١٨ستمبرکوپشاورمیں پاک فضائیہ کے
بڈھ بیرکیمپ پر١٣دہشت گردوں نے علی الصبح نمازفجرکے وقت اپنے ایک بزدلانہ
حملہ میں آرمی وایئرفورس کے٣٠/ افراداور چار سویلین کوشہیداور٢٩/ افراد
کوزخمی کردیا جبکہ اسی شہرمیں دسمبر٢٠١٤ء میں آرمی پبلک اسکول کے سانحے نے
پورے ملک کوہلاکررکھ دیاتھااوراس کے بعدملک میں ہنگامی طورپرجواقدام اٹھائے
گئے اس کے بعد امیدبندھ گئی تھی کہ فول پروف سیکورٹی نظام کے بعدمزیدایسا
کوئی واقعہ رونمانہیں ہوگا۔یہ پاک فضائیہ کی تنصیبات پرپانچواں بڑاحملہ ہے
۔ اس مرتبہ دوگروپوں پرمشتمل درجن سے زائددہشتگردوں نے کاروائی کیلئے
نمازفجرکے وقت کا انتخاب کیاجب بڈھ بیرکیمپ کی مسجدنمازی فجرکی سنتیں
اداکررہے تھےاورکچھ نمازی وضوخانے میں وضوکرنے میں مصروف تھے ۔ عین اس وقت
فرنٹیئرکانسٹیبلری کی جعلی وردی میں ملبوس کچھ دہشتگردوں نے مسجدمیں گھس
کرشورمچادیاکہ کیمپ پرحملہ ہو گیاہے،اس لیے سب لوگ ایک جگہ اکٹھے ہوجائیں
تاکہ آپ کی حفاظت کامناسب بندوبست کیاجائے۔بچ جانے والے عینی شاہدین کے
مطابق جب تمام نمازی ایک دیوارکے ساتھ اکٹھے ہوگئے توان ظالم دہشتگردوں نے
ان پرفائرکھول دیا۔ایک اطلاع کے مطابق دہشتگردوں نے مسجدمیں دستی بم بھی
استعمال کیے ۔
دہشتگردوں کے دوسرے گروپ نے کیمپ میں موجودرہائشی کمپاؤنڈکارخ کیا لیکن
وہاں پاک فوج کے نوجوان کیپٹن اسفندیار بخاری،پاک فضائیہ کے ٹیکنیشن طارق
اورشان ان کے راستے میں آہنی دیواربن گئے ۔ان جوانوں نے ٥٠میٹرکے اندر
دہشتگردوں کوروکے رکھا،ساری لڑائی اس ٥٠میٹرکے اندرہی لڑی گئی ۔ اگلے دس
منٹ میں کوئیک رسپانس فورس کے وہاں پہنچنے تک ان تینوں بہادر سپوتوں نے
اپنی جوانمردی اوربہادری سے دہشتگردوں کودفاتراوررہائشی کمپاؤنڈکی طرف
بڑھنے سے روکے رکھا،دوبدولڑائی میں تینوں نے اپنی جان، جان آفریں کے
سپردکردی۔اگلے چارگھنٹوں تک جاری رہنے والے آپریشن میں سیکورٹی فورسزنے ان
تمام ١٣دہشتگردوں کوواصل جہنم کردیا۔ان دہشتگردوں کے قبضے سے راکٹ
لانچر،مختلف ساخت کا اسلحہ، ہینڈ گرنیڈز اور خودکش جیکٹیں بھی
برآمدہوئیں۔واضح رہے اس سے پہلے کوئٹہ،کامرہ اورپشاورمیں ایئربیس اورہوائی
اڈوںکونشانہ بنایاجاچکا ہے جبکہ کراچی ،پشاورایئر پورٹ اوربحریہ کے پی این
ایس کارساز پر بھی دہشتگردانہ حملے ہوچکے ہیں۔
بڈھ بیڑپشاورپراس خوفناک حملے نے کئی سوالات کھڑے کردیئے ہیں۔پہلا سوال
تویہ ہے کہ دہشت گردوں نے جس اندازمیں باقاعدہ گروپ بندی کرکے اوراپنے
اہداف مقرر کرکے کیمپ پرحملہ کیا،اس سے ظاہرہوتاہے کہ انہوں نے کیمپ کے
اندر مکمل ریکی کی ہوئی تھی اور انہیں علم تھاکہ کیمپ کی مسجدکس جانب ہے
