ڈاکٹرعظمیٰ فرمان فاروقی کی تصنیف’’اردو ادب میں نسائی
تنقید(روایت، مسائل و مباحث)‘‘ اس لحاظ سے خصوصاً اہمیت کی حامل ہے کہ
مصنفہ نے مشرق و مغرب میں ہونے والی نسائی تحاریک کا احاطہ بڑی عمدگی سے
کیا ہے ، وہ کسی ایک نظریے اور ایک طبقے کی حامی ہونے کے بجائے ایک معتدل
نقاد کے طور پرتمام چیزوں کو دیکھ ااور پرکھ رہی ہیں اور تعصّب سے بالاتر
ہوکر تجزیہ کررہی ہیں۔ اُنھوں نے بھرپور انداز میں مختصرمختصر تاریخی حوالے
دے کر تمام ہی شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں کی نمائندگی کی ہے۔
اُنھوں نے اپنی اس تصنیف کے ذریعے نسائی تحریک پرکام کرنے والوں کے لیے نئے
در کھول دیئے ہیں۔ بلاشبہ وہ ایک غیرجانب دار نقاد کی حیثیت سے اپنا سکّہ
جمانے میں کامیاب رہی ہیں۔اس تصنیف کے ذریعے اردو ادب کے طالب علموں کو
نسائی تنقیدسمجھنے میں بڑی مدد ملے گی۔
ڈاکٹر عظمیٰ فرمان فاروقی کی زیرِنظرتصنیف تین ابواب پر مشتمل ہے۔ باب اوّل
’’نسائیت ایک تعارف‘‘ کے تحت ذیلی عنوانات ’’نسائیت کیا ہے‘‘، ’’نسائیت کی
اہم شاخیں‘‘، ’’جدید علوم وفنون اور نسائیت کا دبستان‘‘ شامل ہیں۔ باب دوم
’’جنوبی ایشیا (پاک وہند) میں نسائیت/فیمنزم کی تحریک اور اردو ادب‘‘ کے
تحت ذیلی عنوانات ’’تاریخی پس منظر‘‘، ’’تعلیم نسواں کی تحریک‘‘، ’’اصلاحی
نسائیت‘‘، ’’تحریک آزادی کی نسائی آوازیں‘‘، ’’ترقی پسند نسائیت‘‘، ’’دیگر
ادبی رجحانات اور تحاریک‘‘ شامل ہیں جب کہ باب سوم ’’اردو کا نسائی دبستانِ
تنقید‘‘ کے تحت ’’نسائی تنقید‘‘ (تعریف، روایت)، ’’اردو ادب کے اہم تنقیدی
دبستان‘‘، ’’نسائی دبستان‘‘، ’’رجحانات‘‘، ’’اہم نسائی نقاد‘‘، ’’مسائل
ومباحث‘‘ شامل ہیں۔
مصنفہ نے باب اوّل میں تعارف پیش کیا ہے، اور نسائیت کی اہم شاخیں،
جدیدعلوم اور نسائیت کا دبستان وغیرہ پر بحث کی ہے۔ باب دوم میں جنوبی
ایشیا میں اس تحریک کے اردو ادب پر اثرات اور تاریخی حوالے پیش کیے ہیں جب
کہ باب سوم میں نسائی تنقید اس کے رجحانات اور اہم نقادوں اور مسائل ومباحث
پر محققانہ ونقادانہ بحث کی ہے۔
تحریکِ نسواں یا فیمینزم (Feminism) ایک طبقے کی نظر میں تحریک ہے اورایک
طبقہ اسے نظریہ قرار دیتا ہے۔نسوانی تنقید عورت کے عرفانِ نفس کے جس تصور
کی امین ہے، اس کا تعلق مابعد جدیدیت کے علاوہ نسوانی تحریک سے بھی ہے۔
نسوانی تحریک کا نقطہ آغاز انقلابِ فرانس۱۷۷۹ء سے شروع ہوا۔نسوانی تنقید کے
مباحث میں شدت ۱۹۶۰ء کی دہائی کے آخر میں پیدا ہوئی۔
نسوانی تنقید بیک وقت ریڈیکل، آئیڈیالوجیکل اور پولیٹکل جہات اختیار کرتی
ہے۔ نسوانی تنقید ایک حد تک ’جنسی اور صنفی فرقہ واریت‘ کو ہوا دیتی محسوس
ہوتی ہے۔ مگر بحیثیت مجموعی یہ انسانی کلچر کو مردانہ اور نسوانی ثقافتوں
