کیا فرق پڑتا ہے

 وہ مئی کی ایک عام سی صبح تھی ، معمول کے مطابق میں نے ضروریات سے فارغ ہو کر ناشتے کی میز کا رخ کیا ، ناشتہ کرنے کے حکیمی فایٔدوں کے علاوہ ایک فأیدہ یہ بھی ہے کہ آپ کو اخبار پڑھنے مل جاتا ہے ، دراصل اخبار پڑھنے کا اصل لطف تو ناشتے کی میز پر ہی آتا ہے۔ میرے عزیز دوست جمّن خان کے قول کے مطابق مشرق میں اخبار پڑھنے کی صحیح جگہ ناشتے کی میز ہے اور مغرب میں کموڈ ، وہ مزید کہتے ہیں کہ یہ تضاد بھی اس لئے کہ جس طرح کی خبریں ان دنوں اخباروں میں ہوتی ہیں ان سے ہمارے منہ کی بندش کھل جاتی ہے اور ان کے پیٹ کی۔۔۔۔ ( نوٹ : جمّن کے الفاظ میں "پیٹ" شامل نہیں تھا ) .

بات اخبار سے شروع ہو کر،کموڈ سے ہوتی ہوئی نہ جانے کہاں پہنچ جائے۔ خیر مجھے لگا کہ آج بھی اخبار کی صرف تاریخ بدلی ہوگی ، لیکن دیکھا تو تاریخ ہی بدلنے جا رہی تھی ۔ شہ سرخی دیکھ کرخود اپنی آنکھوں پر یقین کرنا مشکل تھا ، لہٰذا کئی بار خبر دیکھی ، پھر جب تسلّی ہو گیٔ کہ آنکھیں دھوکہ نہیں دے رہیں تب بھی تذبذب جاری رہا۔ خبر تھی کہ بھارت کی نئی سرکار نے باقاعدہ ملک کو "ہندو راشٹر" بنانے کا اعلان کیا تھا۔ پریشانی اس بات کی نہیں تھی کہ یہ کیوں ہو رہا تھا، بلکہ اس کی تھی کہ اچانک کیوں ہو گیا ۔
بیوی کو یہ خبر سنائی تو اس نے ذرا دیر چپ رہ کر کہا "تو کیا فرق پڑتا ہے "
. میں گڑبڑا گیا " مجھے کیا ؟ " میں نے دل ہی دل میں کہا۔

اتنے میں بیل بجی ، یہ ہمارے دودھ والے " رامو" کے آنے کا وقت تھا ۔ وہ قریب کے ایک دیہات سے شہر میں دودھ بیچنے آتا تھا ، بہت غریب تھا ، دو مہینے پہلے اس کے مقروض باپ نے خود کشی کر لی تھی ، تب سے بیچارے رامو کی ذمہ داریاں اور بڑھ گیٔ تھیں۔ خیر ، رامو ایک کسان تھا اور کسانوں میں غربت ، قرض ، اور خودکشی عام بات ہیں۔ میں نے سوچا چلو شاید ملک کے ہندو راشٹر بن جانے سے رامو یا اس جیسے کسانوں کی مشکلیں کم ہو جائیں۔ رامو سے دودھ لے کر فرج میں رکھا اور بیگم کو الوداع کہہ کے آفس کے لئے چل دیا۔