اوررہائشی کمپاؤنڈاوردفاترکس طرف ہیں۔واقفانِ حال کے مطابق دہشتگردوں کا
ہدف پاک فضائیہ کی رہائشی کالونی اوردفاترتھے۔قوی امکان ہے کہ وہ وہاں پہنچ
کرپاک فضائیہ کے افسران کویرغمال بناناچاہتے تھے لیکن انہوں نے منصوبے کے
مطابق پہلے کیمپ کی مسجدکونشانہ بنایاتاکہ سیکورٹی فورسزکی توجہ اس جانب
مبذول ہوجائے اوروہ آسانی سے رہائشی کالونی تک پہنچ سکیں لیکن مسجد میں کی
گئی فائرنگ نے کیپٹن اسفندیار اوران کے ساتھیوں کوالرٹ کردیااوروہ رہائشی
کالونی کی طرف بڑھنے والے دہشتگردگروپ کے راستے میں رکاوٹ بن گئے اوراپنی
جانیں دیکر دہشتگردوں کامنصوبہ ناکام بنادیا۔
سوال یہ ہے کہ دہشتگردوں نے اس کیمپ کی ریکی کیسے کی؟کیاانہیں اندرسے کسی
کاتعاون حاصل تھا؟ یقینی طورپرحملے کیلئے منصوبہ بندی اورریکی میں کچھ وقت
تولگاہوگا تو کیا دہشت گرداسی علاقے میں ہی رہائش پذیرتھے؟انہیں یہ سہولت
کس نے فراہم کی؟ایک درجن سے زائددہشتگرداتنے حساس علاقے میں کیسے داخل
ہوئے؟دہشتگردوں کی اتنی بڑی تعداد میں یہاں موجودگی اور نقل وحرکت سے
سیکورٹی ادارے کیونکربے خبررہے؟اس طرح کے مزیدکئی سوالوں کے جواب تلاش کئے
جا رہے ہیں؟ باخبرذرائع کے مطابق واضح مطلب ہے کہ یہاں دہشتگردوں کے سہولت
کارموجودتھے۔قابل ذکرامر یہ ہے کہ پاک فوج کے ترجمان جنرل عاصم سلیم باجوہ
نے بھی جمعے کی شام میڈیابریفنگ کے دوران اسی جانب اشارہ کیاہے ۔انہوں نے
ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگوکے دوران اس حملے کوآپریشن ضربِ عضب
کاردّعمل قراردیتے ہوئے کہااگرچہ فورسزنے تمام حملہ آورمار دیے لیکن کیس
بندنہیں ہوا۔ہمیں دیکھنایہ ہوگاکہ حملہ آوروں کے سہولت کارکون تھے۔اڈے
پرسویلین ملازمین کی بڑی تعدادکام کرتی ہے،ہوسکتاہے کہ کسی نے اندرسے
اطلاعات فراہم کی ہوں کیونکہ حملہ آوروں کومسجدمیں نمازکاوقت اورراستے تک
معلوم تھے۔انہوں نے مزیدکہاکہ ہم اس معاملے کی تہہ تک جائیں گے۔
یقیناًاس معاملے کی تہہ تک جانا اشد ضروری ہے کیونکہ دہشتگردوں نے جس
اندازسے حملہ کیا،اس سے واضح ہوتاہے کہ مذکورہ حملے اوردسمبر٢٠١٤ء میں آرمی
پبلک اسکول پشاور پر ہونے والے حملے میں گہری مماثلت پائی جاتی ہے۔سانحہ
بڈھ بیربھی آرمی پبلک اسکول پرحملے کی طرح ایک منظم حملہ تھا۔ دونوں
کاروائیوں کاطریقہ کاربھی ملتا جلتا ہے ۔ دہشت گردوں نے پاک فضائیہ کی
رہائشی کالونی اور مسجدکوایک''سافٹ ٹارگٹ''سمجھ کرہدف بنایا۔یوں لگتاہے کہ
دہشتگرداس کاروائی کے ذریعے بھی سانحہ پشاورجیساخوف ودہشت کا ماحول
پیداکرناچاہتے تھے۔ مبصرین کے مطابق اس حملے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ
