سانحہ منیٰ ……کچھ قابل غور پہلو

سم اﷲ الرحمن الرحیم

مولانا محمد حنیف جالندھری جنرل سیکرٹری وفاق المدارس العربیہ پاکستان

حج کے دوران منیٰ میں پیش آنے والے افسوسناک سانحہ پر پوراعالمِ اسلام سوگوار ہے۔یہ سانحہ اپنی نوعیت کا المناک ترین حادثہ ہے۔اس حادثے میں شہادت کا رتبہ پانے والے خوش نصیب حجاج کرام اس لحاظ سے بخت کے سکندر نکلے کہ اﷲ رب العزت نے انہیں فریضہ حج کی ادائیگی کے دوران ،احرام کی حالت میں ،مقدس ترین مقام پر اپنے وصال کے لیے منتخب فرمایا۔یہ ایک ایسی خوش بختی ہے جس پر ہر کسی کو رشک آتا ہے۔حدیث شریف میں آتا ہے جس شخص کو جس حالت میں موت آتی ہے اس کو اسی حالت میں اٹھایاجاتا ہے۔ اس حدیث مبارکہ کے لحاظ سے احرام کی حالت میں اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کرنے والے ان سعادت مند لوگوں کو قیامت کے دن بھی یقینا احرام کی حالت میں اٹھایا جائے گا اور اﷲ رب العزت کی طرف سے ان کے لیے خصوصی اعزاز واکرام والا معاملہ ہو گا۔

اس حادثے میں جان سے گزر جانے والوں کی خوش نصیبی اپنی جگہ لیکن اس کے باوجود اس حادثے کے اسباب ووجوہات کی منصفانہ تحقیقات لازم ہیں ۔اس حادثے کے بارے میں اس بات کا تعین کرنا از حد ضروری ہے کہ آخر ایسا ہوا کیوں ؟

ہمیں اﷲ رب العزت کی رحمت سے مدتوں سے حج بیت اﷲ کی سعادت کے لیے بار بار جانے کی توفیق ملتی رہی۔اﷲ رب العزت نے اْس دور میں بھی بلایا جب جمرات میں جگہ کی تنگی اور بدنظمی کی وجہ سے تقریبا ً ہر سال اموات ہوتی رہتی تھیں اورحج کا سب سے مشکل مرحلہ رمی ہی ہوتی تھی اور پھر ہمارے دیکھتے دیکھتے جمرات کے مقام پر کثیر المنزلہ عمارتیں کھڑی ہوئیں اور کچھ عرصہ پہلے اس جگہ کی جو صورتحال تھی وہ یکسر بدل کر رہ گئی۔یوں تو حجاج کرام کی خدمت اور حج انتظامات کے لیے سعودی حکومت کی جملہ مساعی قابلِ قدر ہیں،ذرا دیکھیے تو کس طرح حرم شریف کی توسیع کی گئی ،کس طرح صفاومروۃ کی کثیر المنزلہ عمارت تعمیر ہوئی ؟کس طرح حاجیو ں کو سہولیا ت کی فراہمی کے لیے بے دریغ پیسہ لٹایا گیا اور حاجیوں کی خدمت کے لیے بجٹ کوکسی قسم کی حدود وقیود کا پابند نہیں کیا جاتا۔اب حجاج کرام کی سہولت کے لیے جدہ سے مکہ اور مکہ سے مدینہ منورہ تک ٹرین سروس شروع کی جارہی ہے ۔بدلتے حالات کے ساتھ ساتھ حجاج کرام کو ہر ممکن سہولت مہیا کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہے جس پر خادم الحرمین الشریفین پوری قوم کی جانب سے شکریہ کے مستحق ہیں لیکن خاص طور پر جمرات میں حادثات سے بچنے کے لیے جو انتظامات کیے گئے وہ ہر اس شخص کے سامنے ہیں جو موجودہ انتظامات اور سابقہ صورتحال کا عینی شاہد ہے۔ حج انتظامات سے وابستہ اہم ذمہ داران کے بقول جمرات پر ہونے والے حادثات کی روک تھام کے لیے طویل عرصے تک سوچ وبچار ہوتی رہی ،مشاور ت کا عمل جاری رہا ،اس مشاورتی عمل میں اہم حکومتی زعمائء بھی شامل تھے اور دنیا بھر کے ماہرین تعمیرات کی خدمات بھی حاصل کی گئیں ،اس سارے عمل کو خادم الحرمین الشریفین کی ذاتی دلچسپی اور توجہ حاصل تھی اس لیے اس پر اٹھنے والے بھاری اخراجات کی کوئی فکر نہ تھی،چونکہ یہ ایک دینی اور شرعی معاملہ تھا اس لیے اس میں علماء کرام اور مفتیان عظام کی رہنمائی ازحد ضروری تھی جس کا قدم قدم پر خیال رکھا گیا،صرف وقتی منصوبہ نہیں بنا بلکہ برسوں بعد کے حالات اور ضروریات کو سامنے رکھا گیا اور بالآخر حسنِ تعمیر اور حسنِ انتظام کا ایک ایسا شاہکار سامنے آیاجس پر ہر کوئی عش عش کر اٹھا ،لوگوں نے سکھ کا سانس لیا ،دنیا بھر سے حج کے لیے آنے والے مطمئن ہو گئے کہ ہر سال حج کے موقع پر جو کھٹکا لگا رہتا تھا کہ رمی کے عمل کے دوران کوئی حادثہ نہ رونما ہو جائے اس سے اﷲ رب العزت نے محفوظ فرما لیا۔ تقریبا گزشتہ دس پندرہ سالوں کے دوران منیٰ میں کوئی حادثہ رونما نہیں ہوا کیونکہ وہاں کثیر المنزلہ عمارت ،انڈر پاس ،کثیر الجہتی راستے تعمیر کر دئیے گئے ،دم گھٹنے سے بچانے کے لیے ہیوی ڈیوٹی ایگزاسٹ فین لگائے گئے اور انسانی بس میں جس قدر بندوبست ممکن تھا وہ کر لیا گیا اور پھرصرف اسی پر اکتفاء نہیں کیا گیا بلکہ ہر سال حج کے موقع پرپولیس اور انتظامی اہلکاروں پر مشتمل بھاری نفری تعینات کی جاتی ہے جو مختلف راستوں میں ہجوم کے بہاؤ میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں آنے دیتی ،مختلف رفاہی اداروں کے رضاکار ڈیوٹیاں سرانجام دیتے ہیں ،رمی سے پہلے لوگوں کو باقاعدہ اوقات بتا دئیے جاتے ہیں۔ہر ایک مکتب میں اقامت پذیر لوگوں کو آنے اور جانے کے راستوں کے بارے میں رہنمائی مہیا کی جاتی ہے۔

