ہم اور ہماری بے ضابطگیاں
(Shamim Iqbal Khan, India)
یہ دنیاجنت سے نکالے ہوئے ایک
مرد اور ایک عورت سے شروع ہوئی اور اِس وقت صرف ہندوستان میں سوا سو کروڑ
انسان رہتے ہیں۔ اس وقت ہندوستان میں جو بھی عورت مرد ہیں وہ سب آنے والے
سو سال میں انتقال کر جائیں گے۔یہ قدرت کا ضابطہ ہے،جو پیدا ہوا ہے اُسے
مرنا بھی ہے۔اس طرح اور پتہ نہیں قدرت کے کتنے ضابطے ہیں جو اس زمین کے
پہلے انسان سے لیکر آج تک قائم ہیں اور رہتی دنیا تک قائم رہیں گے۔جیسے
مشرک سے سورج کا نکلنا، مغرب میں غروب ہونا،رات میں چاند اپنی مختلف شکلوں
کے ساتھ سورج کی روشنی کو زمین پرمنعکس(Reflect)کرنا،ہوا کا چلنا، موسم کا
بدلنا،بارش کا ہونا،دِن و رات کاآگے پیچھے ہونا،سےّاروں کاخلاء میں معلّق
رہنا ،زمین سے معدنیات،پانی اور اناج کی اُپج یہ سارے کام اﷲ کے بنائے ہوئے
ضابطہ کے تحت انجام پاتے ہیں اور اسی طرح انجام پاتے رہیں گے۔
اﷲ ربّ العزت نے انسانوں کی زندگی اوربندگی کی درستگی سے متعلق ضابطہ بنائے
اوروقت ضرورت پر اپنے نبیوں کے معرفت مطلاع فرماتے رہے۔آج سے ۱۴۳۶؍سال پہلے
اپنے آخری نبی حضرت محمد مصطفےؐ کے ذریعہ قرآن کی شکل میں مکمل ضابطۂ حیات
عطافرمایا۔ ہم لوگوں نے اﷲ رب العزت کے اس عظیم عطیہ کوجب تک ہاتھ میں لیے
رہے تو’ ’ بحرِظلمات میں بھی گھوڑے دوڑاتے رہے ‘‘۔اور پھر جب سے قرآن کو
جزدان میں لپیٹ کر تاک پر رکھ دیا ہے تب سے ’بحرِ ظلمات میں غوطہ لگا رہے
ہیں۔’ضابطہ حیات‘ کو بھلا کر اب ہم کسی بھی ضابطہ کے پابند نہیں رہنا چاہتے۔
اس سال دوران رمی جمرات۷۱۷؍حاجی جاں بحق ہوئے وہ صرف ضابطہ شکنی کی وجہ
سے۔جب طریقہ یہ تھا ایک راستے سے آنا اور شیطان کو کنکری مار کر دوسرے
راستے سے چلے جانا۔لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا ، جس راستے سے آئے تھے اُسی
راستے سے واپس جانا چاہتے تھے۔وہاں کا حفاظتی عملہ خوشامدکر رہاہے لیکن بے
اثر، بھلے ہی ۷۱۷؍ حاجی صاحبان رمی جمرات میں انتقال کر جائیں۔جو صاحبان
ضابطہ شکنی کر کے ان اموات کی وجہ بنے ان کا کیا حشر ہوگا، اﷲ ہی بہتر جان
سکتا ہے۔
ہم کسی بھی ملک کے ہیں اور کسی دوسرے ملک میں جا کر رہتے ہیں تو ہمیں پوری
طرح سے وہاں کے قانون کاپابند ہونا ہے۔اگر کوئی ہندوستانی سعودیہ میں رہتا
ہے تو وہاں کے دستورالعمل کو اتنا ہی عزت و احترام کرنا پڑے گا جتنا اپنے
ملک کے دستورالعمل کا کرتا تھا۔مثال کے طور پر ہم اپنے ملک بھارت کے ٹریفک
کے قانون کی بات کریں کہ بائیں طرف چلنا چاہئے، موٹر سائکل والے ہلمٹ
لگائیں، لال بتی پر رکیں اور ہری بتّی پر چلیں، انشیورنس ہو، ڈرائیونگ