اگرچہ سانحہ پشاورکے بعدنیشنل ایکشن پلان کے تحت قانون نافذ کرنے والے
اداروں نے ملک بھر میں کاروائیاں کرکے دہشتگردوں کی کمرتوڑ دی ہے۔اس آپریشن
سے ایک طرف اگر دہشتگرد اورشدت پسندتنظیمیں کمزور ہوئی ہیں تودوسری طرف
حکومت ان سہولت کاروں ،ہمدردوں اور فنڈنگ کرنے والوں کے گردبھی گھیراتنگ
کیے ہوئے ہیں لیکن سانحہ بڈھ بیر سے ظاہر ہوتا ہے کہ دہشتگردتنظیمیں
کمزورضرورہوئی ہیں لیکن شہروں میں ان کے ''سلیپر سیلز '' ابھی بھی
موجودہیں۔ انہیں ابھی بھی سہولت کاروں کاتعاون حاصل ہے، اسی لیے جنرل عاصم
باجوہ نے اس معاملے کی تہہ تک جانے کاعندیہ دیا ہے۔ اس سلسلے میں
پشاوراورملک کے دوسرے شہروں میں ابھی تک کریک ڈاؤن جاری ہے ،ان سطورکے لکھے
جانے تک کچھ افغان باشندوں سمیت سو سے زائدمشتبہ افراد مختلف مقامات سے
حراست میں لیے جاچکے ہیں۔ دہشت گردوں کے سہولت کاروں کے علاوہ ان قانون
نافذ کرنے والوں کامحاسبہ بھی ضروری محسوس ہوتاہے جنہیں دہشتگردوں کی یہاں
موجودگی کاکانوں کان خبرنہیں ہوئی،یہ ان اداروں کی کھلی ناکامی ہے۔
اس حملے پیچھے کس کاہاتھ ہے ،یہ بات بھی اب کوئی رازنہیں رہی،یقینی طور
پراس حملے کے پیچھے وہی قوتیں ہیں جنہیں پاکستان میں امن ایک آنکھ نہیں
بھاتا۔نائن الیون اور افغانستان پرامریکی قبضے کے بعدامریکی قبضے کے بعد
امریکی سرپرستی میں اس خطے میں دہشتگردی ،تخریب کاری اوربدامنی کی جوآگ
بھڑکائی گئی ،اس کاسب سے زیادہ نقصان پاکستان کوہوا۔ ایک رپورٹ کے مطابق
گزشتہ ١٤برسوں کے دوران پاکستان کے لگ بھگ پچاس ہزارسے زائد شہری اس
دہشتگردی کی نذر ہوئے جن میں پانچ ہزارکاتعلق مسلح افواج سے تھاجبکہ مالی
نقصان کااندازہ ٧٠سے ٨٠/ارب ڈالر تک لگایاجاتاہے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں
کہ افغانستان اوربھارت نے باہم مل کر پاکستان میں ''دہشتگردی''کی صنعت
کوفروغ دیا۔اس سلسلے میں بھارتی ''را''اورافغان خفیہ ایجنسی''این ڈی
ایس''کاکردارکسی سے مخفی نہیں ہے۔یہ دونوں پاکستان دشمن ایجنسیاں باہم مل
کر دہشتگردوں کومالی اورلاجسٹک فراہم کرتی ہیں۔ بھارت کاافغانستان سے کوئی
تاریخی رابطہ ہے اورنہ ان کی سرحدیں آپس میں ملتی ہیں،ان کے مابین کوئی
ثقافتی تعلق ہے نہ کوئی مذہبی رشتہ ہے اس کے باوجود بھارت وہاں درجن
بھرقونصل خانے کھول کرکون سی سفات کاری کررہا ہے؟ ذرائع کے مطابق دوقونصل
خانے دراصل دہشتگردی کے اڈے ہیں جن کاہدف صرف پاکستان ہے۔کالعدم تحریک
طالبان جیسی تنظیموں کووہی سے کنٹرول کیا جاتاہے۔اس سلسلے میں بھارت
کوافغان انٹیلی جنس کی مکمل معاونت حاصل ہے اوریہ سب کچھ امریکی چھتری تلے
