جمہوریت کس طرح کی عدالتیں چاہتی ہیں
(Javed Iqbal Cheema, Italia)
یہ کیسا قانون ہے کہ ریاض کیانی
پر الزام ہو اور اس کو انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لئے گھر نہ بیجھا جاۓ .یہ
کیسی جمہوریت ہے کہ سربراہ حکمران اور سربراہ جمہوریت انصاف کے راستے میں
خود ہی رکاوٹ بن جاۓ .اس سے جمہوریت کو کیا فایدہ ملنے والا ہے .کیا میاں
نواز شریف کو اس بات کا احساس ہے .کہ ریاض کیانی اور نجم سیٹھی جیسے لوگوں
کو مراعات دے کر جمہوریت کو کونسا تمغہ جمہوریت دیا جا رہا ہے .یا چند اچھے
ججوں کو اچھا فیصلہ کرنے پر گھر بھیج کر قوم کو کونسا پیغام دیا جا رہا ہے
.ججوں کو اداروں کو عدالتوں کو قوم کو دنیا کو کیا پیغام دینا مقصود ہے .کہ
ہم حرف کل ہیں ہم جمہوریت کے ٹھیکیدار ہیں اور جمہوریت ہم سے ہے اور ہمارے
بغیر جمہوریت کچھ بھی نہیں ہے .کیا میرے حکمران نے حسنی مبارک اور صدام کی
جمہوریت سے کوئی سبق نہیں سیکھا .یا سیکھنا ہی نہیں چاہتے .حکمران کو کر لو
جو کرنا ہے کی پالیسی پر نہیں چلنا چاہئے .بلکہ ہر مخالفت کی بنیاد پر
اٹھنے والی آواز کو لبیک کرنا چاہئے .اور حکمران کو ملک کی سالمیت کی خاطر
فوری رد عمل پھرتی سے دکھانا چاہئے .اور مخالفوں کی زبان بند کرنے کے لئے
ان کو دعوت دینا چاہئے کہ أو .ملکر مسلہ کا حل تلاش کرتے ہیں .اچھے اخلاق
اچھی روایات کا مظاھرہ کرنا ہو گا .پاکستان کو دنیا میں ایک با عزت مقام
دینے کے لئے .یہ کیسی جمہوریت کیسی عدالتیں کیسا انصاف کا نظام ہے .کہ آپ
عدالتوں سے حکم امتنائی لیں اور پھر عدالتوں سے فیصلے اس وقت آئیں.جب ان کی
ضرورت ہی نہ ہو .یہ کیسا قانون ہے کہ خادم اعلی پانچ سال حکومت کریں حکم
امتنائی پر .سعد رفیق وزارت کریں حکم امتنائی پر .پل سڑکیں روک دی جایں حکم
امتناعی پر .عوام کو قوم کو نقصان پنچایا جاۓ ترقی کو روک دیا جاۓ حکم
امتناعی پر اور پھر فیصلے بھی سال ہا سال لٹکا دے جایں .عدالتوں کے فیصلوں
کے آگے انصاف کے آگے روڑے اٹکا کر سیاستدان پورے زور شور سے مکمل پروٹوکول
سے اپنی پوری طاقت سے اپنی پوری ہٹ دھرمی سے بشیرمی کے ساتھ یہ کہتا پھرے
کہ ہم عدالتوں کا احترام کرتے ہیں .عدالتیں جو فیصلہ دیں گی .اس کا احترام
کریں گے .جس طرح اصغر خان کیس .بلدیاتی الیکشن .کالا باغ ڈیم .پر سیاست ہو
رہی ہے .مثال دے رہا ہوں .کہ ایک طرف سیاستدان اپنے کیس کو ١٢ سال تک
میڈیکل سرٹیفکیٹ دے دے کر لٹکتا ہے .عدالتوں کا مذاق اڑاتا ہے .ان سے
کھیلتا ہے .پھر بڑی ڈھٹائی سے کہتا ہے کہ ہم عدالتوں کا احترام کرتے ہیں .کبھی
ججوں کو ٹرانسفر کرتا ہے کبھی رعب ڈالتا ہے کبھی اپنا اثرو رسوخ استمعال
کرتا ہے کبھی جمہوریت کبھی حکمرانی کا سہارا لیتا ہے .اور پھر کہتا ہے ہم
جمہوریت کے چیمپئن ہیں .آخر یہ کب تک قوم کے ساتھ مذاق ہوتا رہے گا .پارلیمنٹ
کی عمر پانچ سال اور فیصلوں کو تیس سال کی ضرورت ہے .اگر کچھ بھی نہیں ہونا
کسی کو نہ سزا ہونی ہے .تو پھر یہ سارا جمہوریت کا انصاف احتساب کا ڈرامہ
ختم کرو .پھر ایک نیا این .آر .او .کر لو جمہوریت والا .کہ پچھلے سارے کیس
ختم .ساری کہانیاں ختم .ساری کرپشن ختم .کھیل ختم پیسہ ہضم.ہم پاکستان کو
