کیا یہ ڈاکٹر کی ذمہ داری نہیں ہے؟

شینا زبان میں ایک محاورہ ہے’’پتھر تمہارے ہاتھ میں ہے تو گدھے کی ٹانگ کس نے توڑی‘‘اسی طرح کوئی عمارت یا پل خراب ہوجائے تو اس کا ذمہ دار انجینییرکو ٹھرایا جاتا ہے،اگر کوئی گاڑی پانی یا آئل ختم ہونے کی وجہ سے خراب ہوجائے تو یقینا اس گاڑی کے ڈرائیور کی نااہلی ہوگی وقت پر چیک کرنا ڈرائیور پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔جب کہ بروقت پانی نہ ملنے کی وجہ سے کوئی فصل خراب ہوجائے تو اس کا مالک، یا زمیندار کی کوتاہی ہوگی۔بالکل اسی طرح اگر کوئی مریض علاج کے دوران اس کی بیماری میں مذید اضافہ ہوجائے تو یہ ڈاکٹر کی ذمہ داری،کوتاہی اور نا اہلی ثابت ہوگی۔ایسا ہی ایک واقعہ راقم کے ساتھ پیش آیا ہے۔اس پر قلم اُٹھانے کا مقصدمحض ڈاکٹر ہی نہیں بلکہ عوام تک یہ بات پہنچ جائے تا کہ وہ بھی میری طرح پریشانی سے دو چار نہ ہوجائیں۔واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ میرا بچہ جو اس وقت ڈھائی سال کا ہوچکا ہے جب سے یہ پیدا ہوا تھا تب سے ہم ایک ہی ڈاکٹر کو دکھاتے تھے یعنی جب بھی وہ بیمار ہوجائے تو ایک ہی ڈاکٹر سے اس کا علاج کرواتے تھے ایسا بھی نہیں کہ بچہ پیدائشی بیمار ہو ایک نارمل بچے کی طرح ہے بلکہ اپنی عمر کے حساب سے جسامت میں دوسرے بچوں سے قدرے بہتر تھا۔جس ڈاکٹر سے ہم علاج کرواتے رہے اس کا کلنک ہمیں قریب بھی پڑتا ہے جب بھی ہلکا پھلکا بیمار پڑ جائے تو موصوف انہیں چیک کر کے دوا دیتے تھے اور بچہ ٹھیک بھی ہوتا تھا یہ سلسلہ چلتا رہا چونکہ ڈاکٹر موصوف انتہائی شریف اور پرہیزگار قسم کے آدمی لگتے ہیں اور تعاون بھی اچھا کرتے ہیں یہاں میرا مقصد بھی بدنیتی پر مبنبی نہیں اور نہ ڈاکٹر کی نیت پر کوئی شک کی گنجائش ہے غلط بیانی اس لئے نہیں کریں گریں گے کہ ہم سب خدا کو جواب دہ ہیں۔اب قصہ یہاں سے شروع ہوتا ہے 3یا ڈھائی ماہ قبل بچے کو ہلکی کھانسی کے ساتھ بخار شروع ہوا تو معمول کے مطابق ہم بچے کو اپنے ڈاکٹر کے پاس لے گئے چیک کر کے دوا دی دوائی استعمال ہوا مگر بخار میں کچھ افاقہ نہیں ہوا،دوبارہ ڈاکٹر کے پاس بچے کو لے گئے چیک کر کے دوا دی وہ دوائی بھی استعمال ہوا مگر بخار کم نہیں ہوا وہی تواتر کے ساتھ بخار جاری رہا البتہ PANADOLکا شربت جو ڈاکٹر نے تجویز کیا تھا جب بھی پلاتے تھے ایک آدھ گھنٹے کے لئے بخار ٹھیک ہوتا تھا پھر اثر ختم ہونے کے بعد ہی بخار شروع اسی طرح بچہ کافی کمزور ہوتا گیا۔ ڈاکٹر نے MULTONIC SYRUP,BIORON-F SYRUP,RUBIFER کے ساتھ پیناڈول کی دوا تجویز کیا جو ہم مسلسل بچے کو پلکااتے رہے مگر مجال ہے کہ بخاار میں کمی ہوجائے اسی طرح تقریباً2 ماہ گزرے یقین جانیں مین نے آج تک ایسا نہیں دیکھا کہ کسی بچے کا یتنا لمبا عرصہ تک بخار تسلسل کے ساتھ رہا ہو ۔ درمیان میں ڈاکٹر نے بچے کے سٹول کا ٹیسٹ لکھا ہم نے ٹیسٹ کروا کر رپورٹ بھی پیش کیا ہلکا سا ا نفیکشن بتایا ڈاکٹر نے، اس دوران بچے کا رنگ بالکل سفید ہوا جب ڈاکٹر کے پاس لے گئے تو ڈاکٹر نے خود کہا کہ اس کا خون بہت ہی کم ہوچکا ہے بحر حال معمول کی دوا دی۔