پارکنگ میں گپتا جی سے ملاقات ہو گئی جو اتفاق سے میرے پڑوسی بھی تھے اور میرے آفس میں ہی کام بھی کرتے تھے ، یوں ہم ایک دوسرے کی تمام "خوبیوں" سے واقف تھے۔ اب چونکہ بے تکلف تھے اس لئے ایک دوسرے کی بد تمیزی بھی برداشت کرنی پڑتی تھی ۔ خیر ، ادھر ادھر کی باتوں سے شروعات ہوئی پھر میں نے دھیرے سے ان سے ہندو راشٹر والی خبر پر بات کی۔
بولے " ہوں"
. میں ان کی "ہوں" پر حیران رہ گیا لیکن شاید ان کے منہ میں پان تھا ۔ میں نے پھر چھیڑنا مناسب نہ سمجھا۔ گپتا جی پان کے شوقین تھے ، خیر شمالی ہند کے اکثر لوگ پان کے شوقین ہوتے ہیں لیکن گپتا جی حیدرآبادی پان کے شوقین تھے۔گپتا جی کویہ چسکا لگانے والابھی میرے عزیز دوست جمّن خان تھا ، جس نے انہیں حیدرآبادی پلنگ توڑ پان کے "نظامی" قصّے سنا سنا کر پان کا گرویدہ بنا دیا تھا۔ اب گپتا جی کو کون بتأے کہ لکھنؤ میں بھی کچھ واجد علی شاہ پیٹنٹ نوابی نسخے موجود ہیں جن سے وہ استفادہ کر سکتے تھے ۔

گپتا جی کی "ہوں" کے بعد ہم دونوں ساتھ ساتھ آفس ہو لیے. میں سوچ رہا تھا کہ آج آفس میں ، ہوٹلوں میں ، ہر جگہ اسی خبر کے تذکرے ہوں گے ، یہ بڑا بور کر دینے والا احساس تھا . گپتا جی میرے بغل والی سیٹ پر بیٹھے بدستور پان چبا رہے تھے اور میں ونڈ سکرین کے پار خلا میں " ہندو راشٹر" کے بعد ہونے والی کسی تبدیلی کو ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا تھا ، لیکن جب تیز ہارن کی آوازوں نے سحر توڑ دیا تو یاد آیا کہ یہ شہر کی واحد اور نہایت مصروف سڑک تھی ، جس پر ٹریفک اکثر جام رہتا تھا ۔ میں نے سوچا کہ شاید ملک کے ہندو راشٹر بن جانے کے بعد ٹریفک کا مسلہ بھی حل ہو جائے ؟

آفس پہنچ کر پہلے باس کو سلام کیا، کمپیوٹر آن کیا اور ہمارے آفس بوئے ساونت کو چائے کے لیے آواز دی ۔ . یہ لفظ آفس بوئے بھی عجیب ہے ۔ اب ساونت کو دیکھ لیں ، عمر ۵۵ سال تھی ، ریٹائرمنٹ بالکل قریب ، لیکن بھلا ہو انگریزی زبان کا جس نے اس بوڑھے چپراسی کو آفس "بوئے " بنا دیا . ساونت یوں تو ہمارے آفس کا سب سے بزرگ کارکن تھا ، لیکن اس کی خوش مزاجی کی وجہ سے سب اس کے ساتھ اکثر مذاق کرتے رہتے تھے۔ اس نے کبھی کسی کے چھیڑنے کا برا نہیں منایا۔ دراصل اس نے کبھی ان چیزوں کو سنجیدگی سے لیا ہی نہیں ، اسے بس فکر تھی تو اپنی تین بیٹیوں کی ۔ دو بیٹیاں بیاہی جا چکی تھیں ، تیسری کے جہیز کی رقم کی پوری ہونی تھی ، رشتہ طئے ہو چکا تھا ، پھر اس کی کی بھی شادی ہو جاتی۔ ساونت نے اپنی زندگی بھر کی محنت اور کمائی اپنی بیٹیوں پر صرف کر دی تھی۔ میں نے سوچا چلو دیکھتے ہیں ، ہندو راشٹر بننے کا اگر ساونت جیسے لوگوں کو کچھ فایدہ ہو تب بھی ٹھیک ہے ۔ ساونت کی چائے ہمیشہ کی طرح فرحت بخش تھی۔

