلیمات پر عمل کرنا ہوگا دینی لوگوں کو ایک ایسا لیڈر چننا ہوگا جو یہ کہے کہ انسانیت کو نسانیت کی غلامی سے نجات دلانے کیلئے کل فک نظام کے ایجنڈاپر مسنون طریقے سے عمل کرو ۔ایسا گوہر نایاب لوگ تلاش کرنا ہوگا۔جن کے بارے میں علامہ اقبالؒ نے کہا کہ
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پے روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیداور پیدا

اے مخلص دینی کارکنان آؤ اقبال ؒ چمن میں دیداور پیدا کرنے کیلئے کسی گوہر نایاب کو تلاش کریں جو امت کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو نجات دہندہ بن کر سہارا دے سکے۔
Ghulam Abbas Siddiqui
About the Author: Ghulam Abbas Siddiqui Read More Articles by Ghulam Abbas Siddiqui: 264 Articles with 269626 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.