عالی چال

دوہے کا رواج اردو میں نیا نہیں بلکہ اپنی ایک قدیم تاریخ رکھتا ہے۔ برج بھاشا، کھڑی بولی، سندھی، پنجابی، اودھی وغیرہ کی طرح ابتدا سے ہی اردو میں بھی دوہے کے نمونے ملتے ہیں۔ دوہا عربی اور فارسی سے بہت دور اور سنسکرت کے قریب ہے، مگر اسے سنسکرت سے ماخوذ نہیں کیا جاسکتا۔ دوہے کا سنسکرت میں کسی طرح کا وجود نہیں ہے البتہ زوالِ سنسکرت کے دور میں اور برصغیر میں مسلمانوں کی آمد کے بعد برصغیر کی مختلف زبانوں میں کسی حد تک نظر آتا ہے۔ دوہے کو شاعری کی مختصر صنف کہا جاسکتا ہے اسی لیے محبت، نفرت، اخلاقی اقدار کے اظہار کے لیے نہایت کارگر ثابت ہوتا ہے۔

اس کے اظہار کے لیے جمیل الدین عالی نے سرسی چھند کا انتخاب کیا ، اور اس صنف کے ذریعے دوہے میں ایک نئی روایت کا آغاز کیا، عالی جی نے دوہے کو ایک نئے رُخ سے متعارف کرایا، عالی جی کے دوہوں میں طنز، مزاح، عشق ومحبت، دکھ درد ، اور دوسروں کے جذبات کی نمائندگی کرنے کا فن موجود ہے۔ عالی جی نے زندگی کو جس طرح محسوس کیا، اپنے دوہوں میں وہی رنگ بھر دیا۔ اُن کے دوہے پڑھنے سے محسوس ہوتا ہے کہ قاری ،زندگی کے اصل رنگوں کو قریب سے دیکھ رہا ہے۔عالی جی کے دوہوں کے بارے میں ڈاکٹر سید عبداﷲکہتے ہیں:
’’اہل درد کے لیے تو عالی کا ایک دوہا بھی کافی ہے اور کلامِ عالی میں تو بہت سے ایسے دوہے اوراشعار ہیں جن پر اردو کا تالستائی یا دوستوفسکی اگر کہانی مرتب کرنا چاہے تو اس کی گنجائش بہرطور موجود ہے، کیوں کہ اس کی غزل، دوہا، گیت جوکچھ اس نے لکھا ہے دل کی بھاشا میں لکھا ہے۔‘‘

بقول اسلوب احمدانصاری :
’’ان میں ایک طرح کی مٹھاس اور گھلاوٹ بھی ہے اور مانوس لب ولہجہ بھی۔ اُداس اور دل گرفتگی عام پر دوہوں کا لازمی عنصر ہے لیکن عالی کے ہاں تمام تر اُداسی نے ہی اپنے ڈیرے نہیں ڈالے۔ ان میں تنومندی، بشاشت اور خوداعتمادی کی جھلکیاں جگہ جگہ نظر آتی ہیں۔‘‘

عالی جی کے دوہے ڈاکٹرگوپی چندنارنگ کی رائے میں:
’’عالی نے دوہا نگاری میں کچھ ایسا راگ چھیڑا ہے یا اردو سائیکی کے کسی ایسے تار کو چھو دیا ہے کہ دوہا ان سے اور وہ دوہے سے منسوب ہوکر رہ گئے ہیں۔ دوہا تو ان سے پہلے بھی تھا لیکن ’’عالی چال‘‘ سے انھوں نے دوہے کی جو بازیافت کی ہے اور اسے بطور صنف شعرکے اردو میں جو استحکام بخشا ہے وہ خاص ان کی دین ہوکر رہ گیا ہے……کیوں کہ شعر گوئی میں کمال توفیق کی بات سہی لیکن یہ کہیں زیادہ توفیق کی بات ہے کہ تاریخ کا کوئی موڑ، کوئی رخ، کوئی نئی جہت، کوئی نئی راہ، چھوٹی یا بڑی کسی سے منسوب ہوجائے۔‘‘