لائسنس ہو وغیرہ وغیرہ۔لیکن عرب میں وہاں کے ٹریفک کا قانون اپنانا پڑے گا۔
ایک شہری ہونے کے ناتے اس قانون کی پابندی کرنے کا وعدہ ہمارا عملی وعدہ ہے۔
لہذا قانون(ضابطہ) کی خلاف ورزی وعدہ خلافی ہوئی اورشریعت میں وعدہ خلافی
گناہ ہے اور قانوناً قابل تعزیر ہے۔
قانون اسی لیے بنائے جاتے ہیں کہ نظم و ضبط قائم ہوسکے۔لہذا کسی ایک کے
قانون کی خلاف ورزی سے کسی دوسرے کو نقصان پہنچ گیا تو اس کے نقصان کا کون
ذمہ دار ہوگا؟ظاہر ہے خلاف ورزی کرنے والا۔لوگ یہ اعتراض کر سکتے ہیں کہ
’دنیاوی قانون کو اس سے کیا لینا دینا۔اس کی پابندی کی ضرورت اس لیے ہے کہ
چونکہ دین ہمارے زندگی کے ہر شعبے میں داخل ہے، دین داری صرف ایک شعبے تک
محدود نہیں۔لیکن جو قانون کسی گناہ پر مجبور کرے، یا جو قانون ناقابل
برداشت ظلم کرے تو اس کی اطاعت کسی حال میں جائز نہیں۔ اس کے علاوہ جتنے
قانون ہیں اس کی پابندی شرعاً بھی ہمارے ذمہ واجب ہے،خلاف ورزی کرنے پر
وعدہ خلافی کا گناہ ہوگا۔
دنیاوی قانون کی دہجّیاں تو آئے دن لوگ اُڑاتے ہی رہتے ہیں۔کبھی ’ٹریفک
لائٹ‘ کی خلاف ورزی، کبھی’ایک طرفہ راستہ‘ کی خلاف ورزی، کبھی بغیر
انڈیکیٹر دیے گاڑی کو اچانک دائیں بائیں موڑ دینا،غلط طریقہ سے اوورٹیک
کرنا،بس اسٹاپ پربس کے آنے پرسب سے پہلے بس پر چھڑنے کی کوشش کرنا،کم دوری
کا ٹکٹ لے کر زیادہ دوری کا سفر کرنا۔اس طرح کی بہت سی بے ضابطگیاں ہیں جو
لوگ بڑی ذمہ داری کے ساتھ ادا کرتے رہتے ہیں۔اس طرح کے عمل میں ان کو حرام
و حلال کا بھی خیال نہیں رہتا ۔
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کے ایک بڑے خلیفہ تھے جنھیں آپ نے خلافت عطا
فرمائی تھی۔ ایک مرتبہ وہ ایک سفر سے واپس آئے ،ان کے ساتھ ایک بچہ بھی
تھا۔اور بچہ کے ساتھ ہی حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے،آپ نے ان سے کچھ سوالات
کیے۔ کہا ں سے آرہے ہیں؟ جواب:’’ فلاں جگہ سے‘‘، کاہے سے آئے ہیں ؟جواب:
’’ٹرین سے‘‘۔ بچے کی عمر کیا ہے؟جواب: ’’تیرہ سال‘‘۔ ٹکٹ آدھا لیا یا پورا؟،
جواب:’’چونکہ یہ دیکھنے میں بارہ سال کا لگتا ہے اس لیے آدھا ٹکٹ ہی لیا
تھا‘‘۔
حضرت والا کو سخت رنج ہوا اور ان سے خلافت واپس لے لی اور فرمایا کہ، مجھ
سے غلطی ہوئی ، تم اس لائق نہیں ہو کہ تمہیں خلافت دی جائے کیونکہ تمہیں
’حلال‘و ’حرام‘ کی فکر نہیں۔ جب بچے کی عمر بارہ سال سے زیادہ ہو گئی بھلے
ایک دن ہی کیوں نہ ہو، تو تم پر پورا ٹکٹ لینا واجب ہو جاتا ہے۔تم نے آدھا
ٹکٹ لیکر جو پیسے بچائے وہ حرام کے ہوئے۔جسے حرام سے بچنے کی فکر نہ ہو، وہ
خلیفہ بننے کے لائق نہیں۔
