وہی ہوا جس کی ایک ظالم سے توقع
تھی۔ جس قوم کا خمیر ظلم و نا انصافی کے گارے سے اٹھایا گیا ہو، ان سے عہد
وپیماں وفا ہونے کی توقع رکھنا خام خیالی اور بادشاہوں کی دنیا میں رہنے کے
سوا کچھ نہیں کہلا سکتا۔ کم عقل اور حقائق سے نابلد ہیں ہمارے وہ دانشور جو
خار وخس میں لالہ و گل کی لطافتیں ڈھونڈتے رہے ہیں۔ مجرم ہیں ہمارے وہ
رہنمایان ملت جو دوزخ کی آگ سے باد نسیم کے جھونکوں کاانتظار کر رہے تھے
اور غفلت شعار ہیں ہم پوری قوم جو خزاں کے موسم میں کلیاں کھلنے کی آس پر
جی رہے تھے۔ کافر، اہل حرم سے دوستی کا بھرم رکھ کر ہمیں ہماری”عافیہ“ لٹا
دیتا کیسی احمقانہ سوچ اور صدیوں پر پھیلی تاریخ سے نری جہالت کا ثبوت ہے۔
امریکی عدالت نے ڈاکٹر عافیہ کو مجرم نامزد کر دیا ہے۔ اور اب ہمارے بہت سے
نوحہ گر اپنی نوحہ گری میں اس واقع کو دفن کرنا چاہتے ہیں۔ مختلف لوگوں کے
اپنے اپنے ردعمل کے زاویے اور اپنے انداز ہیں۔ مگر ایک حقیقت جو تلخ ہے ہم
سب کو تسلیم کرنی چاہئے کہ اس واقعے میں امریکہ کو دس بیس سنانے کے بجائے
اپنے گربیان میں جھانک کر اپنے کردار و عمل کا تنقیدی جائزہ لینا ہوگا کہ
ہم نے اپنے اوپر عائد ہونیوالی ذمہ داریوں کو کس حد تک نبھایا ہے۔ اس لئے
کہ اگر پاکستانی قوم نے مجموعی طور پر اپنی ذمہ داریوں کا احساس کر کے
انہیں نبھایا ہوتا تو یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ آج امریکہ کو
ایسی حرکت کی کبھی جرات نہ ہوتی اور اگر طاقت کے نشے میں دھت ہونے کی بناء
پر ایسی حرکت کر ہی بیٹھتا تب بھی اسے وہ سبق سکھایا جاتا جو رہتی نسل تک
اسے یاد رہتا۔
کیا یہ ہماری قومی بے حسی اور اجتماعی بزدلی کا شاخسانہ نہیں کہ اسلام کی
اس عظیم بیٹی کو امریکی درندوں اور صلیبی بھیڑیوں کے حوالے کرنے والا کوئی
اور نہیں ”اسلامی جمہوریہ“ کہلانے والے ملک پاکستان کا صدر اور اس وقت کا
حاضر سروس آرمی چیف تھا؟ اور اس وقت پاکستان کے وزیراعظم کی سیکورٹی پر
مامور اہلکار اسی امریکہ کے اہلکاروں کے تربیت یافتہ نہیں ہیں؟ کیا اب بھی
ہمارے حکمران، ہر معاملے میں اسی امریکہ سے بھیک مانگتے اور اسی کے درپہ سر
سجدہ خم نہیں کرتے؟ کیا اب بھی کئی خفیہ مقامات پر ہمارے فوجی جوانوں کی
تربیت انہی درندوں کے سپرد نہیں ہے(جیسا کہ لوئر دیر دھماکے میں ہلاک ہونے
والے امریکی فوجیوں سے آشکارا ہے) پرویز تو ایک آمر تھا۔ مگر یہ موجودہ
حکمران کس کے ووٹوں سے منتخب ہو کر ان کرسیوں تک پہنچے ہیں؟ یہ عوام ان سے
اس کا حساب کیوں نہیں مانگ رہی؟ بے شک بہت سے معاملات جذبات سے حل نہیں
ہوتے مگر کیا جذبات کو دفن کر کے بے حسی و بے غیرتی کی چادر تان لینے سے
مسائل حل ہو جاتے ہیں۔ ہم سے تو وہ لوگ اچھے رہے جنہوں نے اسلامی غیرت اور
قومی حمیت پر ایک حرف بھی نہیں آنے دیا اور آج امریکہ کو اپنے سامنے گھٹنے
ٹیک کر مذاکرات پر مجبور کر دیا ہے۔”زندگی اور موت کا ہر لمحہ اﷲ تعالیٰ کے
