مقامی حکومتوں کے الیکشن میں
سیاسی جماعتوں کی دبنگ انٹری سے عوامی شکوک و شبہات دور ہونگے!
بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے ابھی بھی رائے عامہ واضح طورپر
سامنے نہیں آئی لوگوں میں تاحال شکوک شبہات ہیں اور کیوں نہ ہوں اس سےپہلے
بھی تو دوبار ایک ایسے موقع پر الیکشن ملتوی ہوئے تھے جب کاغذات نامزدگی
بھی جمع ہوگئے تھے اور امیدواروں کو نشانات کی الاٹ منٹ ہوناتھی۔ وجہ کوئی
بھی الیکشن کے باربار ملتوی ہونے اور پھر ایک لمبے عرضہ تک التوا در التوا
کا شکار ہونے سے عوام کو سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔ اسلام آباد کا شیڈول ایک
بارپھر واپس ہوا جس کی وجہ بھی درست ہے۔ مگر اس سے عوامی خدشات اور بھی
بڑھے کہ شاید سندھ اور پنجاب میں بھی یہ الیکشن ایک بار پھر ملتوی نہ
ہوجائیں۔ حکومتی ترجمان اورکابینہ کے ایک اہم رکن وفاقی وزیر عابد شیر علی
نے تو اس کا برملا اظہار بھی کیا کہ محرم الحرام کے بعد الیکشن کراونے سے
کوئی قیامت نہیں آجائے گی۔ بھلا ہو اعلیٰ عدالتوں کا جنہوں نے مسلسل
التواءکا شکار مقامی حکومتوں کے قیام کے لیے ملک میں بلدیاتی انتخابات کے
انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے عوام کے مفاد میں کئی اہم فیصلے کئے کہ جس کی
روشنی میں یہ الیکشن ہونے جارہے ہیں۔ مگرحکومت کی اس بارے دلچسپی
اورسنجیدگی ابھی بھی نظرنہیں آرہی اور اس میں الیکشن کمیشن بھی حکومت کا ہم
خیال نظر آتا پے۔ جبھی تو سندھ کے حوالے عدالت کو خط لکھ ڈالا۔ حکومتیں
کیوں مقامی حکومتوں کے قیام کے لیے مخلص نہیں اس کی تو وجہ نظر آتی ہے
بدقستی سےحکمران ٹولہ اس کو اپنا متبادل سمجھتا ہے اور اقتدار کی تقیسم اور
وہ بھی گراس روٹ لیول پرمنتقلی کو ہماری حکومتیں اپنا شریک اختیاراور
اقتدارگلی محلے کے کونسلروں کو دینا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔دراصل ایسا جو
بھی سوچتا اور سمجھتا ہے وہ ذہینی طور پرپسماندہ ہے۔ مقامی حکومتوں کے قیام
اوراس مقصدکے لیے الیکشن کے انعقاد کو آئینی تحفظ حاصل ہے۔ہماری حکومتوں نے
اس سے انکار کرکے مسلسل آئین کی خلاف ورزی کی ہے۔ اور اعلیٰ عدالت کے
فیصلوں کو نہ مان کر توہین بھی کی ہے۔بہرحال مرحلہ وار شیڈول کے آنے کے
بعداس پر عملدرآمدبھی ہورہا ہے۔مگریہ بھی سچ ہے کہ عوام پھر بھی اس حوالے
یقین کے ساتھ نہیں ہیں کہ الیکشن ہونگے؟
محلے کی چوپال سے لے کر اقتدار کے ایوانوں تک یہی بحث ہوتی کہ آیا الیکشن
ہونگے یا نہیں اور اس کے بعد خاموشی سی ہوجاتی ہے۔غیریقینی صورت حال اس لیے
بھی ہے کہ تاحال سیاسی جماعتوں نے مقامی حکومتوں کے الیکشن میں حصہ لینے کے
اپنی ترجیحات طے نہیں کیں،اس کو پہلی ترجیح قرار نہیں دیااس کے سیاسی