حضرت ابراہیم ؑ ۸۰؍سال کی عمر میں باپ بنتے ہیں اور اسی لیے بیٹا باپ کے
لیے بہت عزیز تھا۔باپ سے خواب میں اپنی سب سے عزیز چیز کی قربانی مانگی
جاتی ہے۔بیٹے سے زیادہ اور کون سی چیز عزیز ہو سکتی تھی لہذا اپنے عزیز
بیٹے کو اﷲ کی راہ میں قربان کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔جب گلے پر چھری
چلا چکتے ہیں اور آنکھ سے پٹی کھولتے ہیں تو نظارہ ہی کچھ اور ہوتا ہے۔بیٹا
اپنے ذبح ہونے کے انتظار میں آنکھ پر پٹی باندھے الگ لیٹا ہے اور چھری جس
پر چلی وہ ایک دنبہ تھا۔انہیں باپ بیٹے کی یاد میں ، اور ان کی سنت میں ہر
سال عید قرباں کے موقع پر حلال جانوروں کی قربانی دی جاتی ہے۔
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کے مندرجہ بالا خلیفہ کی طرح کسی ملّا نے اس
واقعہ میں یہ اور جوڑدیا کہ ’’چھری کے نیچے اگر دنبہ نہ آجاتا تو مسلمانوں
کو اپنے بیٹے کی قربانی دینی پڑتی‘‘۔یہ ہے ایک انسان کی جرأت اورہمت جو اﷲ
رب العزت کے کام میں ’اگر‘ لگا کر بات کر رہا ہے۔انہیں (خطرۂ) ایمان ملّا
کے بیان پر اندور کی ودھائک ’اوشا ٹھاکر‘ نے یہ بیان دیا کہ مسلمان کو اپنے
بیٹے کی قربانی دینی چاہئے؟
اسلام کو جتنا نقصان خود مسلمان سے پہنچایا ہے اتنا نقصان کسی بھی قوم نے
نہیں پہنچایا۔ایک مشاعرے میں ایک مسلم شاعر نے یہ شعر پڑھا :
روایتوں کو توڑ کر آگے بڑھو ورنہ
جو تم سے آگے ہیں وہ راستہ نہیں دیں گے
اس شعر میں ضابطہ شکنی کی دعوت دی جا رہی ہے۔کیا وجہ ہو گئی کہ روایتوں کو
توڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے؟کیوں نو جوانوں کی گماراہی کی راہ دکھائی جا
رہی ہے؟ ویسے ہی ہمارے نوجوانوں کو روش سے ہٹ کر چلنے کی کوشش رہتی ہے۔اُسے
بس پر دوڑ کر چڑھنے اور لٹک کر چلنے میں مزاآتا ہے،ٹیلیفون کا بِل یا بجلی
کا بِل جمع کرنے کے لیے لائین میں لگنا اس کے لیے باعث ذلت ہے۔اتنی جلدی
میں رہتا ہے کہ باپ کے ساتھ اگر کہیں جا رہا ہو توان کے آگے چلنے کی تہذیب
کو پسند کرتا ہے۔ضابطہ کی باتوں کا مذاق اڑاتا ہے۔شفافیت کو بیوقوفی
گردانتا ہے۔نمبر دو کی آمدنی والوں کو پسند کرتا ہے اور خود بھی راتوں رات
دولت مند بننے کے خواب دیکھتا ہے۔تعلیم اور امتحان کی کوئی فکر نہیں،مہنگے
موبائل کی فکر میں گھلنا پسند کرتا ہے۔
بلا شبہ روایتوں کو توڑ کر آگے بڑھنے والوں نے دنیاوی کامیابیاں بہت حاصل
کیں ۔مثال کو طور پر’سلمان رشدی‘، ’تسلیمہ نسرین‘،’سکندر بخت‘،’عصمت
چغتائی‘،’اعزاز رضوی‘،’مختار عباس نقوی‘ ، ’ سید شہاب الدین‘، اور ’نجمہ
ہیپت اﷲ‘ وغیرہ۔ (بہت سے ایسے لوگ ہوں گے جن کو آپ جانتے ہوں، ان کے نام