فرمان فتح پوری نے دوہے سے متعلق عالی جی کے بارے میں ان الفاظ میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے:
’’اردو دوہے دراصل جمیل الدین عالی کے دوہوں کے بعد ہماری توجہ کا مرکز بنا ہے۔ عالی نے صرف یہی نہیں کہ دوہے کو شعوری طور پر اپنے اظہار کا وسیلہ بنایا بلکہ انھوں نے دوہا پڑھنے کا ایک خاص انداز بھی ایجاد کیا۔ یوں کہنا چاہیے کہ ان کی دوہانگاری اور دوہا خوانی نے دوہا کے سلسلے میں وہ کردار ادا کیا جو جگرمرادآبادی نے اس وقت ادا کیا تھا جب جوشؔ اور اقبالؔ کی نظموں کے سامنے غزل کی مقبولیت خطرے میں پڑگئی تھی۔ اگرچہ اس وقت بھی حسرت، فانی، اصغر، یگانہ اور فراق جیسے قدآور غزل گوشعرا موجود تھے۔ لیکن پشاور سے ڈھاکہ تک غزل کا پرچم بلند رکھنے والے صرف جگر تھے، دوہا کے سلسلے میں بھی یہی ہوا دوہا کہنے والے اور بھی موجود تھے اور بعض کے مجموعے بھی شائع ہوچکے تھے، لیکن عالی کے دوہوں سے پہلے نہ ان مجموعوں کا نام کوئی جانتا تھا اور نہ کوئی شاعر بحیثیت دوہا نگار شہرت رکھتا تھا۔ جمیل الدین عالی اردو شاعری کی تاریخ کے پہلے شاعر ہیں جنھوں نے دوہا کی صنف کو رتبہ اعتبار بخشا۔ اس کی حیثیت کو مستحکم کیا اور قبول عام کے درجے تک پہنچایا ، اپنی شناخت کا نشان بھی بنایا۔‘‘
’’اس سے انکار نہیں کہ عالی کے دوہے کی بھاشا واقعی ان کی ہے۔ ان کے دل کی آواز ہے۔ اپنے رنگ میں سب سے الگ ہے۔ پھر بھی عالی کو بھاشا اور ان کی بات کو سمجھنے والے ایک دو نہیں ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں موجود ہیں۔ بلاشبہ وہ دورِ حاضر کے چند گنے چنے شعرا میں سے ایک ہیں اور دوہا کے حوالے سے تو ان کا نام ممتاز ترین ہونے کے ساتھ ایک ایسی انفرادیت رکھتا ہے کہ اردو شاعری کی تاریخ میں انہیں ہمیشہ ایک نمایاں مقام حاصل رہے گا۔‘‘

حسن عسکری کے بقول:
’’عالی کی موجودہ شخصیت اور شاعری میں اتنے مختلف رنگ موجود ہیں کہ اُن کے کلام سے اُکتاہٹ نہیں ہونے پاتی۔ یہ رنگارنگی بذاتِ خود ایک لطف کی چیز ہے۔ عالی کے یہاں اس بات کا شائبہ تک نہیں ملتا کہ وہ کسی جذبے سے کترا رہے ہوں یا اس کے اظہار میں حجاب سے کام لے رہے ہیں۔ کھلے دل سے بات کرتے اور گھبرائے بغیر جذبات کا بے لاگ طریقے سے اظہار کرنے کی بدولت ان کے کلام میں ایک سادگی اور معصومیت آگئی ہے جس کی آرزو ہر شاعر کو ہونی چاہیے۔‘‘
تمام بزم میں اک ہم خموش بیٹھے ہیں
سنا رہے ہیں سبھی تجھ کو تیرا افسانہ
’’عالی جی کے دوہوں میں مضامین کا تنوع غزلوں سے بھی زیادہ ہے، چونکہ اس صنف کو انھوں نے گویا اپنی اختراع کے طور پر برتا ہے، لہٰذا یہاں اُنھیں آزادی بھی زیادہ حاصل رہی ہے۔ اس اعتبار سے عالی جی کے یہ دوہے ہماری اردو شاعری میں ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔‘‘
عالی جی کے دوہے کے چند نمونے پیش ہیں:
عالی کا کیا ذکر کرو ہو، کوی تو وہ کہلائے
جو ناخن سے پربت کاٹے اور پربت کٹ جائے
———
تم کہو دوہا تم کہو بیت اور تم کہو سرسی چھند
نہیں مری من ندی کا طوفاں ناموں کا پابند
———
عالیؔ تیرا بھید ہے کیا ہر دوہے پر بل کھائے
میں جانوں ترے پاپی من کو گھر والی یاد آئے
نامرے سر کوئی طرہ کلغی نا کِسے میں چھدام
ساتھ میں ہے اک ناری سانوری اور اﷲ کا نام
———
سور کبیر، بہاری، میرا، رحیمن، تلسی داس
سب کی سیوا کی پر عالیؔ گئی نہ من کی پیاس
عالیؔ تو جو چاہے کہے ظاہر ہے ترا انجام
سو راون ترے بیری اور تو نہ لچھمن، نہ رام
———
مجھ میں کچھ سُر کھوئے ہوئے ہیں وہی نگاہیں آگ
نہ یہ پہاڑی نا بھٹیالی یہ ہے دوہا راگ
———
دوہے کبت کہہ کہہ کر عالی من کی آگ بجھائے
من کی آگ بجھتی نہ کسی سے اسے یہ کون بتائے
———
عالی اب کے کٹھن پڑا دیوالی کا تیوہار
ہم تو گئے تھے چھیلا بن کر بھیا کہہ گئی نار
———
اردو والے ہندی والے دونوں ہنسی اڑائیں
ہم دل والے اپنی بھاشا کس کس کو سکھلائیں
———
Muhammad Sabir
About the Author: Muhammad Sabir Read More Articles by Muhammad Sabir: 34 Articles with 86750 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.