۷/۱۱: ایک گھر کی آگ سے لگ جائیگی ہر گھر کو آگ

ممبئی لوکل ٹرین دھماکے پر جب مکوکا عدالت نے چند روز قبل اپنا فیصلہ محفوظ کردیا تو اس کے بعد جمیعۃ العلما؍ ہند(مہاراشٹر) کے رہنما مولانا عبدالخالق فارقلیط کی ایک دلگدازتحریر نظروں سے گذری جس میں انہوں نے اس توقع کا اظہار فرمایا تھا کہ ’’میں ملزمین کے مقدمہ کی پیروی میں اول دن سے حصہ لیتا آیا ہوں ۔مجھے پتہ ہے کہ عبدالوحید کی طرح تمام ملزمین بے قصور ہیں ۰۰۰۰مجھے امید تھی کہ جس طرح اکشر دھام مندر پر حملہ سے مفتی عبدالقیوم اور دیگر ملزمین کو باعزت رہائی نصیب ہوئی تھی اسی طرح لوکل ٹرین بم دھماکے کے معاملے میں بھی ملزمین باعزت بری کئے جائیں گے۔ ‘‘اس کے علاوہ ایک سنگین خدشہ بھی بیان کیا گیاتھا’’اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ ملزمین کو پھانسی کی سزا سنائی جائیگی‘‘۔ عدالت نے ۱۲ میں سے ۵ کو پھانسی کی سزا سنا کر مولانا کے خدشات کی توثیق کردی۔ فارقلیط صاحب چونکہ ابتداء سے اس معاملے سے منسلک تھے اس لئے ان کااندیشہ بجا تھا لیکن مجھ جیسے لوگ جو اس معاملے کو تقریباً بھولے ہوئے تھے ان کی توقعات بھی مختلف نہیں تھیں۔ مولانا نے اپنے مکتوب میں ا مت کی غفلت و بے حسی کا جو شکوہ کیا ہے اس پر تو بس یہی کہنا پڑےگا ؎
کہاں کی آہ و فغاں لب ہلا نہیں سکتا
وہ رات ہے کہ دیا بھی جلا نہیں سکتا

ہمارے ملک کا عدالتی نظام بہت ہی سہل و آسان ہے۔یہاں اکثر و بیشترفیصلے اس بنیاد پر کئے جاتے ہیں کہ ملزم کون ہے اور اس پر کسے قتل کرنے کا الزام ہے؟ یعنی مرنے والا کون ہے اور مارنے کا الزام کس پر ہے؟اس معاملے میں جملہ چار امکانات ہو سکتے ہیں:
• ہندو پر ہندو کو مارنے کا الزام ہو
• ہندو پر غیر ہندو کو مارنے کا الزام ہو
• غیر ہندو پر ہندو کو مارنے کا الزام ہو
• غیر ہندو پر غیر ہندو کو مارنے کا الزام ہو

خوش قسمتی سے ابھی تک ہندوستان میں آخری صورتحال پیدا نہیں ہوئی اس لئے پہلے تین امکانات کی مثالیں دیکھیں۔ اندرا گاندھی وزیرا عظم تھیں ان کو ایک سکھ نے ماردیا ۔ ملزم کو عدالت نے پھانسی کی سزا سنادی۔ اندرا جی کے فرزند ارجمند راجیو گاندھی کو (جو وزیراعظم رہ چکے تھے ) ایک ہندو نے ماردیا۔ عدالت اس کو پھانسی کی سزا نہیں دے سکی۔ راجیو گاندھی کی بیوہ پر ایسا دباؤ بنایا گیا کہ انہوں نے سخت سزا کا مطالبہ کرنے کے بجائے معافی کا اعلان کردیا۔ایک فرق یہ بھی ہے کہ اندرا گاندھی کے قتل کا بدلہ عام سکھوں سے لیا گیا اور راجیو جی نے اسے یہ کہہ کر حق بجانب ٹھہرایا کہ جب کوئی بڑا پیڑ گرتا ہے تو زمین ہلتی ہے لیکن جب راجیو گاندھی خود گرے تو زمین کیوں نہیں ہلی؟ زمین ہلتی نہیں ہے ہلائی جاتی ہے۔ راجیو گاندھی کی موت کا بدلہ کون لیتا اور کس سے لیتا؟ کوئی قوم اپنے آپ سے کیسے بدلہ لے سکتی ہے؟

