تُبّع شاهِ يمن
(Dr Shaikh Wali Khan Almuzaffar, Karachi)
''تبع''یمن کے بادشاہوں کا ایک
عمومى لقب تھا،جس طرح ایران کے بادشاہوں کو کسرى ،ترک سلاطین کو خاقان ،مصر
کے بادشاہوں کو فرعون اور روم کے شہنشاہوں کو قیصر کہا جاتا تھا،یمن
کےحمیری بادشاہ تُبًع حارث الرائش (280ء تا 315ء) نے اکسومی حبشیوں کو
حضرموت سے نکال باہر کیا اور وہ ’’ملک سبا و ذُو ریدان و حضرموت‘‘ کہلایا،
حمیری سلاطین کے اس دوسرے طبقے کو عرب مورخین تُبَّع (جمع تبابعہ) کہتے ہیں۔
چونکہ لوگ ان کى ''اتباع'' کیا کرتے تھے، یا پھر اس لئے کہ وہ کئی پشتوں تک
یکے بعد دیگرے بر سر اقتدار آتے رہے اس لئے ان کو'' تُبّع'' کہتے تھے ،قرآن
کریم میں ان کا تذکرہ دوبار وارد ہوا ہے : (الف) بھلا یہ اچھے ہیں یا تُبّع
کی قوم اور وہ لوگ جو تم سے پہلے ہوچکے ہیں۔ ہم نے ان (سب) کو ہلاک کردیا۔
بےشک وہ گنہگار تھے۔سورۂ دُخان( 37)ــــ( ب) ان سے پہلے نوح کی قوم اور
کنوئیں والے اور ثمود جھٹلا چکے ہیں( 12 ) اور عاد اور فرعون اور لوط کے
بھائی( 13 ) اور بن کے رہنے والے اور تُبّع کی قوم۔ (غرض) ان سب نے
پیغمبروں کو جھٹلایا تو ہمارا وعید (عذاب) بھی پورا ہو کر رہا۔سورۂ ق ( 14
) ۔ یہاں اکثرمفسرین کا یہ نظریہ ہے کہ وہ بذات خود حق طلب اور صاحب ایمان
شخص تھا،انھوں نے قرآن مجید کى ان آیات سے استدلال کیا ہے، کیونکہ قران
پاک کى مذکورہ آیا ت میں اس کى ذات کى مذمت نہیں کى گئی، بلکہ اس کى قوم
کى مذمت کى گئی ہے،پیغمبر اسلام ﷺ سے نقل کى جانے والى روایت بھى اسى بات
کى شاہد ہے ، آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں: ''تبع'' کو بر امت کہو کیونکہ وہ ایمان
لاچکا تھا''۔
تبع اسعد ابوکرب بن کلیکرب جب مدینہ منورہ سے گزرا ،تو اس کے ہمراہ بڑی
تعداد میں یہودی علماء تھے، انہوں نے مدینہ ہی میں ٹھہرنے کا فیصلہ کیا اور
اس کی وجہ یہ بتائی کہ ان کی کتابوں میں لکھا ہے کہ آخری اور عظیم ترین نبی
جن کا نام احمدہو گا، ہجرت کر کے اس شہر میں آئیں گے،کچھ حضرات نے لکھا ہے
کہ پہلے یہاں کے باشندوں سے ان کی جنگ ہوئی مگر یہ دیکھ کر وہ حیران ہوگیا
کہ یہ عجیب لوگ ہیں دن کو ہم ہی سے لڑ تےہیں اور شام کو ہماری مہمان نوازی
بھی کرتے ہیں ،تو ان کے تعجب کرنے پر علمأ نے مدینہ (یثرب) والوں کی یہاں
آپﷺ کی آمدکے انتظار کی تفصیل بتائی،ایک اور روایت میں اسى داستان کے ذیل
میں یہ بات بھى بیان ہوئی ہے کہ اس نے ''اوس''اور ''خزرج ''کے بعض یمنی
قبائل کو جو اس کے ہمراہ تھے حکم دیا کہ وہ اسى شہر میں رہ جائیں اور جب
پیغمبر موعود ظہور کریں تو وہ ان کى امداد کریں اوراپنى اولاد کو بھى وہ
اسى بات کى وصیت کرتا رہا ،نیزاوس وخزرج کے لئے اسی وقت یہاں چار سو مکانات
تعمیر کرانے کا بھی تذکرہ ملتاہے۔ گویاتبع نے ان سب کے لئے وہاں گھر بار
بنا دیئے،پھر ایک مکتوب لکھا، جس میں اپنے قبول اسلام کا ذکر کر کے اس پر
سونے کی مہر لگائی اور سب سے بڑے عالم سموئل کے سپرد کرتے ہوئے کہا کہ اگر
وہ اس نبی کا زمانہ پائے تو انہیں یہ خط دے دے اور اگر نہ پائے ،تو اس کے