لنچ سے ذرا پہلے ہمارے آفس کی کلرک خاتون " مسز جادھو" آیئں ، وہ روزانہ اسی وقت آتی تھیں ، بقول گپتا جی یہ ان کے چغلی کرنے کا وقت تھا ، اور اگر کسی دن ان کا یہ معمول بدل جائے تو ان کا ہاضمہ خراب ہو جاتا تھا . ان کی اس عادت سے البتہ ان لوگوں کو فایدہ ضرور ہوتا تھا جو کسی مجبوری کے سبب اخبار نہیں پڑھتے یا ان کا کوئی پسندیدہ ڈیلی سوپ ٹیلی ویڑن پروگرام چھوٹ جاتا ۔ مسز جادھو کی باتیں آفس کے معاملات سے شروع ہو کر ، مقامی خبروں سے ہوتی ہوئیں ، ڈیلی سوپ ڈراموں تک پہنچ جاتیں اور پھر آلو بھنڈی کے بڑھتے داموں پر ختم ہوتیں ۔ مجھے لگا کہ مسز جادھو آج کی سب سے بڑی خبر پر بات ضرور کریں گی لیکن انہوں نے دنیا جہان کی باتیں کرنے کے بعد حسب معمول بڑھتی ہوئی مہنگائی پر ایک شارٹ سپیچ دی اور لنچ کے لئے چل دیں ۔ لنچ کرتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ اگر ہندو راشٹر بننے سے مہنگائی ہی کم ہو جائے تب بھی ٹھیک ہے ۔

لنچ میں گپتا جی سے ٹفن شیٔر کرنا میرا دستور تھا ، حالانکہ وہ برہمن تھے لیکن گہرے مراسم ہونے سے انہیں کبھی میرے مانساہاری ہونے سے کوئی پرابلم نہیں تھی ۔ یوں تو میں آفس میں سدا سبزی خور ہی بنا رہتا تھا لیکن گپتا جی خود علی الاعلان ہر اتوار دلی دربار ہوٹل میں دوستوں کے ساتھ بریانی کھانے کو عین ثواب سمجھتے تھے۔ کبھی کبھار یوں ہوتا کہ میں کوئی عذر کر لیتا لیکن گپتا جی اپنے معمول میں تبدیلی کبھی نہیں کرتے ، ان کا ماننا تھا کہ اتوار کو وہ سب کام جن سے منع کیا گیا ہے، کر لینے سے ہفتے بھر کی کشیدگی کم ہو جاتی ہے ۔

خیر، گپتا جی بقول جمّن ساون کے اندھے تھے اور ان کی یہ " نا بینائی " کوئی ٹھیک نہیں کر سکتا تھا ۔ میں نے سوچا کہ ہندو راشٹر بن جانے سے کیا گپتا جی جیسے گوشت خور ہندو سبزی خور ہو جاـیٔیں گے ؟

لنچ کے بعد میری عام طور پر باس کے ساتھ میٹنگ ہوا کرتی تھی ، وہ فرداً فرداً ہر ایک کو بلا کر ضروری ہدایات جاری کرتے . اﷲ کا شکر تھا کہ یہ میٹنگ لنچ کے بعد ہوا کرتی تھیں ، اگر یہ لنچ سے پہلے ہوتی تو پیٹ بھر کے باس کی ڈانٹ کھانے کے بعد کس کم بخت کو بھوک لگ سکتی تھی ویسے باس ایک نیک انسان تھے ، ۹۰ کی دہائی کے آئی آئی ٹی گریجویٹ تھے ، بیس سال امریکہ میں سروس کرنے کے بعد واپس وطن لوٹ کر یہیں سیٹ ہو گئے تھے . ان کا ایک بیٹا بھی تھا جو لندن میں پڑھائی کر رہا تھا ، اور ایک بیٹی جو آسٹرلیا سے گریجویٹ ہونے کے بعد کسی این آر آئی سے شادی کر کے وہیں مقیم تھی ۔ مجھے اکثر تعجب ہوتا ہے کہ ہمارے ملک کے ذہین افراد اعلی ڈگری لے کر بیرون ملک کیوں بھاگ جاتے ہیں، یہ بات کتنی متضاد ہے کہ ہمارے ملک میں جہاں اعلی تعلیم کے مواقع دستیاب ہیں وہاں کا ٹیلنٹ دیگر ممالک "اغوا" کر لیتے ہیں ، اور جہاں ٹیلنٹ وافر مقدار میں موجود ہے وہاں اعلی تعلیم کے ذرایع دستیاب نہیں ۔ جس ملک کے ڈاکٹر ، انجنیئر، اور سائنس داں ملک سے باہر اپنا مستقبل ڈھونڈتے ہوں ، جہاں میٹرک سے لے کر سول سروس تک کے پرچے لیک ہوتے ہوں اسے برباد کرنے کے لئے دشمنوں کی قطعی ضرورت نہیں۔ یہ شاید ہمارے تعلیمی نظام اور سروس سیکٹر کی خامیاں تھیں لیکن خیر ،میں نے سوچا کہ شاید ملک کے ہندو راشٹر ہونے کے بعد ہمارے تعلیمی نظام اور سروس سیکٹر میں کچھ بہتری آجائے؟