گاندھی جی کے قاتل گوڈسے کو سزا تو ہوئی تھی مگر قتل و غارتگری پھر بھی نہیں ہوئی ۔ناتھو رام گوڈسے کے ساتھ نرمی کا معاملہ نہیں کیا جاسکا اس کی کئی وجوہات ہیں ۔ ایک تو آزادی کے فوراً بعد ہندو احیاء پرست یعنی ہندو مہاسبھا اور آریس ایس بہت کمزور تھے۔ کانگریسی اقتدار کونہ ان فسطائی جماعتوں سے کوئی خطرہ لاحق تھا اور نہ ہندو رائے عامہ کے خلاف ہوجانے کا اندیشہ تھا۔ گوڈسے کو گاڈگل نے فوراً پہچان لیا تھا اس لئے وہ رنگے ہاتھ پکڑا گیا ۔ گوڈسے اگرپہچانا نہ جاتا اوراس کا کوئی ساتھی یا گاندھی جی کا محافظ اسےہلاک کردیتا تو ممکن ہے گاندھی جی کے قتل کا الزام پاکستان پر لگا کر ہندوستان کے مسلمانوں پر اس کا بخار اتارا جاتا لیکن آگے چل کر قومی سیاست کی صورتحال بدل گئی۔ہندو رائے عامہ کی خوشنودی کے پیش نظر خود کانگریس بھی اپنے اقتدار کی خاطر ہندو مجرمین کے خلاف اقدام کرنے سے کترانے لگیاس کے باوجود اس کی ھالتِ زار پر فی الحال یہ شعر صادق آتا ہے کہ ؎
دوستو محفوظ نہ سمجھو تم اپنے آپ کو
ایک گھر کی آگ سے لگ جائیگی ہر گھر کو آگ

فسطائی قوتیں قتل و غارتگری کے راستے ہر ہنوز گامزن ہیں ۔ چند سال قبل مہاراشٹر میں ہندو توہمات کے خلاف برسرِ پیکارڈاکٹر نریندر دابھولکر کا قتل ہوگیا ۔ ظاہر ہے وہ قتل کسی ہندو نے کیا تھا۔ اس وقت مہاراشٹر میں اور مرکز میں کانگریس کی حکومت تھی لیکن قاتلوں کے تئیں نرمی کا رویہ اختیار کیا گیا اور کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔ اس کے بعد بی جے پی برسراقتدار آگئی تو گووند پانسرے اور ان کی اہلیہ کو گھر میں گھس کر قتل کردیا گیا ۔ پانسرے کے قاتل بھی عرصۂ دراز تک آزاد گھومتے رہے ۔ ان سے حوصلہ پاکر کرناٹک کے ہندو احیاء پرستوں نے پروفیسر مالےشپاّ کالبرگی کو قتل کردیا۔ ہندوسینا نے اس قتل کو حق بجانب ٹھہراتے ہوئے اعلان کیا کہ ان کے بعد کے ایس بھگوان کا نمبر ہے ۔ کرناٹک میں کانگریس کی حکومت ہے اس کے باوجود اس اشتعال انگیز دھمکی کو نظر انداز کردیا گیا۔

مہاراشٹر میں شیوسینا اور کانگریس دونوں پانسرے کے قاتلوں کی گرفتاری کا دباو بڑھا تے رہے یہاں تک کہ پولس نے سناتن سنستھا کے ارکان کو گرفتار کرلاو۔ ویسےاس بات کا امکان کم ہی ہے کہ پولس ان کے خلاف ٹھوس ثبوت فراہم کرکے انہیں کیفرِ کردار تک پہنچائےلیکن جب سناتن سنستھا پر پابندی کا مطالبہ سامنے آیاتو پہلے شیوسینا نے اس کی جم کر مخالفت کی اور پھر اقلیتی امور کے وزیر ایکناتھ کھڑسے بھی سناتن کی حمایت میں لنگوٹ باندھ کر کود پڑے۔ انہوں نے کہہ دیا کہ اگر بغیر ثبوت کے سناتن پر پابندی لگانا ہو تو کیوں نہ ایم آئی ایم پر پابندی لگا دی جائے؟ یہ کس قدر احمقانہ منطق ہے۔ سناتھن سنستھا کے کئی لوگ بم بناتے ہوئے ہلاک ہوچکے ہیں۔ اس کے ارکان کو پانسرے قتل میں پولس نے گرفتار کیا ہے۔ اس کے باوجود وزیر موصوف کو کوئی ثبوت دکھائی نہیں دیتا۔ابوعاصم اعظمی صاحب نے فرمایا اگر سیمی پر پابندی ہے تو سناتن پر کیوں نہیں؟ گویا غیر شعوری طور پرسیمی کی پابندی کو حق بجانب قرار دے دیا جبکہ ابھی تک خود حکومت کوئی ٹھوس ثبوت نہیں پیش کرسکی۔ اس طرح کے بیانات پڑھ کر یہ شعر یاد آتا ہے کہ ؎
ہم جیسے تیغِ ظلم سے ڈر بھی گئے تو کیا
کچھ وہ بھی ہیں جو کہتے ہیں سر بھی گئے تو کیا