بھی اس فہرست میں شامل کر سکتے ہیں) اگر شاعر کی مراد اسی طرح کی کامیابی
سے ہے تو اس طرح کی کامیابی اسلامی ضابطہ کے خلاف ہوگی کیونکہ یہ دنیا اور
دین دونوں کو سنوارنے کے لے بنا ہے۔
بہت ڈرتے ہوئے اور بہت ہی مودبانہ طریقہ سے یہ بات کہنا چاہوں گا کہ ہماری
بہو بیٹیوں میں بھی بے ضابطگی کا رجہان پنپنے لگا ہے۔خواتین میں طلاق کا در
کافی بڑھ گیا ہے اور ہر سال اس میں اضافہ ہی ہو رہا ہے جبکہ ۲۰،۲۵ سال پہلے
پورے ہندوستان میں طلاق کی در محض %۵ تھی۔ہندوستان ٹائمس کی ۵؍جنوری ۲۰۱۵ء
کے مطابق محض دس سال پہلے ایک ہزار لوگوں میں صرف ایک طلاق کا معاملہ رکارڈ
کیا گیا جبکہ آج ۱یک ہزار میں ۱۳؍طلاق کا اوسط آ رہا ہے۔
ٹی․وی․ پر مباحثہ چل رہا تھا جس میں کچھ خواتین شامل تھیں۔ایک محترمہ بہت
لہک لہک کر بول رہی تھیں’’شوہروں نے اپنی بیویوں کو گھروں میں غلام بنا کر
رکھا ہے، باہر نکلنے پر پابندی رہتی ہے، کسی سے مل نہیں سکتیں، اپنی کوئی
خواہش کوئی پسند نہیں۔ہمارے پاس بھی ملازمت ہو تاکہ ہم بھی اپنے شوق پورے
کر سکیں‘‘۔ہم مسلمان ہیں اور آگے بھی مسلمان ہی رہنا چاہتے ہیں تو ہمیں
اسلامی شعاراور احکامات کو گلے لگانا پڑیگا، ہمیں وہ سب کرنا پڑے گا جو
اسلام چاہتا ہے ورنہ ’’اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ کوئی یہودی ہو کر مرے یا
نصرانی ہو کر‘‘۔اگر کوئی مغربی ممالک کی پیروی کرنا چاہتا ہے تو شوق سے کر
سکتا ہے۔شرعیٔ بندش اُسی کے لیے ہے جو بندش کو سر آنکھوں پر رکھے۔مغربی میں
جو ملک جتنا ترقی یافتہ ہے، طلاق کی دروہاں اُتنی ہی زیادہ ہے۔مثال کے طور
پر :
۱․ سویڈن-54.9%، ۲․ امریکہ-54.8%، ۳․ روس-43.3%، ۴․ لندن-42.6%، ۵․
جرمنی-39.4%، ۶․ اسرائیل- 14.8%،
۷․ سنگاپور-17.2%، ۸․ جاپان-1.9%، ۹․ سری لنکا-1.5%، ۱۰․ بھارت-1.1%
اﷲ تعالی کے نزدیک جائز چیروں میں سب سے بد ترین چیز ’طلاق‘ ہے۔
یاد رکھیں تین چیزوں کو پردہ ہی چاہئے: ’کھانا‘، ’عورت‘ اور’دولت‘۔
ضابطہ سے ہٹانے والاایک شعر اور یاد آ رہا ہے
کسی سے ہاتھ بھی چھپ کر ملائیے ورنہ
اسے بھی مولوی صاحب حرام کہہ دیں گے
عالموں کا احترام ہر مسلمان کئے لیے لازم ہے۔اس شعرکی معرفت مذہبی رہنماؤں
کے چہروں کو اس طرح سے عوام کے سامنے پیش کرنا انتہائی غیر معقول بات
ہے۔شاعر نے سارے عالموں کو ایک لائن میں کھڑا کر دیا۔بے ضابطگی کی باتوں پر
عوام تالی تو بجادیتی ہے۔اس کا مطلب یہ نہیں ہونا چاہئے کہ بہت لافانی شعر
کہہ دیا گیا ہے۔ اسلام نے ہاتھ ملانے کا اجر مقرر کر رکھا ہے،اس عمل کے
موافقت میں احکامات بھی ہیں۔ادھر شاعر صاحب ضابطہ کا مزاق اڑا رہے ہیں۔ |
|