حج کے مبارک موقع پر سانحہ منیٰ
نے قیامت صغریٰ کے مناظر پیش کر دیئے، اتنے مقدس اور عظیم اجتماع پر اس قدر
بڑے پیمانے پر اجتماعی جانی نقصان شاید ہماری تاریخ میں پہلے کبھی نہیں
ہوا،تاحال شہداءکی اصل تعداد اور اس سانحہ میں زخمیوں ہونےوالے کی شناخت
سامنے نہیں آپائی جبکہ الیکڑونک اور پرنت میڈیا میںتکرار کے ساتھ گمشدہ
افراد کی اصطلاح نے ہزاروں گھرانوں کو رنج والم کی تصویر بنایا ہوا ہے ،لوگ
اپنے پیاروں کی خیریت کیلئے فکر مند اور پریشان ہیں۔
ایک معروف پاکستانی نیوز چینل کے مطابق سانحہ منیٰ میں شہید پاکستانی حجاج
کی تعداد 36 ہوگئی ہے ، جس کی تصدیق کرتے ہوئے وزارت مذہبی امور نے اپنی
ویب سائٹ پر شہداءکے نام بھی جاری کردیئے، وزیرمذہبی امورکے مطابق منیٰ میں
شہید ہونے والے پاکستانی حجاج کی تعداد 35 ہے جب کہ 85 حاجی ایسے ہیں جو
ہنوز لاپتہ ہیں ،وفاقی وزیر کے مطابق منیٰ میں زخمی ہونے والے حجاج کرام کو
سعودی حکام نے دیگر شہروں میں منتقل کردیا ہے ،دوسری جانب برطانوی اخبار دی
گارجین نے دعویٰ کیا ہے کہ سانحہ منی میں سب سے زیادہ شہادتیں پاکستانیوں
کی ہوئی ہیں جو کہ 236 ہیں ،جبکہ اس سانحہ میں 131 ایرانی اور 87 مراکشی
حجاج کرام بھی شہید ہوئے ہیں،تاہم پاکستانی وزارت مذہبی امور برطانوی اخبار
کی خبر کی تردید کرتی ہے، واضح رہے کہ حج کے موقع پر بھگدڑ مچنے سے ہلاکتوں
کا یہ پہلا واقعہ نہیں بلکہ اس سے قبل بھی کئی مواقع پر اس طرح کے واقعات
رونما ہو چکے ہیں، اس طرح کا آخری سب سے بڑا واقعہ جنوری 2006 میں رونما
ہوا تھا جب رمی کے دوران بھگدڑ مچنے سے 364 حاجی جاں بحق ہو گئے تھے جبکہ
1990 میں اس طرز کا سب سے بدترین واقعہ رونما ہوا جب ایک سرنگ میں بھگدڑ
مچنے سے 1426 عازمین جان گنوا بیٹھے تھے جن میں سے اکثریت ایشیائی باشندوں
کی تھی۔
منیٰ میں شہید ہونے والے پاکستانی حجاج کی اصل تعداد تو بہت جلد سامنے
آجائیں گی لیکن سردست توجہ طلب مسئلہ یہ ہے کہ اس المناک سانحے کی اصل
وجوہات اور عوامل کیا ہیں، الیکڑونک اور پرنٹ میڈیا منیٰ میںاس حادثے کی
بہت ساری وجو ہات بیان کی جارہی ہیں ،لیکن شوشل میڈیا پر موجودعرب شہزادے
کی گاڑی سے شیطان کو کنکریاں مارنے کی مبینہ وڈیوز اور عرب دنیا کے اخبارات
میں شائع ہونے والی خبریں اس سانحے کے جس پہلو کی نشاندہی کررہے ہیں اُسے
ایران اور سعودی عرب مخاصمت کا شاخشانہ قرار دے کر صرف نظر نہیں کیا
جاسکتا۔
ایرانی ذرائع ابلاغ میں سعودی حکام کی بد انتظامی اور لالچ کو اس سانحہ کی
اصل وجہ قرار دیتے ہوئے تنقید کا سلسلہ جاری ہے ،ایرانی حکومت عالمی سطح پر
منیٰ میں پیش آنے والے واقعہ پر سعودی حکومت سے تحقیقات کروانے کا مطالبہ
کررہی ہے، ایرانی پراسیکیوٹر جنرل کہتے ہیں کہ ایران کوشش کرے گا کہ سعودی
شاہی خاندان کے جرائم کے خلاف بین الاقوامی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے،
جبکہ ملک کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کا کہتے ہیں کہ الزام تراشیاں
کرنے کے بجائے سعودی حکومت سے اس واقعہ کی ذمہ داری قبول کرکے متاثرہ
خاندانوں سے معافی مانگے، سعودی عرب کے وزیرِ خارجہ عادل الجبیر کا کہنا ہے
کہ ایران ایک حادثے پر سیاست کر رہا ہے،ان کا یہ بھی کہنا تھا میں امید
کرتا ہوں کہ ایرانی قیادت ہلاک ہونے والوں کی خاطر عقلمندی کا مظاہرہ کرتے
ہوے تحقیقات کے نتائج آنے کا انتظار کرے گی، دوسری جانب سعودی حکام نے اس