ہورہاہے،دہشتگردوں کے اس نیٹ ورک کو واشنگٹن کی خاموش حمائت حاصل ہے۔
پاکستان ماضی میں بھی اس سلسلے میں افغانستان سے متعددبارمطالبہ کرچکاہے کہ
وہ اس سلسلے کوبند کرے۔سانحہ پشاورکے بعد بھی پاکستان کی عسکری قیادت نے
کابل جاکرافغان قیادت کواس دہشتگردی کے ٹھوس شواہدپیش کئے تھے لیکن افغان
حکومت ہمیشہ ٹال مٹول سے کام لیتی ہے یاپھرپاکستان پر افغانستان میں مداخلت
کارٹارٹایاالزام لگادیتی ہے۔ابھی سانحہ بڈھ بیر کے بعدبھی پاک فوج کے
ترجمان نے واضح الفاظ میں کہاہے کہ ابتدائی تحقیقات میں ٹھوس شواہدملے ہیں
کہ پشاورمیں فضائیہ کیمپ پرحملے کی منصوبہ بندی افغانستان میں کی گئی ۔جنرل
باجوہ کامیڈیابریفنگ کے دوران کہناتھاکہ آپریشن ضربِ عضب کے بعدملک میں امن
قائم ہواہے۔جس سے پاکستان اوربیرونِ ملک ہمارے دشمنوں کوبڑی تکلیف ہے۔بڈھ
بیرحملے کی منصوبہ بندی بھی افغانستان میں کی گئی ۔دہشتگردوں کوٹریننگ بھی
وہی دی گئی اورانہیں کنٹرول بھی وہی سے کیا جارہاتھا۔حملہ آورافغانستان سے
ہی آئے تھے۔انہوں نے مزیدکہاکہ ہم نے افغانستان میں حملے کی منصوبہ بندی کی
بات ٹھوس بنیادپرکی ہے۔
اس سلسلے میں انٹیلی جنس رپورٹس سے حاصل ہونے والی معلومات بھی ہیں اورکچھ
فون کالز بھی ٹریس کی گئی ہیں۔علاوہ ازیں دہشتگردوں کے فون بھی قبضے میں
لیے جاچکے ہیں جن کافرانزک ماہرین معائنہ کرچکے ہیں۔ذرائع کے مطابق پاک فوج
کے ترجمان کی ان باتوں کوان تناظرمیں دیکھناچاہئے کہ سانحہ پشاور کے بعدملک
کودہشتگردی سے پاک کرنے کیلئے جب نیشنل ایکشن پلان تیارکیاگیاتواس ایکشن کے
تحت پاکستان دشمن قوتوں کے گردگھیراتنگ کیاگیا خصوصاًکراچی اوربلوچستان میں
''را''کے ایجنٹوں پرسخت ہاتھ ڈالاگیا جس کے اثرات دہلی تک بھی محسوس کیے
گئے۔ان کاروائیوں کے نتیجے میں پاکستان میں جہاں مجموعی طورپرامن بحال
ہواوہیں خصوصاًکراچی اوربلوچستان کی امن وامان کی صورتحال میں بڑی
خوشگوراتبدیلی سامنے آئی ہے جس کے عملی مظاہرعیدالفطراورعیدالاضحٰی کے
مواقع پردیکھنے میں آئے ہیں۔
افغانستان اور بھارت اوردیگرپاکستان دشمن طاقتوں کے ہاتھوں میں کھیلنے والے
ملک دشمن عناصرپرکڑی گرفت کے نتیجے میں ایک طرف کراچی کی روشنیاں لوٹ رہی
ہیں اوردوسری طرف طرف بلوچستاان میں باغی عناصر ریاست سے صلح کرکے پاکستان
واپس لوٹنے کی خواہش کااظہارکررہے ہیں۔یہ مثبت تبدیلی خاص طورپربھارت کیلئے
سخت پریشانی کاباعث بنی ہوئی ہے۔ پاکستان میں امن کاقیام پاک چائنا اقتصادی
کوریڈورکی تعمیرکی طرف پہلاقدم ہے اوراسی بات نے بھارت اوراس کے سرپرستوں
کی نیندیں غارت کی ہوئی ہیں۔اسی جھنجھلاہٹ کے باعث بھارت کبھی سرحد پر
