سید احمد قادری کے افسانوی مجموعہ “ملبہ“پر مختصر تبصرہ
(Syed Ahmad Quadri, New Delhi)
|
سید احمد قادری کا افسانوی مجموعہ |
|
سلمان عبدالصمد
106فرسٹ فلور ، ابوالفضل انکلیو جامعہ نگر ، نئی دہلی ۔
’’ملبہ ‘‘ مشہور و مقبول افسانہ نگار سید احمد قادری کا چوتھا افسانوی
مجموعہ ہے ۔ اس سے قبل ان کے تین افسانوی مجموعے ’’ریزہ ریزہ خواب‘‘،’’دھوپ
کی چادر‘‘اور ’’پانی پرنشان‘‘ شائع ہوکر ادبی دنیا میں اپنی پہچان قائم
کرچکے ہیں ۔ سید احمد قادری نے اس وقت لکھنا شروع کیا تھا ، جب اردو
کہانیاں کئی دشوار گزار مراحل سے نکلنے کی کوشش میں لگی تھی۔ سب سے مشکل
دور تجریدیت ،یعنی کہانی کش حالات نے قارئین کو کہانی سے دور کردیا تھا ۔
اس صورتحال میں انھوں نے اپنے لیے ایک ایسا بیانیہ اسلوب اختیار کیا ، جو
انھیں رفتہ رفتہ قارئین سے نزدیک کرتا چلا گیا ، حتی کہ آج بھی یہی بیانیہ
طرز اظہار قاری کے لئے پسندیدہ ہے ۔ اس طرح اسّی کی دہائی میں اپنی کہانیوں
سے قارئین کو متوجہ کرنے والوں میں ایک اہم نام سید احمد قادر ی کابھی ہے ۔
پیش نظر افسانوی مجموعہ’ملبہ‘ بیالیس کہانیوں پر مشتمل ہے ۔
مجموعہ کی پہلی کہانی انتہائی عام فہم ہوتے ہوئے بھی بہت توجہ طلب اور
عالمی مسئلہ پر مبنی بھی ہے۔ کیوں کہ سید احمد قادری نے بیانیہ کا جو اسلوب
اپنا یا ہے، اس سے کہانی کی افہام وتفہیم میں کوئی دقت پیش نہیں آتی ۔ بڑی
آسانی سے افسانہ ’’ملبہ‘‘ نئی تہذیب میں رشتوں اور انسانیت کی جڑتی اور
ٹوٹتی ڈوروں کی حقیقت واشگاف کرتا ہے ۔ ایک طرف مرکزی کردار کیتھرین ،رشتہ
کے تقد س کا کس طرح خیال رکھتی ہے تو دوسری طرف اس کی بھابھی کا رشتہ کے
تئیں کیا نظریہ ہے یا پھر بھائی کی’ ملازمت ‘نے کتنے رشتوں کو ملبے میں دفن
کردیا ۔ کہانی یہ بھی واضح کرتی ہے کہ امریکہ کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے انہدام
کے ملبے کے نیچے دفن ہوجانے والے، خود دفن تو ہو جاتے ہیں ، لیکن انسانیت س
کی کراہتی زندگی کی کئی سچائیاں اور زندگی سے جڑے کئی مسائل بھی ان کے ساتھ
جنم لے لیتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ اس افسانہ میں مختلف ممالک میں ہو رہی جنگ
وجدال پراقوام متحدہ کی مجرمانہ خاموشی اور غیر مناسب رویے سے دنیا کے کئی
اہم ممالک پر مرتب ہونے والے اثرات کو بھی بڑی خوبصورتی اور فنکارانہ انداز
میں واضح کیا گیا ۔ 9/11 پر غالباََ اردوکا یہ پہلا افسانہ ہے اور شائد یہ
اس لئے ممکن ہو پایا کہ سید احمد قادری جیسا حساس فنکار ورلڈ ٹریڈ سنتر کے
انہدام کے بعد اس کے قریب گیا اور وہاں پر پہنچ کر اس فنکار کے محسوسات اور
مشاہدات کی پرواز نے آفاقیت بخش دی ہے ۔اس افسانہ کی جزئیات نگاری کے بہاؤ
میں کئی توجہ طلب عالمی موضوعات ومسائل ابھر کر سامنے آتے ہیں ۔ مجموعہ کی
دوسری کہانی ’وقت کا بہتا دریا‘ شہری زندگی کی بھاگ دوڑ،رشتوں کی شکست
وریخت اورسکونِ زندگی کی تلاش کی ناکام کوشش کا المیہ پیش کرتا ہے ۔ ’پہرے
خوابوں پر ‘ میں نئی نسل اور لیبر چائلڈ کے پس منظر میں حصول علم کی
خواہشات کا جنازہ کوپیش کرکے سیداحمد قادری نے ملک میں بننے والے آئین
وقوانین کے سامنے کئی سوالا ت کھڑے کردیے ہیں ۔ افسانہ ’دستک رشتوں کی ‘
ہندوستانی فرقہ پرستی کے رنگ میں رنگنے کے باوجود بھی عجیب شگفتگی کا احساس
دے جاتا ہے۔کبھی فرقہ پرستوں کی ریشہ دوانیاں کامیاب ہوتی نظر آتی ہے تو
کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کی کارستانیاں عام لوگوں کو دور نہیں کرسکتی
ہیں ۔
سیداحمد قادری کے افسانوی سرمایہ پر نظر ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں
نے پیش آمدہ مسائل پر زیادہ توجہ کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانے ستر کی
دہائی سے لے کر موجودہ حالات کی بھر پور عکاسی کرتے ہیں ۔ ایک حساس قاری ان