یہ سارے انتظامات گزشتہ کئی برسوں سے ہو رہے ہیں ظاہر ہے کہ اس سال بھی عمارتیں بھی وہی تھیں ،انتظامات بھی ویسے ہی تھے پھر آخر یہ حادثہ کیوں پیش آیا ؟ اس سوال پر ہر جگہ بحث جاری ہے۔اس حوالے سے خادم الحرمین الشریفین نے فوری تحقیقات کا اعلان کردیا امید ہے کہ ان تحقیقات کے نتیجے میں صحیح صورتحال سامنے آئی گی ،اس حادثے کے اسباب ووجوہات واضح ہوں گی اور مستقبل میں اس کی روک تھام کے لیے بھی تجاویز پیش کی جائیں گی اس لیے ہمیں ان تحقیقات کا نہ صرف یہ کہ انتظار کرناچاہیے اس کے بعد ہی کوئی حتمی بات کہی جاسکے گی۔ جیسا کہ کرین حادثے کے بعد فوری طور پر سعودی حکومت کی جانب سے جس ذمہ داری ،سنجیدگی اور مستعدی کا مظاہرہ کیا گیا وہ ہمارے سامنے ہے ۔خادم الحرمین الشریفین فوری طورپر جائے حادثہ پہنچے ،جنازوں کو کندھا دیا ،لوگوں کے زخموں اور دکھی دلوں پر مرہم رکھا ،بن لادن کمپنی کو بَین کیااور شہداء اور زخمیوں کے لیے بھاری معاوضے کا اعلان کیا جس کی اس سے قبل کہیں بھی نظیر نہیں ملتی ۔

تحقیقات کے منظر عام پر آنے سے قبل زمینی صورتحال ،ماضی کے تجربات اور اپنے اپنے ذتی مشاہدے کی بنا پر اس حوالے سے اپنی اپنی آراء کا اظہار کیا جا رہا ہے۔بعض جگہوں پر یہ کہا جا رہا ہے کہ کسی سعودی شہزادے کی آمد کے لیے راستے بند کیے گئے اورعام لوگوں کو گزرنے نہیں دیا گیا اس لیے یہ حادثہ پیش آیا۔سوال یہ ہے کہ اس حادثے سے قبل گزشتہ دس پندرہ سالوں کے دوران کیا کوئی شہزادہ منیٰ ٰ نہیں آیا ؟کیا کسی سربراہ مملکت کو حج کی سعاد ت نصیب نہیں ہوئی ؟کیا رمی کے دوران کسی قسم کی وی آئی پی موومنٹ نہیں ہوئی ؟ان سب سوالات کا جواب ظاہر ہے نفی میں نہیں دیا جا سکتا۔وی آئی پی شخصیات کی آمد معمول کا حصہ ہے اور اس کا نہ صرف یہ کہ ہر سال انتظام کیا جاتا ہے بلکہ جمرات کی کثیر المنزلہ عمارت بناتے وقت بطور خاص وی آئی پی روٹ کا خیال رکھا گیا اور ایسا بندوبست کیا گیا کہ کسی بھی وی آئی پی شخصیت کی آمد کی کسی کو کانوکان خبر تک نہیں ہوتی۔ دوسری طرف ایران سے تعلق رکھنے والے حاجیوں کی جانب سے انتظامی ہدایات کو نظر اندازکر نا ، ایک ریلے کا مخالف سمت پر چلتے ہوئے نعرے بازی کرنا اور رمی جمرات سے زیادہ مظاہرے جیسا ماحول بنانا اس حادثے کا سبب قراردیا جارہا ہے اور اس کی ویڈیوز بھی گردش کر رہی ہیں جن میں واضح طور پر نعرے بازی سنی جا سکتی ہے اور حاجیوں کے ہاتھوں میں اٹھائے ہوئے بینر ز دیکھے جاسکتے ہیں۔