فائرنگ شروع کردیتاہے اورکبھی بلوچستان میں گڑبڑ کی کوشش کرتاہے۔سانحہ بڈ ھ
بیڑ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
پاکستانی قیادت نے اب فیصلہ کیاہے کہ اس سلسلے میں افغان قیادت سے دوٹوک
بات کی جائے گی۔ اس سے پہلے سانحہ پشاورکے فوراً بعد آرمی چیف جنرل راحیل
شریف خودکابل گئے تھے اورانہوں نے افغان حکام پرزوردیاتھاکہ وہ افغانستان
میں موجودکالعدم ٹی ٹی پی کے نیٹ ورک کے خلاف فیصلہ کن کاروائی کریں ۔اس
موقع پرافغان صدراشرف غنی نے پاکستان کو یقین دلایاتھاکہ افغان سرزمین کو
پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیاجائے گا۔واقفانِ حال کے مطابق افغان
صدرٹی ٹی پی کے سربراہ ملافضل اللہ اوراس کے دیگر ساتھیوں کے خلاف کاروائی
کیلئے آمادہ ہوگئے تھے لیکن اس موقع پربھارت نے اپنے مہرے آگے بڑھائے
اوربھارت نوازعبداللہ عبداللہ اس کاروائی میں رکاوٹ بن گئے ۔ دوسری طرف
امریکی دباؤ نے بھی اپناکام دکھایا کیونکہ امریکاکوبھی یہ منظورنہیں تھاکہ
پاکستان میں دہشتگردی کرنے والے عناصرکے خلاف افغان حکومت کوئی کاروائی کرے
لہندا افغان صدرکی تمام تریقین دہانیوں کے باوجودتاحال ملافضل اللہ اوراس
کے ساتھیوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی گئی اورنہ ہی انہیں پاکستان کے
حوالے کیا گیا۔بھارت اورامریکاکی مشترکہ ''محنت'' کانتیجہ یہ نکلا کہ آج کل
اشرف غنی بھی بھارتی زبان بولنے لگے ہیں۔
ذرائع کے مطابق بھارت کے اشارے پرعبداللہ عبداللہ اورافغان ایجنسی'' این ڈی
ایس'' اشرف غنی کے کان بھررہی ہے کہ افغانستان میں طالبان کے حملوں میں
تیزی پاکستان کی مرضی سے آئی ہے لہندااب اشرف غنی پاکستان سے کچھ اکھڑے
اکھڑے سے ہیں۔ فضل اللہ اینڈکمپنی کے خلاف کاروائی توکیاہوتی الٹا انہیں
افغانستان میں تحفظ حاصل ہے۔ اگرچہ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے سانحہ بڈھ بیڑ
کے بعداپنی پہلی پریس بریفنگ میں واضح الفاظ میں کہاکہ ہمیں امیدہے کہ اس
حملے میں افغان حکومت کاعمل دخل نہیں ہوگا لیکن پاکستانی قیادت نے فیصلہ
کرلیاہے کہ ملافضل اللہ اوراس کے ساتھیوں کے خلاف فیصلہ کن کاروائی کیلئے
افغان حکومت پرسیاسی اورعسکری دباؤبڑھایاجائے۔پاکستانی قیادت اس نتیجے
پرپہنچی ہے کہ جس طرح پاکستانی شہروں سے دہشتگردوں کے ''سلیپرسیلز''کامکمل
صفایاضروری ہے بالکل اسی طرح افغانستان کے اندر ٹی ٹی پی کے بنیادی ڈھانچے
کوختم کرنااز حد ضروری ہے۔جب تک ٹی ٹی پی کا بنیادی ڈھانچہ ختم نہیں
کیاجاتا ،سانحہ پشاوراوربڈھ بیڑجیسے سانحات ہوتے رہیں گے۔
پاکستان کی سیاسی وعسکری قیادت نے سانحہ بڈھ بیڑکے معالے میں اکٹھے کئے گئے