یہ تو انفرادی قتل و غارتگری کے واقعات ہیں عوامی قتل عام کا بھی ایک معاملہ ابھی حال میں مدھیہ پردیش کے اندر پیش آیا۔ جھبوا کے پٹیلواد میں تقریباً ۱۰۰ لوگ ایک دھماکے میں ہلاک ہوگئے ۔ اس بابت پہلے تو یہ خبر آئی کہ گیس سلنڈر کے پھٹنے سے یہ حادثہ رونما ہوا۔ ایک گیس سلنڈر اگر ۱۰۰ لوگوں کی جان لے سکتا ہے تو دہشت گردوں کو خطرناک بم استعمال کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ بعد میں پتہ چلا چونکہ یہ دھماکہ خیز اشیاء ایک سویتامبر جین راجندر کسوا کے گودام میں رکھے ہوے تھے جو بی جے پی کے تاجروں کی مقامی تنظیم کا صدر بھی ہے تو عقدہ کھلا کہ وہ افواہ مجرم سے توجہ ہٹانے اور جرم پر پردہ ڈالنے کی خاطر گھڑی گئی تھی۔ ساری دنیا کو گوشت، مچھلی اور انڈے تک کھانے سے روکنے والے جین سماج کے ایک فرد نے ۱۰۰ بے قصور لوگوں کی جان لے لی لیکن کسی جین منی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔یہ ہے آدم خور سبزی خوری کا ایک نادر نمونہ ۔ کسوا پہلے توفرار ہوگیا اور بعد میں گرفتار بھی ہوگیا ۔ بہت جلد اس کی ضمانت ہو جائیگی اور معاملہ رفع دفع کردیا جائیگا اس لئے کہ مرنے والے ہندو ضرورتھے لیکن مارنے والا اعلیٰ درجہ کا خوشحال زعفرانی ہندو ہے۔

زعفرانی ہندو وں پراگر عام ہندووں کے قتل کاالزام ہو تو نظر انداز کردئیے جاتے ہیں لیکن اگر وہ مسلمانوں کےقتل کا ارتکاب کریں تو انعام و اکرام سے نوازے جاتے ہیں ۔ اس کا ثبوت نرودہ پاٹیہ میں بچوں اور خواتین تک کا قتل عام کرانے والی مایا کوندنانی کو وزیر فلاح بہبود بنا دیا جاناتاں۔ امیت شاہ پارٹی کے صدر اور نریندر مودی وزیراعظم بنا دئیے جاتے ہیں ۔ عشرت جہاں اور سہراب الدین کا انکاؤنٹر کرنے والے پولس افسران نہ صرف باعزت بری ہو جاتے ہیں بلکہ ترقی کے ساتھ ان کا عہدہ بحال کردیا جاتا ہے ۔ اسیمانند جس نے خود اپنے جرائم کا اعتراف کرلیا تھا جب ضمانت کی درٖخواست کرتا ہے تو مرکزی تفتیشی ایجنسی اس کی مخالفت نہ کرنے کا فیصلہ کرتی ہے اس لئے کہ بقول داخلی امور کے مرکزی وزیر مملکت ہری بھائی چودھری ’’قومی جانچ ایجنسی نے سوامی اسیمانند کو مشروط ضمانت دئیے جانے کی مخالفت نہ کرنے کا فیصلہ اس لئے کیا کہ اسے چیلنج کرنے کی کوئی بنیاد نہیں ملی۔ اب اگر حکومت ہی مخالفت نہیں کرے تو بھلا عدالت کو کیا پڑی ہے کہ ضمانت سے انکار کرے؟ جب سیاّں بھئے کوتوال تو ڈر کاہے کا؟ لیکن ان لوگوں کو تاریخ کے اوراق پر ظالموں کے انجام سے عبرت لینی چا ہئے بقول شاعر ؎
وہی ہلاکو کہ جس نے کئے ہزاروں ہلاک
اسے بھی وقت کی یلغار نے ہلاک کیا