باس سے میٹنگ کے بعد کچھ ضروری کام نپٹا دیے اور فارغ ہوتے ہی اپنے دوست جمّن کو فون کیا ۔ میرا اور گپتا جی کا معمول تھا کہ روزانہ آفس سے واپسی میں جمّن سے ضرور ملتے ، وہ میرا بچپن کا دوست تھا ، اور اپنی خوش فعلیوں کے چلتے میرے دیگر جاننے والوں میں بھی مقبول تھا ، جان محفل ٹائپ کا بندہ تھا ، عقل سے عاری ، لیکن دل کا بادشاہ . روزانہ شام کو ہم جانوں بھائی کے دھابے پر ملتے ، گپ شپ ہوتی ، سگریٹیں جلتیں اور چائے کے پیالے چھلکتے . جانوں بھائی کا نام بھی عجیب تھا. ماں باپ نے جنید نام رکھا تھا جو بگڑ کر جنو پھر جانوں ہو گیا ۔ لیکن بیک وقت جانوں اور بھائی ہونا بھی بہر حال ستم بالائے ستم ہی کہا جاسکتا تھا ۔
جانوں بھائی کا دھابہ دو وجہوں سے مشہور تھا . ایک ، اس کا ذائقہ دار کھانا اور دوسری، وہاں بجنے والے پرانے گیت ۔ جانوں بھائی کا دھابہ عصر کے بعد کھلتا اور رات بھر آباد رہتا ۔ وہاں شہر کا ہر شخص مل جاتا تھا، فرق صرف اوقات کا تھا( نظام والے اوقات کا ، میری آپ کی والی اوقات کا نہیں)۔ اور اسی نظام الاوقات کی نسبت سے گیتوں کا انتخاب ہوتا ۔ شام سے رات تک 80 اور 90 کی دہائی کے نغمے بجتے اور
سامعین میں بڑی تعداد ادھیڑ عمر سابقہ عاشقین کی ہوتی جنہیں محمد عزیز یا کمار سانو کے گیت اپنی ہاتھ سے نکلتی جوانی کے غم کا احساس دلاتے ۔

اس کے بعد آدھی رات تک رفیع ، مکیش ، لتا اورآشا کے سدا بہار نغمے گونجتے اور سامعین کی بڑی تعداد شہر کے موجودہ عاشقین پر مشتمل ہوتی۔ پھر صبح تک جانوں بھائی کی منتخب کردہ ایک مخصوص پلے لسٹ بجائی جاتی جس میں صرف وہی نغمے شامل ہوتے جو ٹرک ڈرائیوروں کو پسند ہوں ۔ ان کا دھابہ شہر کی واحد شاہراہ کے اہم موڑ پر تھا اور صبح سے پہلے وہاں سے گذرنے والے اکثر مسافر دھابے پر رک جاتے تھے۔