بیٹے یا پوتے یہ کام انجام دیں، اس نے نبیؐ کے لئےدو منزلہ ایک مکان تعمیر
کرایا ،تاکہ آپ ﷺجب مدینہ منورہ تشریف لائیں تو اس میں قیام فرمائیں، وقت
گزرنے پر اس مکان کے مالک ابوایوب انصاریؓ بنے جو اسی عالم کی اولاد میں سے
تھے،اسی لئے آپ ﷺ کی اونٹنی اللہ تعالیٰ کے حکم سے یہیں پر آکر بیٹھ گئی
تھی(وفاء الوفاء )۔جب اسی گھر کے سامنے حضورﷺ کی اونٹنی جا کر ٹھہر گئی۔
لوگوں نے ابو لیلٰی کو بھیجا کہ جاؤ حضور ﷺکو شاہ یمن تبع کا خط دےدو، جب
ابو لیلٰی حاضر ہوئے تو آپ ﷺنے اسے دیکھتے ہی فرمایا، تو ابو لیلٰی ہے؟ یہ
سن کر ابو لیلٰی حیران ہو گیا۔ حضور اکرم نے فرمایا میں محمد رسول اللہ ہوں،
شاہ یمن کا جو خط تمھارے پاس ہے لاؤ وہ مجھے دو، چنانچہ ابو لیلٰی نے وہ خط
دیا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھ کر فرمایا، صالح بھائی تُبّع کو آفرین
و شاباش ہے۔(المواہب اللدنیہ )۔
بہرحال 'تبع ''یمن کے عالمگیربادشاہوں میں سے تھا ،جس نے ہندوستان تک فوج
کشى کى تھی اور اس نے ایشیاکى تمام حکومتوں کو اپنى زیر نگرانى کر لیاتھا،
اپنى فوج کشى کى ایک مہم کے دوران میں وہ مکہ معظمہ بھی پہنچا تھا ، بارہ
ہزار عالم اور حکیم اور ایک لاکھ بتیس ہزار سوار، ایک لاکھ تیرہ ہزار پیادہ
اپنے ہمراہ لئے ہوئے اس شان سے پہنچا کہ جہاں بھی جاتااس کی شان و شوکت
دیکھ کر مخلوق خدا چاروں طرف نظارہ کو جمع ہو جاتی تھی ، لیکن تُبّع جب
دورہ کرتا ہوا مکہ معظمہ پہنچا تو قبائل مکہ میں سے کوئی اسے دیکھنے نہ آیا،
بادشاہ حیران ہوا اور اپنے وزیر سے اس کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ اس
شہر میں ایک گھر ہے جسے بیت اللہ کہتے ہیں، اس کی اور اس کے خادموں کی جو
یہاں کے باشندے ہیں تمام لوگ بے حد تعظیم کرتے ہیں اور جتنا آپ کا لشکر ہے
اس سے کہیں زیادہ دور اور نزدیک کے لوگ اس گھر کی زیارت کو آتے ہیں اور
یہاں کے باشندوں کی خدمت کر کے چلے جاتے ہیں، پھر آپ کا لشکر ان کے خیال
میں کیوں آئے،یہ سن کر بادشاہ کو غصہ آیا اور قسم کھا کر کہنے لگا کہ میں
اس گھر کو کھدوا دوں گا اور یہاں کے باشندوں کو قتل کروا دوں گا، یہ کہنا
تھا کہ بادشاہ کے ناک منہ اور آنکھوں سے خون بہنا شروع ہو گیا اور ایسا
بدبودار مادہ بہنے لگا کہ اس کے پاس بیٹھنے کی بھی کسی کوطاقت نہ رہی اور
سارے اطبأ اس کے علاج سے عاجز آگئے ۔اس کے ہمرکابوں میں کچھ اہل علم بھى
موجود تھے جن کا سرپرست'' شامول'' نامى ایک حکیم تھا،اس نے کہا:آپ کى
بیمارى کا اصل سبب کعبہ کے بارے میں بُرى نیت ہے _''تبع''اپنے مقصد سے باز
آگیا اور نذر مانى کہ وہ خانہ کعبہ کا احترام کرے گا اور صحت یاب ہونے کے
بعد خانہ کعبہ پر یمانى چادر کا غلاف چڑھائے گا،دوسرى تاریخوں میں بھى خانہ
کعبہ پر غلاف چڑھانے کى داستان منقول ہے جو تو اترکى حد تک پہنچى ہوئی ہے،
یہ فوج کشى اور کعبہ پر غلاف چڑھانے کا واقعہ جابجا کتب تواریخ میں وقوع
پذیر ہے ،اب بھى مکہ مکرمہ میں ایک جگہ موجود ہے جس کا نام ''دارالتبابعہ''
ہے۔
تحریر:الشیخ ولی خان المظفر حفظہ اللہ تعالی |
|