یہ سن صغری کی بات ہے،جب ٹیڈی
دوسری جماعت کا طالب علم تھا۔ ہمارے محلہ میں ایک ’’یوسف‘‘ نامی لڑکا رہتا
تھا۔ یوسف، علاقہ ممبر راجہ لیاقت کا بڑابیٹا تھا۔ ذہنی طور پر کچھ کھسکا
ہوا اور چرس کا رسیا۔ کبوتروں کا شوقین اور لفنڈر۔ سکول نہ کبھی اس نے جانا
تھا اور نہ کبھی گیا، ہاں سکول کے باہر اکثر صبح کی اسمبلی سنتے پایا جاتا۔
پھر اس نے سکول اسمبلی سننے کی ایک عادت بنا لی، روزانہ کی بنیا د پر
اسمبلی کا مشاہدہ کرتا۔ فیڈرل گورنمنٹ پرائمری سکول کھنہ نئی آبادی، موجودہ
اسلام آباد ایکسپرس وے سے ملحقہ جنگل کے وسط میں واقع تھا، جہاں طالب علم
’’ڈارون‘‘ کی تھیوری کے مرکزی کردار ’’بندر‘‘ کی جیسی حرکات ، دوران پڑھائی
کرتے نظر آتے۔ درختوں، ٹاٹوں اور بنولہ کھل کی بوریوں کی آمیزش سے بنی سکول
کی کلاسس یقیناً اس وقت پاکستان کو تیسری دنیا کا ممتاز ملک دکھانے کے لیے
کافی تھیں۔ ٹیڈی سکول کا مکمل احوال پھر کبھی بتائے گا پہلے ذرا یوسف صاحب
کتھا سن لیجئے۔
سکول اسمبلی کے مشاہدہ کے دوران ’’یوسف‘‘ نے کلام اقبال ’’لب پہ آتی ہے دعا
بن کے تمنا میری‘‘ کافی دفعہ نہ صرف سنا بلکہ یاد بھی کیا، اور ساتھ ساتھ
ملی نغمہ ’’چاند میری زمیں، پھول میرا وطن بھی‘‘ یاد کیا ۔ کلام اقبال اور
ملی نغمہ اسے بہت پسند تھے۔
ایک مینار والی مسجد ، اس علاقہ کی واحد جامع مسجد تھی جہاں اہل علاقہ جمعہ
کی نماز پڑھتے تھے، اور یوسف کا اس مسجد سے تعلق،مسجد کے مینار پر چڑھ کر
کبوتر پکڑنے کی حد تک محدود تھا، ورنہ مسجد میں جانا شاید یوسف کے لیے ایسا
ہی تھا جیسے ’’مولوی کا جنگل جانا‘‘۔
ایک جمعہ کو ’’مولوی سلطان راہی‘‘ جو اپنی بڑی مونچھوں کی وجہ سے اس نام سے
مشہور تھا جب جمعہ کی پہلی آذان دے کر فارغ ہوا تو ’’یوسف ‘‘ کو پچھلی صف
میں کھڑے ، کبوتر ہاتھ میں لیے پایا۔ مولوی کو ’’یوسف ‘‘ کے مسجد کے اندر
قدم رکھنے پر حیرانی ہوئی، اسی حیرانی کے عالم میں مولوی گویا ہوا ’’کیوں
آئے ہو‘‘۔ ’’یوسف ‘‘ نے جواب دیا ، ’’مولوی جی، سپیکر پر نعت پڑھوں گا‘‘۔
مولوی نے حیرت سے اسے دیکھا ، اس کے ہاتھ سے کبوتر لیا اور اسپیکر اس کے
حوالے کرتا ہوا، مسجد سے باہر اپنے حجرے میں چلا گیا کہ خطبہ کی تیاری کرنا
تھی اور غسل شریف بھی۔
ادھر ’’یوسف ‘‘ نے بسم اللہ اور صلوۃ السلام پڑھ کر ’’لب پہ آتی ہے دعا بن
کے تمنا میری‘‘ شروع کر دی اور ’’مولوی سلطان راہی ‘‘ کے جلدی جلدی ’’غسل
شریف‘‘ سے فارغ ہو کر آنے تک اہل علاقہ کو ’’چاند میری زمیں ، پھول میرا
وطن‘‘ ڈلیور کر دی۔
مولوی کو بہت غصہ آیا لیکن یوسف کے والد ممبر راجہ لیاقت علی کی مونچھ
مولوی سلطان راہی سے ایک آدھ انچ زیادہ ہی تھی، اس لیے مولوی سوائے صبر کے
کچھ نہ کر سکا صرف ’’یوسف‘‘ کو مسجد سے چلے جانے کو کہہ کر اسپیکر بند کر
دیا۔
ٹیڈی اس واقعہ کو یاد کرنے کے بعد روایت کرتا ہے کہ ، اہل علاقہ کے لیے اس
میں چند ساعت کی ہنسی کے علاوہ کچھ نہ تھا لوگوں نے ہلکا سا تبسم لیا ،
مسجد کو اللہ کا گھر کہا اور بات آئی گئی ہو گئی۔ لیکن میرے پیارے وطن
’’پاکستان‘‘ کی شان میں شاید وہ آخری نغما ت تھے جو محراب و ممبر سے برآمد
ہوئے تھے۔ اس کے بعد آج تک کبھی مسجد سے ٹیڈی نے ’’ملی نغمہ‘‘ کی صدا تو نہ
سنی ، ہاں اکثر محراب و ممبر سے لاشیں اُٹھیں ضرور دیکھیں اور فرقہ واریت
کی آذانیں ضرور سنیں۔ |