ہر انسان کے اپنے آپ سے
کچھ وعدے ہوتے ہیں اس نے حدود کا کوئی نہ کوئی دائرہ اپنے ارد گرد قائم کر
رکھا ہوتا ہے جس سے وہ باہر نہیں نکلنا چاہتا ۔ میں نے بھی خود سے یہ وعدہ
کر رکھا تھا کہ میں کبھی بھی ستائشی کالم نہیں لکھوں گی۔ ستائشی کالم سے
مراد یونہی یا کسی مفاد کے لئے چپڑی چپڑی باتیں لکھنا تاکہ اپنا الو سیدھا
ہو سکے۔لیکن ایک منصوبہ بندی ہم کرتے ہیں اور ایک منصوبہ بندی اوپر والا
کرتا ہے۔مجھے ایک کے بعد ایک ایسے اچھے حادثے آکر ٹکرانے لگ گئے ہیں کہ قلم
ان کی مداح آرائی کرنے کی ضد کرنے لگتا ہے۔لیکن پھر وہی حدود کا دائرہ! آخر
ایک دن ایک نظم حدود کا دائرہ توڑ کر میرے حصار میں داخل ہو گئی۔
یہ ویب کیموں پر اپنے اپنے بدن دکھاتے ہوئے عجوبے
یہ سرچ گوگل پر اپنے افکار ڈھونڈنے والے علم زادے
یہ پور کی لمس پر تھرکتی برہنہ دنیا۔۔۔۔
اُف! یہ عام سے کچھ ہٹ کر تھا۔ سیدھا دل میں اترنے والا۔ میں نے شاعر کا
نام دیکھا دانیال طریرؔ۔ میں نے فیس بک کے تلاش کے آپشن میں نام لکھا اور
enter مار دیا۔ یہ کیا؟ میں نے تو ان کو کبھی پڑھا ہی نہیں تھا۔ فور۱ً کچھ
اچھا کلام اپنی وال پر شئیر کر دیا۔شاعری نے اتنا متاثر کر دیا تھا کہ پیج
کے ان باکس میں ہی پیغام بھیجا’’ اسلام و علیکم ! مجھے دانیال طریر صاحب کی
سب کتابوں کے نام چاہئیے اور یہ کتابیں بھی چاہئیے میں اسلام آباد میں رہتی
ہوں۔‘‘ جواب موصول ہوا ’’وعلیکم السلام! یہ پیج دانیال خود نہیں چلاتے ۔وہ
دو سال سے ایک بہت بری بیماری سے جنگ لڑ رہے ہیں اور آج کل حالت بہت زیادہ
خراب ہے۔میں ایک لنک بھیج دوں گا جہاں انکی تمام کتابیں موجود ہیں۔‘‘مزید
پوچھنے پر پتا چلا کہ دانیال طریر سرطان جیسے موذی مرض سے جنگ لڑ رہے
ہیں۔میں ہل سی گئی۔اتنا اچھا شاعر اور اتنی بری بیماری۔لنک ملا تو شاعری
پڑھی انسیت اور لگاؤ زیادہ ہو گیا۔دانیال طریر کی کتابیں طبعی حالت میں جب
مجھے ملی تب تک وہ خدا کو نظمیں سنانے یہ زمین چھوڑ چکا تھا۔
سانس جیسے موم بتی کانچ پر رکھی ہوئی
زندگی ہے ہلکی ہلکی آنچ پر رکھی ہوئی
میرا سرمایہ ہے تھوڑای روشنی تھوڑا دھواں
نام مسعود دانیال ( کوئی بھی نام رکھ دیا جاتا تو یہ شخص اپنی پہچان بنا ہی
لیتا ) جائے پیدائش بلوچستان ( میں نے پاک ٹی ہاؤس سے لے کر اسلام آباد کے
ادبی فورمز تک اسکی صفِ ماتم بچھی ہوئی دیکھی ہے) پیشہ لکچرار ( مجھے لگتا
ہے لکچرار اس لئے جلدی مر جاتے ہیں کیونکہ وہ اپنے اندر کا سب کہہ ڈالتے
ہیں۔ ان کے اندر کچھ کہنے کی کسک نہیں رہتی ۔ طریرؔ صاحب بھی اپنا کام پورا
کر کے ہی گئے تھے) پتہ (اسکی بیوہ سے پوچھو جو اپنے بچوں کو نجانے کیسے
بہلاتی ہو گی ابھی پچھلے دنوں دانیال کی بہن کی دانیا ل کے لئے شاعری پڑھی
وہ دانی دانی کر رہی تھی اور پتہ کہیں چھپا ہوا تھا!) یہ وہ شخص ہے جس کے
بارے میں احمد ندیم قاسمی ، بیرم غوری ، ستیہ پال آنند ، آفتاب اقبال شمیم
، نیلو جمالی، محمد اویس معلوم، سیمیں کرن، شمیم آراء، فاروق مسرور،مشرف
عالم ذوقی،علی بابا تاج جیسے منجھے ہوئے شاعروں اور ادیبوں نے لکھا ہے ۔
میں کہاں سے لفظ لاؤں ؟ میرے دراز میں پڑی ان کتابوں سے صدا آتی ہے۔
میں نے محبت بھی کب منتخب کی ہے
اس نے مجھے اپنی فہرست میں لکھ لیا ہے۔۔۔۔
میں کانوں پہ ہاتھ رکھتی ہوں میرا دل کہتا ہے
آدمی کی طرح جس کو جینے کی خواہش ہے