سے مرکب قرار دینے میں کوشاں نظرآتی ہے۔ نسائی تحریک ایک قدم آگے بڑھ کر
عورت کی شناخت اور اہمیت کواُجاگرکرنے میں بھی سرگرم رہی ہے اور ایسے اصول
فراہم کیے ہیں، جو نسائی، خود نسائی تخلیقی عمل اور نسوانی تہذیب و ثقافت
کو نمایاں کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
مغرب میں نسائی تحریک کی ابتدا اٹھارویں صدی سے شروع ہوچکی تھی۔اس سلسلے
میں شائع ہونے والا پہلا اظہار۱۷۹۲ء میں میری وال اسٹون کرافٹ (Mary
Wallstone Craft) نے تحریر کیا۔پھر ۱۸۴۵ء میں ماگریٹ فلرنے "Women in the
19th Century" تحریر کی۔۱۸۶۹ء میں جون اسٹارٹ مِل (John Staurt Mill) کی
مشہور تصنیف "The Subjection of Women"شائع ہوئی۔ ۱۹۴۹ء میں فرانس کی ادیبہ
سائمن ڈی بووا کی کتاب "The Second Sex" منظر عام پر آئی۔ اسی طرح بیسویں
صدی کی چھٹی دہائی بیٹی فرائڈن (Betty Friedan) کی کتاب "The Feminine
Mystique" شائع ہوئی۔بعد میں میری ایلمان (Mary Ellman) ، کیٹ میلٹ (Kate
Millet) ، جوڈی فیٹرلی (Judith Fetterly) ، ایلن شوالٹر(Elaine Showalter)
وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔
ابتداے اسلام ہی سے اس تحریک کی شروعات ہوچکی تھی اور اسلام کے فلسفۂ حیات
میں آزادیٔ نسواں کوکلیدی حیثیت حاصل ہے۔ دیگر مذاہب میں پھر بھی عورتوں کے
حقوق کہیں نہ کہیں غضب نظر آتے ہیں جیسا کہ عیسائیت میں ایک عورت نن بن
جائے تو پھر وہ زندگی بھراپنی مذہبی روایت کی تابع رہتی ہے۔ ہندومت میں اگر
کسی عورت کے شوہر کا انتقال ہوجائے تو وہ ہمیشہ بیوگی کی زندگی گزارتی
ہے۔مگراسلام میں عورتوں کے حقوق اور آزادیٔ نسواں کو بڑی اہمیت حاصل ہے ،
آج کی آزادیٔ نسواں کے علم بردار جو بے مہار آزادی کا مطالبہ کررہے ہیں،
اسلام میں بے مہار آزادی کی گنجائش نہیں ہے، بلکہ دینِ اسلام میں عورتوں کو
وہ تمام حقوق باوقار طریقے سے حاصل ہیں جنھیں اسلام میں جائز قراردیا گیا
ہے۔
آزادیٔ نسواں کی تحریک میں عورت کی حکمرانی اور حق رائے دہی، معاشی پہلو سے
عورت کا حقِ جائیداد، تصرف اور ملازمت اور دینی لحاظ سے عورت کی تعلیم، اس
کی شخصی اور انفرادی تربیت اور اس کے ذاتی استقلال کے مسائل شامل ہیں۔ ان
مسائل پر لکھنے والی خواتین میں فاطمہ مرنیسی، فریدہ حسین، اسمابرلاس،
امینہ ودود، عزیزہ الحبری، ساجدہ علوی، زیبامیرحسینی، لیلیٰ احمد،
دینیزکاندیوتی وغیرہ شامل ہیں۔
اسلام میں آزادیٔ نسواں پر لکھی جانے والی تحریروں میں غالباً سب سے پہلی
کتاب ۱۸۹۹ء میں ’تحریرالمراۃ‘ شائع ہوئی جسے مصری ماہر قانون، مؤرخ اور
ادیب قاسم امین نے لکھی۔برصغیرمیں انیسویں صدی میں’’ حقوقِ نسواں‘‘پر
مولاناممتازعلی نے بھی ایک کتاب لکھی۔ عورتوں میں تعلیم کی اہمیت کو اُجاگر