ہماری دانست میں اس حادثے کے اسباب پر غور کرتے ہوئے عالمِ اسلام کے بدلتے ہوئے حالات اور عالمِ اسلام میں کچھ عرصے سے ایک منصوبے کے تحت نمایا ں کی جانے والی تفریقی سوچ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔حج کے لیے آنے والے ایک بڑے طبقے کو سعودی حکومت کے بارے میں اس حد تک بدگمان کیا جاتا ہے ،ا ن کی اس طرح سے ذہن سازی کی جاتی ہے اور انہیں سعودی حکومت سے اس درجہ متنفر کر دیا جاتا ہے کہ ان کے طرز عمل سے یوں لگتا ہے جیسے وہ حج کرنے نہیں آئے بلکہ کسی ’’جابر سلطان‘‘ کے سامنے اظہارِ بغاوت کے لیے جمع ہوئے ہیں۔میں گزشتہ کئی برسوں سے تسلسل سے حج کے لیے جاتا رہا اور حج کے دوران عالمِ اسلام میں پیش آنے والے افسوسناک واقعات کی جھلک کسی نا کسی جگہ کسی ناکسی شکل میں ضروردکھائی دی جاتی رہی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہی دیکھنے میں آتا رہا بالآخر اس سال اتنا بڑا سانحہ رونما ہو گیا۔مدینہ منورہ میں بقیع کا قبرستان ہو یا روضہ اطہر کا قرب وجوار ،رمی کا موقع ہو یا عرفات کا میدان ،حرم شریف میں طواف کا مرحلہ ہو یا کوئی اور اہم موقع کچھ لوگوں کا طرز ِعمل واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے کہ وہ عبادت کرنے یا مناسک حج کی ادائیگی والی عاجزی وانکسار ی اور یکسوئی کے بجائے گروہ بندی اور جتھہ بندی پر زیادہ توجہ مرکوز کیے ہوتے ہیں اور خو د کو ہر قاعدے ضابطے اور ہر قسم کی ہدایات سے بالاتر سمجھتے ہیں اس سوچ کی اصلاح کی ضرورت ہے ورنہ آئندہ کے لیے بھی اس قسم کے حادثات سے نہیں بچا جا سکے گا۔

یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اس حادثے کے رونما ہونے کے بعد جس طرح اس کو سیاسی رنگ دیا گیا اور اس کو جس انداز سے موضوع بحث بنایا گیا وہ قابلِ افسوس ہے خاص طور پر ایک ایسا معاملہ جو خالصتا ً عالم ِ اسلام کا مذہبی اور داخلی معاملہ ہے اس پر اقوام متحدہ کو مداخلت کی دعوت دینا اور عالمی استعمار ی قوتوں کے لیے راستہ آسان کرنے کی کوشش کرنا کسی طور پر دانشمندی اور عالم اسلام کی خیرخواہی نہیں کہلا سکتا اس کی سخت سے سخت الفاظ میں مذمت کی جانی چاہیے ۔منی ٰ میں انتہائی قیمتی جانوں کے ضیاع سے زیادہ اس وقت اہم ترین مسئلہ یہ درپیش ہے کہ نفرتوں کی تجارت بند کی جائے ،حرمین شریفین میں بدنظمی کو ہوادینے کی کوششوں کی روک تھا م ہو ،عالمِ اسلام میں تفریق وتقسیم کی سازشوں کاتدارک ہو اور دنیا بھر میں جاری جغرافیائی ،علاقائی اور سیاسی تنازعات کو مذہبی معاملات میں دخیل ہونے سے روکا جائے ورنہ
لمحوں نے خطا کی تو صدیوں نے سزا پائی
Qari Muhammad Hanif Jhalandri
About the Author: Qari Muhammad Hanif Jhalandri Read More Articles by Qari Muhammad Hanif Jhalandri: 120 Articles with 142093 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.