جمّن کاونٹر پر ہی سگریٹ کا دھواں اڑاتا ہمارا منتظر تھا ۔ حسب معمول تپاک سے ملا اور اپنا سگریٹ کا خالی پیکٹ گپتا جی کے پیکٹ سے بدل دیا ،اس کے مطابق یہ بے روزگاروں کی "سنّت" تھی اور اس سے ترک کرنا تقریباً حرام ۔ جمّن کے یہاں ایسی کئی اصطلاحات تھیں جنہیں اگر کوئی مولوی سن لیتا تو فو ر اً اسے اسلام سے فارغ کر دیتا ، مثلاً تقریباً حرام ، ضروری فرض ، واقعی واجب، اشد حلال ، وغیرہ وغیرہ۔ ۔ ۔ گپتا جی اس ناانصافی پر"پان کے گھونٹ" پی گئے جو حسب معمول ان کے منہ میں موجود تھا ۔ ان کی پان کھانے کی عادت بھی غضب تھی ، چاہے کوئی انہیں بھلا برا کہہ دے ، جب تک پان اچھی طرح چبا کر تھوک نہیں دیں گے جواب نہ دیں گے۔ تب تک مخالف کو یہ احساس ضرور ہو جاتا کہ بھلا انسان ہے ، اہنسا وادی ہے ۔ جمّن بھی ان کی اسی عادت کا فائدہ اٹھاتا۔ لیکن جمّن کی شخصیت میں جو احمقانہ معصومیت شامل تھی اس کے چلتے کوئی اس کی کسی بھی حرکت کا برا نہیں مانتا ۔ میری اور اس کی بچپن کی دوستی تھی ، خاندانی شخص تھا ، دل کا حاتم طائی ، سدا بہا رہنس مکھ ، لیکن بیروزگارتھا ۔ اتنی قابلیت نہیں تھی کہ آسانی سے جاب مل جاتی ، اور نہ اتنا دماغ ہی تھا کہ کچھ "جگاڑ" کر کے کام چلا لیتا۔ میں نے سوچا کیا "ہندو راشٹر" میں بیروزگاری ختم ہو جائے گی ؟

جمّن کے ساتھ ادھر ادھر کی باتیں ہوئیں ، چائے کے پیالے چھلکے ، سگریٹ کا دھواں جمع ہونے لگا ۔
دھابے میں محمد عزیز کا گیت " دنیا میں کتنا غم ہے ، میرا غم کتنا کم ہے " بج رہا تھا ۔ میں نے صبح والی خبر کا ذکر چھیڑ دیا ۔ جمّن نے ایک ناقدانہ نظر مجھ پر ڈالی ، پھر حسب معمول اپنے انداز میں مسکرایا ( جمّن جب مسکراتا تو بالکل ایسے لگتا گویا دل ہی دل میں بھلا برا کہہ رہا ہو ) . اور کہا " ابے یار کیا فرق پڑتا ہے"
گپتا جی جو اب تک خاموش تھے ،پھر بولے "ہوں"
میں جھلا گیا " تو کیا واقعی کوئی فرق نہیں پڑتا ، میں ہی احمق ہوں جسے دنیا بھر کی فکر ہے" .
جمّن نے کہا " فرق پڑتا ہے بھائی ، لیکن کسے فرق پڑتا ہے یہ اہم ہے ، اے چھوٹے ادھر آ"
اس نے ایک نوکر کو پکارا جس کو سب چھوٹے کہتے تھے .
چھوٹا دوڑ کر آیا اور پوچھا " کیا لاؤں صاب"
جمّن نے پوچھا " یہ بتا توہندو ہے یا مسلمان ، تیرا نام کیا ہے"
چھوٹے نے دانت نکال دئیے " میں غریب ہوں صاب، اور میرا نام چھوٹے ہے" .
میں نے سگریٹ کا سارا دھواں یکبارگی چھوڑ دیا .
چھوٹے بدستور دانت نکالے کھڑا تھا ، گپتا جی پھر خاموش ہوگئے تھے اور جمن پھر اپنے مخصوص انداز میں میری طرف دیکھ کر مسکرانے لگا تھا . بیک گراونڈ میں محمد عزیز کا گیت گونج رہا تھا
Yahya Khan Yusufzai
About the Author: Yahya Khan Yusufzai Read More Articles by Yahya Khan Yusufzai: 2 Articles with 2176 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.