ایجنڈا پیش نہیں کیا،سیاسی پارٹیوں کی طرف سے بھرپور طریقہ سے انٹری ابھی
نہیں ہوئی۔یہ بالکل ایسے ہے جب کسی فلم میں اچانک شائقین کا ہیرو دبنگ
انٹری ڈالتا ہے تو وہ بے اختیار زور سے تالیاں بجاتے ہی اور خوشی سے منہ سے
سیٹیاں نکالتے ہیں۔اس الیکشن میں بھی ابھی تک کسی سطح پر کسی کی طرف سے
دبنگ انٹری نہیں ڈالی گئی۔عوامی دلچسپی کو بڑھانے کی خاطر بھی کچھ نہیں کیا
جارہامقامی حکومتوں کے انتخابات میں لوگوں کی دلچسپی بھی سیاسی پارٹیوں کی
دلچسپی سے جڑی ہوئی ہے کیونکہ اس بار یہ الیکشن پارٹی بنیادوں پر
ہورہے۔سیاسی پارٹیوں کے امیدواراپنی پارٹی کے نشان الیکشن لڑیں گے۔ یہ بات
دلچسپی سے خالی نہیں کہ پنجاب کے ضلع وہاڑی میں جہاں پہلے مرحلہ کے تحت
الیکشن ہورہے ہیں وہاں امیدواروں کو نشانات کی الاٹ منٹ ہوچکی ہے مگر یہاں
سے کسی ایک امیدوار کوبھی پاکستان مسلم لیگ کا نشان نہیں دیا گیا کیونکہ
PML N نے کسی کو بھی پارٹی ٹکٹ جاری نہیں کیا اب ایسی صورت حال کیوں پیدا
ہوئی اس کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ حکمران جماعت کی اس بارے دل چسپ
ہی نہیں تھی اور ضلع کو اوپن چھوڑ دیا گیا ۔ مقامی گروپنگ کو ختم کرانے کی
کوشش نہیں کی گئی اور مسلم لیگ ن کے تین سے زائد گروپ آزاد حیثیت میں
الیکشن لڑرہے ہیں ۔ الیکشن کا سب سے بڑا اسٹیک ہولڈر ”ووٹر کو موبلائز کرنے
کی ضرورت ہے“الیکشن کے پراسس کے بارے میں عوام کو کچھ زیادہ آگاہی نہیں
ہے۔الیکشن کے انعقاد میں سب سے زیادہ اہم کردار ریٹرننگ آفیسران کا
ہے۔ریٹرننگ افسران کے بارے لوگوں کو معلومات نہیں ان کے دفاتر عوام کی آسان
پہنچ میں نہیںہیں۔امیدواران کی سہولت کاری ان کی معاونت کے لیے کوئی ڈسک
نہیں بنائے گئے کچھ شہروں میں غیرسرکاری تنظیموں نے یہ کام کرنے کی کوشش کی
ہے مگر انتظامیہ ان کے ساتھ تعاون کے بجائے مشکلات پیدا کرتیں ہیں نہ خود
سے کچھ کرتی ہیں اور نہ کسی اور کو کچھ کرنے دیاجاتاہے۔اب تک کی اطلاعات کے
مطابق سابقہ شیڈول(منسوخ شدہ)کے مقابلے میںامیدواران کے نمبرز پچاس فیصد سے
بھی کم ہیں۔اورجینڈر کافرق تو بہت زیادہ ہے یعنی چیئرمین ،وائس چیئرمین اور
جنرل سیٹ پر خواتین امیدواروں کی اب تک کی تعداد،پانچ فیصدسے بھی کم ہے ۔اس
الیکشن میں خواتین کی بھر شمولیت کا کوئی امکان نہیں ہے۔دوسرے مرحلہ میں
مخصوص نشتوں کے الیکشن کا شیڈول آئے گا۔اس میں بھی یہ بات طے شدہ ہے کہ
خواتین کو مرکزی دھارے میں نہیں آنے دیا جائے۔اگر خواتین کی نشستوں پر
الیکشن براہ راست نہیں کرانے تھے تو بھی کم از کم یہ لازمی قرار دیا جاتا
کہ سیاسی جماعتیں چیئرمین اوروائس چیئرمین کے لیے کم ا ز کم 33 فیصد
امیدوارخواتین کو لازمی طور پر ٹکٹ دیں۔مگر ایسا نہیں کیا گیا- |