کرنل پروہت اور سادھوی پرگیہ کے معاملے میں عدالت عالیہ کا رخ تو بے مثال ہے۔ مالیگاؤں دھماکے کی کلیدی ملزم پرگیہ سنگھ ٹھاکر اور کرنل سری کانت پروہت کے معاملے میں سپریم کورٹ نے نچلی عدالت کو ہدایت کی کہ ان ملزمان کے ضمانت کی درخواست پر ایک ماہ کے اندر غور کیا جائے۔ اس دوران مکوکا کی دفعات پر غور نہیں کرنے کا بھی حکم دیا گیا اس لئے کہ بقول جسٹس فقیر محمد ابراہیم اور جسٹس شیو کیرتی سنگھ پہلی نظر میں یہ ثابت نہیں ہو پا رہا ہے کہ ان پر مکوکا کیوں لگایا گیا ہے ۔ اگر ان دھماکوں میں مرنے والے مسلمان نہ ہوتے اوراس کا الزام ہندووں پر نہ ہوتا تو کیاجسٹس فقیر محمد اور جسٹس شیوکیرتی یہ موقف اختیار کرنے کی جرأت کرتے؟ عدالتوں کا فی زمانہ یہ حال ہے؎
خونی و خائن و راشی و شقی ایک ہوئے
اس کے دربار میں پہنچے تو سبھی نیک ہوئے

یہ تبدیلی قصدا ً لائی جاتی ہے جس کا زندہ ثبوت مشہور وکیل روہنی سالیان کا وہ انٹرویو ہے جس میں انہوں نے کہا کہ مرکز میں تبدیلیٔ اقتدار کے بعد مالیگاوں بم دھماکہ معاملہ میں این آئی اے کا دباؤ ہے کہ وہ اس معاملہ میں " نرم" رویہ اپنائیں۔ وکیل روہنی کے مطابق" این ڈی اے سرکار بننے کے بعد این آئی اے کے ایک افسر نے انہیں فون کیا۔ جب انہوں نے فون پر کیس کی بات کرنے سے انکار کردیا تو افسر نے ان سے مل کر بتایا کہ انہیں ملزموں کے تئیں نرمرخ اپنانا چاہئے۔ سالیاننےبتایاکہ ۱۲ جون کو معاملہ کی سماعت سے ٹھیک پہلے اسی افسر نے مجھ سےکہا کہ "چیف" چاہتے ہیں کہ ان کی جگہ پرکوئی اور وکیل عدالت میں پیروی کرے۔ روہنی سالیان ایک معروف وکیل ہیں اور وہ جےجےشوٹ آوٹ، بوریولی ڈبل مرڈر، بھرت شاہ معاملہ اور ملنڈ دھماکہ جیسے کئی مقدمات کی پیروی کرچکی ہیں۔

اس کے برعکس کر مقتولین ہندو ہوں اور اس الزام کسی مسلمان کے سرمنڈھ دیا جائے تو عدالت اور سیاست کا رخ یکسر بدل جاتا ہے اس کی سب سے مشہور مثالیں افضل گرو اور یعقوب میمن ہیں۔ افضل گرو حکومت کے ایماءپر علٰحیدگی پسندی سے تائب ہوتھا۔ وہ مستقلا ً خفیہ ایجنسیوں کی نگرانی میں تھا بلکہ ان کا تعاون بھی کیا کرتا تھا۔ اس کے اہل خانہ کے مطابق خفیہ ایجنسی کے کہنےپر وہ دہلی گیا تھا جہاں اسے دھماکے کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا اور بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے قومی جذبات کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ یعقوب میمن اپنے بھائی ٹائیگر میمن کی ہدایت کے خلاف واپس آتے ہوئے اپنے ساتھ ایسےپاکستان مایلف ثبوت لیتاآیاکہ جو خفیہ ایجنسیاں بھی حاصل نہیں کرپائی تھیں اس کے باوجود اسے پھانسی دی گئی ۔چونکہ یہ دونوں مسلمان تھے اور ان پر ہندووں کو مارنے کا الزام تھا اس لئے سارے شواہد و ضوابط بے معنیٰ ہو کر رہ گئے ۔سیاست، عدالت اور صحافت سب ان کے خلاف ہوگئے۔