اس کے لئے لکھ
آدمی کی طرح جس کو مرنے کی خواہش ہے
اس کے لئے لکھ
روشنی کے لئے لکھ
میں آنکھیں بند کر لیتی ہوں مگر ’’معنی خالی‘‘ اپنامنہ بند نہیں کرتی۔اس کے
صفحوں سے مصرعے نکل نکل کر آتے ہیں۔
پھونک دیا ہے صور کسی نے
ڈال دیا ہے موت نے گھیرا
دانیال طریر ایک عہد کا نام ہے وہ شاعر نہیں تھا وہ جذبوں کا تاجر تھا۔وہ
آنسوؤں کی زبان تھا۔ وہ خاموشی کا سفر تھا۔وہ مر گھٹ تھا۔لیکن بات یہ ہے کہ
وہ امر ہے۔
بھید بھنور سے کوئی نکلا
نہیں تو تم کیسے نکلو گے
اس نے سب لکھا وہ سب لکھ کے گیا اس نے کہا تھا۔
خدا کیوں کہانی سے باہر کھڑا ہے
یہ کیا ہو رہا ہے وہ کیا سوچتا ہے
وہ کیا چاہتا ہے یہ کیا ہو رہا ہے
میں سب لکھوں گا
انتہائی مشکل سے معنی خالی کو رکھتی ہوں تو ’’خواب کمخواب‘‘ میرے ہاتھوں سے
لپٹ جاتی ہے۔
میں جل پری کے لئے جل تلاش کرنے گیا
پلٹ کے آیا تو برسات کا بنا ہوا تھا۔
سرخ لمحوں کی کسک لے کے تجھے دیکھوں گا
عصر موجود! شفق لے کے تجھے دیکھوں گا۔
ہزاروں سال کا بن باس کاٹا ہے تو مجھ کو
پرندوں کی زباں سے تھوڑی آگاہی ملی ہے۔
کہانی ختم ہونے کی نشانی ہے یہ لمحہ
دعا کو زرد پتوں میں چھپایا جا رہا ہے۔
وہ اس دور میں ہوتے ہوئے بھی کسی دوڑ کا حصہ نہیں تھا۔میں پروین شاکر کی
مداح ہوں لڑکی جو ہوں لیکن دانیا ل طریر کسی مقناطیس کیطرح اپنی طرف کھینچ
لیتا ہے۔اس کے لفظوں میں ، مصرعوں میں ، نظموں میں ایسی کشش ہے کہ رشک آنے
لگتا ہے۔اتنی روانی اتنی سلیس کہ اسکا لہجہ اسکی شخصیت سب کھل کر سامنے آتے
ہیں۔ہم نے دانیال طریرؔ کو نہیں ایک سرمائے کو کھویا ہے۔مجھے تا عمر قلق
رہے گا کہ میں عہد دانیا ل میں زندہ تھی لیکن ان سے کبھی ہم کلام نہ ہو
سکی۔ دانیال طریر ؔ کا اگر موا زنہ کیا جائے تو جس طرح پروین شاکر کی شاعری
تکیوں کے نیچے رکھی جاتی تھی اسی طرح دانیال طریر کے شعر گنگنائے جاتے
ہیں۔انہوں نے صرف محبوب کو موضوع نہ بنایا بلکہ اپنے قلم کی کاٹ کو معاشرے
میں پلتے ہوئے ناسوروں کے لئے استعمال کیا ہے۔کہیں وہ امید کی لُو بن کر
اندھیر نگری کو روشن کرتے نظر آتے ہیں ۔کبھی اصلاح کا بیڑا انکے کندھوں پر
پڑا ہوتا ہے۔ وہ ایک موضوع اور ایک طرز کے شاعر نہیں تھے ان کی شاعری میں
آفاقیت ہے۔سوچ کا بحر بیکراں ہے اور استعارات اور تشبیہات میں گہرائیوں دور
تک سنجیدگی بولتی نظر آتی ہے۔تصویر دیکھیں تو زندہ لگتے ہیں۔ تصور کو دیکھا
جائے تو ان کی صداؤں کی باز گشت بند کواڑوں سے روح کے در کھولتی ملتی ہے۔وہ
کہتے تھے خدا میری نظم کیوں سنے گا۔ میرے لفظ ان کی شاعری کے حروف میں
چلاتے پھرتے ہیں کہ پھر کس کی سنے گا؟ اﷲ ان کو غریقِ رحمت کرے اور اس چاند
کے قرب میں بسنے والے ستاروں کو طمانیت کے ہالے سے لپیٹ لے آمین!
حاصلِ تحریر یہ نہیں ہے کہ جانے والے کو رویا جائے اور صرف یہ بھی نہیں ہے
کہ ان کے مقصد کو سمجھا جائے بلکہ حاصلِ تحریر یہ ہے کہ ایسے چراغِ سحری
ڈھونڈ کر نکالے جائیں اور ان کا شکریہ ادا کیا جائے کہ وہ اپنے فکر کے سورج
سے ہمارے ذہن کو جَلا بخشتے ہیں۔ اور نہ صرف چراغِ سحری بلکہ ہر چراغ کو
خراجِ تحسین پیش کرنا ہے ہر وہ شخص جو لکھ رہا ہے جسے سننے کی سکت ہمارے
کان کھو چکے ہیں ۔ایسا شخص جو وہ کہہ رہا ہے جسے دیکھنے سے ہماری آنکھیں
انکاری ہیں کہ یہی رمزِ ترقی ہے یہی اسرارِ طمانیت ہے۔
کالم نگار: مریم جہانگیر۔
|