کرنے کے لیے مولانا اشرف علی تھانوی نے ’’بہشتی زیور‘‘لکھی،جسے مذہبی
گھرانوں میں بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔
ڈپٹی نذیر احمد کو اردو کا پہلاناول نگارہی نہیں بلکہ عورتوں کی تعلیم کے
لیے کام کرنے والوں میں پہلا ادیب بھی شمار کیا جاتا ہے، ان کے ابتدائی
ناول ’’مراۃ العروس‘‘ اور ’’بنات النعش‘‘ عورتوں کی تعلیم ہی کی غرض سے
لکھے گئے۔
سرشار کے ناول فسانہ آزادمیں بھی عورتوں کی تعلیم سے متعلق مثبت خیالات نظر
آتے ہیں۔۱۸۷۰ء میں حالی نے ایک نظم ’’چپ کی داد‘‘ پڑھی، اس میں عورتوں کی
تعلیمی اور تہذیبی حالتِ زار پر بڑی دردمندی تھی۔ سرسیدکے دوسرے ساتھیوں
میں مولوی ذکاء اﷲ، مولوی چراغ حسن،نواب محسن الملک اور مولانا شبلی نعمانی
نے بھی عورتوں کی تعلیم کے حق میں مضامین لکھے۔اس کے بعد نوجوانوں میں شیخ
عبداﷲ اور سجادحیدریلدرم کا نام بھی اہم ہے۔
تعلیم نسواں کے حوالے سے بعض خواتین بھی سامنے آئیں ان خواتین میں سب سے
اہم نام بھوپال کی نواب سلطان جہاں بیگم کا ہے جنھوں نے خود بھی لکھا اور
اوروں سے بھی لکھوایا۔ اُنھوں نے عورتوں کے لیے تعلیم پر خصوصی توجہ
دی،مدرسے کھلوائے، کتب خانہ حمیدیہ قائم کیا، اس کے علاوہ’’مدرسہ آصفیہ‘‘
کا قیام بھی بیگم صاحبہ ہی کی وجہ سے ہوا، جہاں عورتوں کو ڈاکٹری اور طب
یونانی کی تعلیم دی جاتی تھی۔
نثرنگاری کے حوالے سے بھی کئی خواتین رشیدۃ النساء، محمدی بیگم، نذر سجاد،
حمیدہ بانو، مسزعبداﷲ سلطان بیگم، بیگم ممتاز علی، عطیہ فیضی، صغریٰ
ہمایوں، کنیزفاطمہ، خجستہ اختر، ا۔ض۔حسن بیگم، بیگم شاہنواز، طیبہ بیگم،
ضیا بیگم، صالحہ عابد حسین کے نام آتے ہیں۔رشیدۃ النساء پہلی خاتون ناول
نگارہیں جن کا ناول ۱۸۸۱ء میں ’’اصلاح النساء‘‘ کے نام سے شائع ہوا تھا۔
ترقی پسند تحریک کے حوالے سے بات کی جائے تو پریم چند، احمدعلی، رشیدجہاں،
محمودالظفر کسی تعارف کے محتاج نہیں۔اُنھوں نے عورتوں کے سماجی، سیاسی،
مذہبی، معاشرتی مسائل پر قلم اُٹھایا۔ احمدعلی، رشیدجہاں اور محمودالظفر نے
تو ’’انگارے‘‘ میں ایسے ایسے مضامین قلم بند کیے، جنھیں پڑھ کر برصغیر کی
خواتین میں حقوقِ نسواں کی آگاہی پیدا ہوئی اور اُنھیں اس بات کا احساس
ہونے لگا کہ ہمارے حقوق کیا ہیں اور ہمیں کس طرح انھیں حاصل کرنا چاہئیں۔
نسائی تحریک میں بے شمار اہم شاخیں ہیں، مگر زیرِنظر تبصرے میں ان پربحث
کرناممکن نہیں۔ اسی وجہ سے انتہائی اہم اور نامور شخصیات کا ذکر نہیں کیا
جاسکا، مگر اُن کے کارنامے اور نسائی تحریک کے لیے خدمات سنگِ میل کی حیثیت
رکھتی ہیں۔
ڈاکٹر اعظمی فرمان کی کتاب اردو ادب میں نسائی تنقید(روایت، مسائل ومباحث)
ادب میں ایک منفرد حیثیت کی حامل قرار دی جاسکتی ہے۔ |