مسلمانوں کی اس دگرگوں صورتحال کا سبب یاتو مسلمانوں کا اقلیت میں ہونا قرار دیا جاتا ہے یاتوان کے انتشار کو موردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے لیکن اس خطۂ ارض میں انگریزوں کی آمد سے قبل بھی مسلمان اکثریت میں نہیں تھے اور ان میں کوئی مثالی اتحاد بھی نہیں تھا بلکہ وہ ایک دوسرے پر فوج کشی بھی کیا کرتے تھےاس کے باوجود وہ ایسے خوار کبھی نہیں ہوئے۔ دراصل انگریز جاتے جاتے ایک ایسا نظام چھوڑ گئے جس میں اکثریت کو خوش کرنا حکمرانوں کی مجبوری ہے۔ اس خوشنودی کے حصول کی خاطروہ اقلیتوں پر مظالم کرتے ہیں اور اکثریت کی ناراضگی سے بچنے کیلئے اکثریتی فرقہ کے انتہا پسندوں سےصرفِ نظر کرتے ہیں ورنہ کیا وجہ ہے کہ بابری مسجد کو ہندو دہشت گردوں نے علی الاعلان شہید کردیا اور اس کے ردعمل میں سورت و دیگر مقامات پرمسلمانوں کے خلاف فرقہ وارانہ فسادات بھی کرنے لگے۔ اس سنگین جرم کے کسی مجرم کو کوئی سزا نہیں ہوئی ۔ اس کے برعکس اپنی سیاست چمکانے کی خاطر گودھرا میں رام بھکتوں کو جلانے کا الزام مسلمانوں کے سر تھوپ کر گجرات کو خاک و خون کی نذر کردیا گیا ۔ دونوں صورتوں میں جب چاقو خربوزے پر گرا تب بھی اور جب خربورہ گرا چاقو پر گرا تب بھی خسارے میں خربوزہ ہی رہا چاقو کا کچھ نہیں بگڑا۔ بقول شاعر ؎
سب فائدے آپ کیلئے ہیں
نقصان ہیں جتنے ہم بھریں گے

اس صورتحال میں درست رویہ تو وہی ہے جو عبدالخالق فارقلیط صاحب نے اختیار کررکھا ہے ۔ بغیر کسی حزن و ملال اور شور شرابے کے وہ گزشتہ ۹ سالوں سے ان مظلومین کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں اور جو کچھ ان سے بن پڑتا ہے اخلاص کے ساتھ للہ فی اللہ کررہے ہیں ۔ بعید نہیں کہ ان کوششوں کے نتیجے میں معاملہ کسی ایسی عدالت میں چلا جائے جس میں جسٹس تہلیانی جیسا جج موجود ہو جو حکومت کے بجائے ضمیر کی آواز پر لبیک کہے اور ۲۶/۱۱ کے ملزم فہیم انصاری اور صباح الدین کی طرح ان ملزمین کو بھی رہا کردے۔مولانا اپنے مکتوب میں آگےرقمطراز ہیں کہ ’’ملزمین نے ہمت نہیں ہاری ہے۔ہائی کورٹ میں وہ پھر سے اپنا دفاع کریں گے۔انہیں بس ہماری حمایت اور سپورٹ کی ضرورت ہے۔ ہمیں انہیں تنہا محسوس ہونے نہیں دینا ہے۔ اللہ کی ذات سے انہیں پوری امید ہے‘‘۔یہی مومن کا شیوہ ہے ۔ اللہ کی ذات پر مکمل بھروسہ اور اعتماد ا سے کسی حال میں مایوس نہیں ہونے دیتا اور وہ صبر و استقامت کے ساتھ اپنے رب کو راضی کرتا چلا جاتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اس دنیا سے جانا اس لئے غیر اہم ہے کہ ہر ایک کو ایک دن جانا ہے لیکن کامیابی و کامرانی تو انہیں کا مقدر ہے جو اپنے رب راضی کرکے اس کے حضور حاضر ہوتے ہیں ۔ بقول باصر کاظمی ؎
خدا کا شکر ہے پستی نہ ہم کو کھینچ سکی
ہمیں بلندیٔ معیار نے ہلاک کیا
(اس مضمون میں سارے اشعار باصر کاظمی کے ہیں)
 
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1453572 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.