میں نے سوچا بچے میں خون کی کمی ہے مگر ڈاکٹر نے اس حوالے سے کوئی ٹیسٹ وغیرہ کیوں نہیں لکھا پھر خیال آیا کہ وہ ڈاکٹر ہے بہتر سمجھتا ہے یہ سوچ کر خود کو تسلی دی بس ڈاکٹر کے پاس لے جاتے رہے دوا پلاتے رہے مگر بچے کو کچھ فرق نہیں پڑا بچے کا رنگ کاغذ کی مانند سفید ہوا تو معمول کے مطابق چیک کروانے پھر ڈاکٹر کے پاس لے گئے اور ہم نے ڈاکٹر سے سے گزارش کی جناب دو ماہ ہونے کو ہیں بچے کی حالت روز بروز بگڑتی جارہی ہے بخار بھی ٹھیک نہیں آخر کیا وجہ ہے تب ڈاکٹر نے ٹیسٹ لکھا بلکہ کئی طرح کے ٹیسٹ لکھ کر پرچی دی پھر جا کر ہم نے وہ ٹیسٹ دو جگہوں سے کروایا اور رپورٹ لے کر اپنے ڈاکٹر کو پیش کیا جب ڈاکٹر نے رپورٹ دیکھا تو ہمیں کہا کہ باہر میری گاڑی کھڑی ہے اس میں بیٹھ جائیں ٹیست کی رپورٹ لمبی چوڑی ہے HEMOGLOBIN 4.9 رہ گیا تھابحر حال ڈاکٹ نے ہمیں اپنی گاڑی میں بٹھا کر چائلڈ اسپیشلسٹ ڈاکٹر رفیع صاحب کے کلنک لے گئے ڈاکٹر رفیع نے رپورٹ دیکھ کر ہمیں حکم دیا کہ فوری بچھے کو ہسپتال میں داخل کروائیں اور جلدی سے خون کا بدوبست کریں اس کا خون اپنے مقدار سے بہت کم ہوچکا ہے بھاگتے ہوئے ہسپتال گئے بچے کو داخل کروایااور خون کا گروپ ab-posativeہے یہ عام ملتا ہے سوشل میڈیا میں بھی اور دیگر ذرائع سے رابطے کئے کسی کا بھی خون برابر نہیں آیا اور رات9بجے بتب جا کر بچے کو خون چڑھایا اور روزانہ بچے کا خون ٹیست ہوتا تھا ساتھ CEFXONE.1Gکا انجکشن لگنے لگا جب بچے کو ہسپتال سے فارغ کیاتو بھی ڈاکٹرز کے ہدایات کے مطابق مزید چار دین تک یہ انجکشن جاری رکھا اب بخار90فیصد ٹھیک ہوا ہے جب کہ ہفتہ قبل خون کی مقدار 7.0 رپورٹ ہے پہلے سے بہت بہتر ہوا ہے خدا کے فصل و کرم سے میں خصوصی طور پر ڈاکٹر رفیع اور ڈاکٹر منظور چائلد اسپیشلسٹ کا ممنون ہوں خدان انہیں تندرستی کے ساتھ طویل عمر دے جو قوم کے نونہالوں کے مسیحا ہیں، مٰن ڈاکٹر حیدر بھائی کا بھی مشکور ہوں جس نے مجھے سپورٹ کیا ، مین چائلڈ وارڈ کے تمام املے کا بھی مشکور ہوں جو دن رات چوکس ہو کر ہر بچے کی دیکھ بھال کرتے ہیں، اور میں اپنے ڈاکٹر کا بھی مشکور ہوں بات اتنی سی ہے کہ میرا ڈاکٹر جس نے ایک دفعہ خود یہ تشویش کا اظہار کیا تھا کہ بچے میں خون کی بہت کمی ہے کاش وہ ٹیسٹ لکھ دیتے تو ہمیں یہ نوبت نہیں آتی یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ ہسپتال کے ڈاکٹرز نے بھی وہی داوا جاری رکھنے کو کہا جو ہمارے ڈاکٹر نے تجویز کی تھی ،اس میں ہماری بھی کوتاہی شامل ہے ہم نے خود بھی وقت پر بچے کو ہسپتال لے جا کر چیک نہیں کروایا یہ فقط میری ذات تک محدود نہیں ہے بلکہ عوام کے اندر شعور پیدا ہوگا کہ ہمیں بھی عقل سے کام لینا چاہئے یہ ہم سب کا مشترکہ مسلہ ہے چونکہ مرض کی تشخیص ہو تو تجویز میں آسانی ہوتی ہے اسی لئے ماہرین نے بھی ٹیسٹ کو لازمی قرار دیا ہے خدا ہم سب کا حامی و ناصر(آمین)
 
Yousuf Ali Nashad
About the Author: Yousuf Ali Nashad Read More Articles by Yousuf Ali Nashad: 18 Articles with 17176 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.