قبضے میں ہے“ کا نعرہ لگانے کے باوجود ہم نے عملی طور پر اس کی صداقت کا
کتنا ثبوت دیا ہے۔ اور یہ بات کوئی مانے یہ مانے مگر دیکھنے والے دیکھ رہے
ہیں کہ صدیقی خاندان سے تعلق رکھنے والی”عافیہ“ کے اولین فرد جناب صدیق
اکبر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے اوصاف و کمالات اور داستان جہدو عزیمت کی ایک
ایک کرن کا پر تو اس عافیہ میں نظر آئے گا۔ کیا یہ بات قابل غور نہیں کہ
سات سال تک امریکہ خونخوار نے اس نہتی اسلام کی بیٹی کو اپنے جبرو تشدد کا
نشانہ بنایا اور اس تمام عرصے میں امریکہ نے نامعلوم کتنے ناحق راستوں کے
انتخاب پر اس نشانِ عزیمت کو رہائی و آزادی کی پیشکش کی ہوگی مگر آفریں صد
آفریں۔ اے صدیق کی نشانی! ہر جبرو تشدد تو نے خود پر سہہ لیا لیکن دنیا کا
کفر تجھے حق سے ہٹانے میں ناکام رہا جیسے سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ تعالیٰ
عنہ کو مشرکین مکہ، محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے نہیں کاٹ سکے
تھے اسی طرح ان مشرکین کے پیروکار امریکی بھیڑیے، تجھے محمد رسول اﷲ صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم کے دین سے نہیں کاٹ سکے۔
کیا اب بھی اہلیان پاکستان کیلئے وہ وقت نہیں آیا جب وہ خوف و بزدلی اور بے
حمیتی و غفلت کی چادر پھینک کر ”راہ حق“ کیلئے نکل کھڑے ہوں۔ عافیہ نے بتا
دیا کہ اگر ارادے مضبوط ہوں، اپنے رب پر بھروسہ ہو، اپنی نیت خالص ہو،
چہروں پر عبادت کے جعلی نشانات اور دلوں میں کھوٹ بھرا ہوا نہ تو دنیا کی
کوئی طاقت آپ کو جھکا سکتی ہے اور نہ ہی آپ کی زندگی کا کوئی لمحہ کم کر
سکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ ہی”عافیہ“ کا مجرم نہیں ہم بھی”عافیہ“ کے
مجرم ہیں۔ قرآن وسنت اور تاریخ کی روشنی میں اس حادثے کا مداوا واضح طور پر
مذکور ہے مگر ہم نو سال ہوئے خوف و بزدلی کی ایسی دلدل میں جا گرے ہیں کہ
ابھی تک ہمارے ہوش و حواس بحال نہیں ہوئے۔ نو سال قبل یہی امریکہ ہم سے
کھلی جنگ پر اترا تھا اور آج تک یہ جنگ جاری ہے مگر ہم ابھی تک اس جنگ
کو”ہماری جنگ“ تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہوئے اور اسی لئے نہ صرف یہ کہ
دشمن کے مقابلے میں خود آگے نہیں بڑھے بلکہ جنہوں نے ہمیں خطرے سے آگاہ
کیا، ہماری خیر خواہی کرتے ہوئے ہمیں اپنے دشمن کا پتہ دیا الٹا اسی کو
اپنا دشمن گردانا، ان خیرخواہان کو اپنے معاشرے میں تنہا کرنے کی ناکام
کوشش کی۔ جی ہاں!بلامبالغہ اور باہوش و حواس یہ اعلان کرتا ہوں کہ اس وقت
امت مسلمہ اور”ڈاکٹر عافیہ “ کے حقیقی اور عملی خیر خواہ کوئی ہیں تو
وہ”مجاہدینِ اسلام“ ہیں جو نو سال سے امریکی درندے سے ٹکرا رہے ہیں اور
اپنے نادان بھائیوں کی دشمنی کے وار بھی سہہ رہے ہیں۔ اور مجھے امید ہے کہ
انشاءاﷲ وہ اس کا بدلہ لیں گے۔ قارئین کو شاید یہ بات انوکھی لگے لیکن یاد