جمہوریت کو انصاف کو احتساب کو آج سے سٹارٹ کرتے ہیں .اس کا مطلب ہے .مشرف
نے این .آر او .صحیح کیا تھا .ہونا تو یہ چاہئے تھا مہذب معاشرے کی طرح
مہذب جمہوریت کی طرح.یورپ کی طرح.کہ جمہوریت میں حکمران آتے جاتے رہیں
حکومتیں بدلتی رہیں .مگر ادارے اپنا کام کرتے رہیں .ترقی کا عمل جاری و
ساری رہے .جمہوریت کے ٹھیکیداروں کو یہ حق نہ ہو .کہ وہ ہر ادارے کے اوپر
اپنی مرضی کا آلو بٹھا دیں.تا کہ وہ ادارے کو چلانے کی بجاۓ تباہ و برباد
کرتا پھرے .صدیق بلوچ بھی اسی جمہوریت کا ٹھیکیدار تھا جو ہر روز سپریم
کورٹ نہ جانے کا اعلان کیا کرتا تھا وہ بھی حکم امتناعی کے پیچھے چھپ گیا .اب
دیکھتے جاؤ .ایاز صادق کب حکم امتنائی لاتا ہے یا قربانی کا بکرا بنتا ہے .اسحاق
ڈار کا کوئی حلقہ انتخاب نہیں پرویز رشید کی طرح.وہ بھی جمہوریت کا چیمپین
ہے جو عالمی بینک سمیت عالمی اداروں کا دلدادہ ہے .اور منی لانڈرنگ کا ماہر
.کوئی جمہوریت کا ٹھیکیدار یہ بتا سکتا ہے کہ اب .ایف .آئی .اے ..اسحاق ڈار
کو بھی ٩٠ دن کے لئے اندر کر سکتی ہے .یہ کیسی جمہوریت ہے جس میں سارے
قانون ساری ترامیم عام آدمی کے لئے ہیں .مگر پھر بھی شامت عام آدمی کی آتی
ہے .مجھے بھی عام شہری کی طرح شیرم آتی ہے وزیروں مشیروں چمچوں کے بیانات
سن کر .مگر افسوس کہ حکومت میں ایک بھی زی شعور ایسا نہیں کہ جو اقتدار کے
علاوہ یا حاکم کی خوشنودی کے علاوہ سوچتا ہو .خدا رحم کرے اس ملک پر اس
جمہوریت پر جہاں داؤ پیچ دھوکہ فراڈ جھوٹ بد دیانتی منافقت کو سیاست کہا
جاتا ہے .پھر بھی جمہوریت کے فرماں روا کہتے ہیں کہ ملک میں بار بار مارشل
لا کیوں لگتا ہے .یار کچھ تو شرم و حیا کرو .کچھ تو غیرت کھاؤ.خدا جانے
میرے جمہوریت کے ٹھیکیدار کیا چاہتے ہیں .اعلی عدالتوں کے ججوں کے ریمارکس
جب سامنے آتے ہیں .تو لگتا ہے .چور اور چوکیدار ملے ہووے ہیں .یورپ میں
بلکہ پوری دنیا جہاں بھی بات کرو اب لوگ پاکستان میں ایک ہی آدمی کی اور
ایک ہی ادارے کی تعریف کرتے نظر آتے ہیں .وہ ہے جنرل راحیل شریف اور
پاکستانی فوج .پاکستانی جمہوریت اپنے جھوٹ فریب اور کرپشن کی وجہ سے نفرت
کا سبب بنتی جا رہی ہے .میاں نواز شریف کو موقعہ ملا تھا کہ وہ جمہوریت کے
سارے کالے داغ دبھے دور کر سکتے تھے .پبلک اکاونٹ کمیٹی اور آڈٹ رپورٹ والے
محکمے کو .ایف .آئی .اے.اور نیپ کو .ان سب احتساب کرنے والے اداروں کو لگام
بھی ڈال سکتے تھے اور پٹری پر بھی ڈال سکتے تھے نواز شریف ہیرو بن سکتے تھے
مگر افسوس کہ وہ اپنے پرانے خول سے باہر نہ نکل سکے .پھر بھی ابھی موقعہ ہے
.نواز شریف میرے اس کالم سے چند پواینٹ پر عمل کر لیں تو ہیرو بن سکتے ہیں
.اس جمہوریت کا نواز شریف کا ایک ہی کارنامہ ہے وہ قابل تحسین ہے .کہ نواز
شریف راحیل شریف سے تعاون کر رہے ہیں .چاہے وہ با امر مجبوری ہی کر رہے
ہیں.مگر افسوس اس جمہوریت کی اپوزیشن پر کہ وہ بھی اپنا جمہوری کردار
نبھانے میں مکمل طور پر ناکام دیکھنے میں آئی ہیں .تو اس سے صاف ظاہر کہ
لفظ جمہوریت کا کوئی قصور نہیں .قصور اس لفظ کو استمعال کرنے والوں کا اور
بدنام کرنے والوں کا ہے .کاش اس ملک میں یا تو صحیح جمہوریت آ جاۓ یا صحیح
مارشل لا |
|