شواہدافغانستان کے حوالے کرنے کافیصلہ کیاہے۔یہ دستاویزی شواہد لیکر
پاکستانی حکام بہت جلدکابل جائیں گے ۔ اب افغان حکومت پردباؤ ڈالاجائے گا
اوراگراب بھی افغان حکومت نے ٹال مٹول سے کام لیاتوپھرفوری طورپر
دیگرآپشنزپرعمل درآمدکیاجائے گااوران میں ایک آپشن ملافضل اللہ اوراس کے
نیٹ ورک کے دیگر ساتھیوں کوڈرون کے ذریعے نشانہ بنایاجائے گا۔پاکستان اب
اپنے ڈرونزکامیابی کے ساتھ استعمال کر رہاہے ۔یہ فیصلہ پیرکے روزاسلام آباد
میں وزیر اعظم نوازشریف کی زیرصدارت ہونے والے ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں
کیاگیا جس میں وفاقی وزیردفاع خواجہ آصف ،وفاقی وزیرداخلہ چوہدری
نثار،وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈارکے علاوہ جنرل راحیل شریف، ڈائریکٹرجنرل
ملٹری آپریشنزبرانچ میجرجنرل عامر ریاض،ڈی جی ملٹری انٹیلی جنس میجرجنرل
ندیم ذکی اور دیگراعلیٰ حکام نے شرکت کی۔اجلاس میں سانحہ بڈھ بیڑ کے
شواہدافغانستان کے حوالے کرنے کے علاوہ پاک افغان سرحد پر دہشتگردوں کی
آمدورفت روکنے کیلئے اہم فیصلے بھی کئے گئے ہیں۔ ان تمام عناصرکے خلاف
فیصلہ کن کاروائی کرنے کاوقت آن پہنچاہے جوپاکستانی مفادات کے خلاف
امریکا،بھارت اورایران جیسی طاقتوں کیلئے مہروں کاکام کرتے ہیں۔یہ عناصربھی
دہشتگردوں کے ''سلیپرسیلز''کے طورپر استعمال ہو سکتے ہیں اورضروری نہیں کہ
یہ عناصر مذہبی ہی ہوں۔ملک میں امن کی خاطر پاکستان دشمن طاقتوں کے ایجنٹوں
کاہرسطح پرناطقہ بندکرناضروری ہے۔
ادھرافغانستان کے شمال مشرقی شہر قندوزپرطالبان نے ملاعبدالسلام اخوندکی
سربراہی میں قبضہ کرکے اقوام عالم کوواضح پیغام دیاہے کہ طالبان نہ صرف
متحدہیں بلکہ پہلے سے کہیں زیادہ طاقتورہیں۔شنیدہے کہ قندوزمیں پہلی مرتبہ
شمالی اتحادکے ایک ''وارلیڈر''میرعالم خان نے طالبان کی بڑھتی ہوئی طاقت
کودیکھتے ہوئے ان کے راستے سے ہٹ جانے میں اپنی عافیت جانی۔ ٢٠١٣ء میں
افغان فورسز کی جانب سے علاقے کی سکیورٹی سنبھالنے سے قبل اس علاقے میں
جرمن افواج تعینات تھیں۔ یہ شہر ہمیشہ سے طالبان کے لیے علامتی اہمیت رکھتا
ہے کیونکہ٢٠٠١ء سے پہلے یہ شمالی افغانستان میں طالبان کا اہم گڑھ
تھا۔قندوزکی اہمیت اس لئے بہت اہم ہے کہ یہ زمینی راستے کے ذریعے جنوب میں
کابل،مغرب میں مزارشریف اورشمال میں تاجکستان سے جاملتا ہے ۔ یقینایہ
ہاکستان کی ایک سفارتی کامیابی ہے جسے بالآخراقوام عالم نے تسلیم کرتے ہوئے
جنرل اسمبلی میں افغانستان کی بگڑتی ہوئی صورتحال پرعالمی سربراہان کے
منعقدہ اجلاس میں بھارت کوشامل نہیں کیاگیاجس پرپورے بھارت میں صفِ ماتم
بچھ گئی ہے۔ |