کے افسانوی سرمایہ سے بخوبی قومی اور بین الاقوامی صورتحال کا اندازہ
کرسکتا ہے ۔ کیوں کہ انھوں نے صحافتی موضوعات کی طرح انتہائی چھوٹے چھو ٹے
مسائل کو مس کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ جیساکہ ہم سبھی واقف ہیں کہ ان کا
تعلق صحافت سے بھی بہت گہرا ہے ، اس لیے ان کے افسانوں میں عصر ی منظر نامہ
کی آگہی انتہائی واضح انداز میں ہوتی ہے ۔ اسلوب بیان بھی انتہائی سادہ ،
دلچسپ اور معیاری ہے ۔ بڑی آسانی سے جانے پہچانے لفظوں کے سہارے ذہنوں میں
وہ نقوش چھوڑ جاتے ہیں ، جو بھاری بھرکم اسلوب کے بس میں کہاں ۔ ان کے
افسانوں کے متنوع موضوعات خود اس امرکے گواہ ہیں کہ جہاں سے بھی وہ گزرجاتے
ہیں ، وہاں سے اپنی کہانیوں کے لیے کچھ نہ کچھ مواد ضرور حاصل کرلیتے ہیں ۔
اس مجموعہ میں کچھ کہانیاں بہارکی دیہی زندگی کے مسائل پر مبنی ہیں، تو کچھ
قومی حالات پر ہیں ، اسی طرح کچھ عالمی تناظر میں بھی لکھی گئی ہیں ۔ ان
میں بیشتر کہانیوں کی فضا اس بات کی بھی تصدیق کرتی ہے کہ سید احمدقادری
اپنی کہانیوں کے ان مقامات سے ضرور گزرے ہیں،کیوں کہ جزئیات اور منظرنگاری
میں جو باریکیاں جگہ پاتی ہیں ، وہ کہانی کو کئی موڑ سے گزارکر مرکزی نقطہ
پر لاکھڑی کرتی ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو یہ طرز اسلوب بھی صحافت سے ہم
آہنگی کا منظرپیش کرتا ہے ۔لیکن اس کا مطلب قطعاًیہ نہیں کہ قوت متخیلہ،
فنی رچاؤ اور پلاٹ کے دروبست میں اپنا کام نہیں کرتی ہے ۔
سیداحمد قادری کی کچھ کہانیوں کے موضوعات ایسے ہیں ، جنہیں سرسری کہہ کر
نظر انداز کیا جاسکتا ہے ، کیوں کہ نقادان ادب ،سیاسی اورصحافتی یعنی فوری
مسائل کو ادب میں ناقابل اعتنا سمجھتے ہیں ۔ اس لیے دنگے فسادات کے موضوعات
کو افسانوی ادب میں بمشکل تمام ہی جگہ مل پاتی ہے ۔’ہم وحشی ہیں‘کے دیباچے
میں اس فکر کے نقادوں نے،ایسے ادب پر کڑی چوٹ کی گئی ہے ۔ لیکن اس سے بھی
مفر نہیں کہ بیشتر سرسر ی موضوعات اور کرنٹ صورتحال پر لکھنے والوں کے یہاں
فن مجروح ہوتا ہے اور ایسالگتا ہے کہ وہ ادبی ’ پگڈنڈیوں ‘پرنہ چل کر پیشہ
وارانہ صحافت کی چمک ،رمق دکھانے میں مصروف ہے ۔ معاصر فکشن میں بھی کئی
ایک کے یہاں یہ کیفیت پائی جاتی ہے ۔ اس تناظر میں اگر سید احمد قادری کی
بات کریں تو وہ کرنٹ موضوعات کو انسانی رشتوں کی لڑیوں میں اس طرح پروکر
پیش کرتے ہیں، جن سے ان کی کہانیاں عصری منظر نامہ میں صحافتی مسائل کی
عکاس ہوکر بھی ادبی حسن و معیار کی چاشنی سے بھی بھرپور ہوتی ہیں ۔فنی شعور
کی آگہی بھی اپنی موجودگی درج کرواتی ہے ۔ صحافتی موضوعات دیر پا تاثرات کے
ساتھ ان کے یہاں قید ہوجاتے ہی ، ایک انوکھی طرزنگارش کا احساس ہوتا ہے ۔اس
طرح ان کے افسانوں میں زندگی کے مکمل نشیب وفراز ، ملکی اور بین الاقومی
سیاست ، حیوانیت اور انسانیت کے درمیان جاری شہ و مات کے کھیل اور رشتوں کے
ٹوٹتے بکھرتے نظارے ، سے قریب ہوکرگزرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کامطالعہ،
انسانی تہذیب کو کچلنے اور ساتھ ہی ساتھ انسانی رشتوں کے تقدس کو بحال کرنے
کی جتن کرنے والوں کو یکساں طور پر متاثر کرتا ہے ۔ داخلی اور خارجی یا پھر
ذاتی وسماجی موضوعا ت کو سید احمدقادری اس طرح اپنے افسانے کا جز بتاتے ہیں
، جن سے ہر مکتب�ۂ فکرکے قاری کے ذہن کو کچوکے لگاتاہے ۔ ’سلسلہ بھوک کا‘
’بوند بوند زندگی ، کوئی صدا نہیں ، آنگن کی بات ،سرخ جوڑے‘ وغیرہ افسانے،
فکری اورفنی خوبصورتی اور موضوعاتی کشش کی بنیاد پر معاصر افسانہ نگاری میں
اہم مقام رکھتے ہیں اور بہترین افسانوں کے درمیان اپنی منفرد پہچان بنانے
میں بے حد کامیاب ہیں ۔ امید ہے سید احمد قادی کا چوتھا یہ مجموعہ بھی دیگر
تینوں مجموعوں کی طرح ادب کے شیدائیوں کے لیے بہترین تحفہ ثابت ہوگا ۔ |
|