حادثے کی ذمہ داری عازمین حج کی بدنظمی پر ڈال کر اپنی جان چھڑانے کی کوشش
کی ہے، ایک سعودی وزیر نے ایرانی عازمین کو اس حادثے کا ذمے دار قرار دیتے
ہوئے کہا کہ انہوں نے حج کے قوانین پر عمل درآمد نہیں کیا۔
امر واقعہ یہ ہے کہ ایکدوسرے پر الزامات کی بھرمار سعودی عرب اور اہل ایران
کی ناراضگی کی وجہ سے قابل فہم ہے، مگر اس حادثے کی اصل اور بنیادی پہلوسے
جان بوجھ کر اعتراض برتا جارہا ہے،جبکہ مقدس شہر مکہ میں حج کے موقع پر
شیطان کو کنکریاں مارنے کے دوران منیٰ میں پیش آنے والے حادثے کے متعلق
نہایت افسوسناک حقائق سامنے آ رہے ہیں، بین الاقوامی میڈیا کے مطابق عینی
شاہدین نے واقعہ کا ذمے دار سعودی حکام کو قرار دے دیا ہے اور عینی شاہدین
کی جانب سے بتائی گئی تفصیلات سعودی موقف سے یکسر مختلف ہیں، لیبیا کے 45
سالہ احمد ابو بکر کا کہنا ہے وہاں بہت ہجوم تھا، پولیس نے عازمین کیلئے
تمام داخلی اور خارجی راستے بند کر دیے تھے،حادثے کے بعد ہم نے پولیس کی
مدد سے متاثرین کو ہٹایا لیکن اس موقع پر موجود پولیس واضح طور پر ناتجربہ
کار محسوس ہوئی۔
مقدس مقامات کی ازسرنو تعمیرات کے ایک بڑے ناقد کا کہنا ہے کہ بڑی تعداد
میں ہونے کے باوجود پولیس کی صحیح طریقے سے تربیت نہیں کی گئی اور زبان پر
مہارت نہ ہونے کے سبب انہیں بڑی تعداد میں غیر ملکی عازمین سے رابطے میں
مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ مکہ کی اسلامی ورثہ ریسرچ فاو_¿نڈیشن کے
شریک بانی عرفان ال الاوی نے بتایاکہ انہیں یہ تک نہیں معلوم کے لوگوں سے
بات کیسے کرنی ہے، یہ عوام کو قابو نہیں کر پا رہے تھے، موجودہ واقعہ کے
متعلق بعض مقامی شہریوں کا کہنا ہے کہ رواں برس سے قبل سکیورٹی اور حاجیوں
کی رہنمائی کے لیے تعینات زیادہ تر عملہ یمنی ہوتا تھا لیکن اس برس بوجوہ
انہیں سبکدوش کر دیا گیا اور ان کی جگہ ہنگامی طور پر بعض افریقی ممالک سے
آئے افراد کو نہایت مختصر اور نامکمل تربیت کے بعد تعینات کر دیا گیا، یہ
ناتجربہ کار عملہ پہلی آزمائش ہی میں ناکام ہوگیا اور اس قدر بھیانک حادثے
کا سبب بنا۔
بہرحال جو بھی کچھ ہوا نہایت ہی افسوسناک ہے لیکن اس سے بھی زیادہ المناک
بات سعودی حکام کی شہدائے منیٰ کی لاشوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک اور بے
حرمت ہے ایسا تو انسان جانوروں کے ساتھ بھی نہیں کرتا،دوسری طرف سعودی مفتی
اعظم کا یہ کہنا کر کہ ایسا حادثہ روکنا انسانی اختیار سے باہر تھا،اس
اندوہناک سانحہ پر حکومتی لاپروائی اور کوتاہی کو چھپانے کی کوشش ہے ،ہمارے
خیال میں اس عظیم سانحہ کے ذمہ داروں کو مشیت ایزدی کے پردے میں چھپانے کی
کوشش دراصل جرم پر پردہ ڈالنے کے مترادف ہوگی،یہ درست ہے کہ اس سانحہ میں
جان سے گزرنے والے وہ خوش نصیب تھے جنھوں نے چند ہی ساعتوں میں رتبہ شہادت
حاصل کرلیا اور لبیک اللہھم لبیک کی صدائیں بلند کرتے ہوئے اپنے ربّ کی
بارگاہ میں حاضر ہوگئے لیکن اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ کہ ایسے المناک
حادثات کی روک تھام کیلئے موثر عملی انتظامات نہ کیئے جائیں اور اسے مشیت
ایزدی قرار دے کر صرف نظر کردیا جائے، کیونکہ منشائے الہٰی یہی ہے کہ اپنی
زندگی کی حفاظت میں کوئی دقیقہ فردگذاشت نہ چھوڑا جائے ،لہٰذا بہت ضروری ہے
کہ سانحہ منیٰ کی غیرجانبدارنہ تحقیقات کرائی جائیں تاکہ مستقبل میں اس قسم
کے واقعات کا سدباب کیاجا سکے اور آئندہ نا حق انسانی جانیں ضائع ہونے سے
بچ سکیں۔
|