کریں وہ وقت جب چند خبیث شریروں کی جانب سے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
کی شان اقدس میں گستاخی کا ارتکاب کرتے ہوئے کارٹون شائع کئے گئے تھے اس
وقت پوری اسلامی دنیا میں کہرام مچا تھا۔ ہر ملک میں ہر نوعیت کے احتجاج
ہوئے تھے مگر کیا ہوا؟.... جب ایک جانباز اسلام نے افغانستان میں اس ملک کے
فوجیوں کے چیتھڑے اڑائے اور ساتھ ہی یہ پیغام دیا کہ”یہ محمد صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم کے ایک ادنیٰ امتی کی جانب سے اپنے حبیب صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
کی گستاخی کرنے والوں سے بدلے کی ابتداء ہے“ تو پھر دنیا بھر نے دیکھا کہ
اسی دن اس ملک کی قومی اسمبلی سے اس جرم کا ارتکاب کرنے والے رکن پارلیمنٹ
کو نکال باہر کیا گیا۔ آج بھی ایسے جانبازوں کی کمی نہیں جو اس کا بدلہ
چکائیں گے۔ مگر پھر وہی گزارش کہ ہم اپنے اپنے گریبان میں جھانکیں کہ ہمارے
دامن میں کیا ہے؟
اور آخر میں قارئین کی خدمت میں پیغام بھری نظم جو حضرت مولانا مفتی محمد
شفیع صاحب رحمتہ اﷲ علیہ کے صاحبزادے مشہور شاعر جناب زکی کیفی رحمتہ اﷲ
علیہ نے اسرائیل کے ہاتھوں عربوں کی شکست کے موقع پر”حادثہ“ کے عنوان سے
رقم کی تھی۔ اور آج یہ حادثہ بھی ہمارے لئے قومی و ملی شکست سے کچھ کم نہیں
ہے۔ اس لئے ملاحظہ فرمائیں اور اس میں موجود پیغام کو سمجھیں اور اپنی اپنی
ہمت کے مطابق راہ عمل میں قدم زن ہو جائیے!
بدلی ہوا، فضا پہ اندھیرا سا چھا گیا
میں ڈر رہا تھا جس سے وہی پیش آگیا
آخر فریب دے گئی دشمن کی دوستی
اک مار آستیں تھا جو ڈستا چلا گیا
کس ناز دلبری سے بچھائی بساطِ شوق
کس بے رخی سے وقت پہ دامن چرا گیا
اہل وفا کی دھن میں محبت کی تال میں
ظالم جفا و جور کی تانیں اڑا گیا
سادہ دلوں کو پہلے تو اک آسرا دیا
آخر کو ہر چراغ تمنا بجھا گیا
دانہ دکھا کے دام زمیں پر بچھا دیے
ہنستے لبوں نے زخم سے سینے سجا دیے
فطرت ہو ظلم جس کی وہ پاس وفا کرے
آتش کدہ سے موجہ کوثر اٹھا کرے
جھونکے چلیں نسیم کے دوزخ کی آگ سے
زہر اب اور دعویٰ آبِ بقا کرے
ہوں خار و خس میں لالہ و گل کی لطافتیں
کرگس ہو اور دعویٰ ظل ہما کرے
فرعون اور در پہ غریبوں کے سربہ خم
پتھر کا بت ہو اور خدا کی ثنا کرے
کلیاں کھلیں چمن میں خزاں کے ورود سے
صر صر ہو اور کار نسیم و صبا کرے
ہو شب کی ظلمتوں سے نمود آفتاب کی
دھوکا نہ کھا یہ سب ہے نمائش سراب کی
بن جائیں آشیاں کی نگہبان بجلیاں
رہزن کو اور فکر رہ کارواں غلط
صیاد اور مرغ گرفتار چھوڑ دے
ظالم جفا پرست بنے مہرباں غلط
ناقوس کی صدا میں ہو نغمہ اذان کا
کعبہ کے اہل دیر بنیں پاسباں غلط
کافر ہو اور اہل حرم سے ہو دوستی
طاغوت اور حفاظت روحانیاں غلط
افعی ہو اور زہر سے خالی سرشت ہو
یہ فکر یہ خیال یہ وہم و گماں غلط
دشمن ہے کس خیال میں تو کس خیال میں
کیوں سبز باغ دیکھ کے پھنستا ہے جال میں
تو نے دیا تھا درس خودی کائنات کو
تو نے ہی اس خودی کا تصور بھلا دیا
لے کر چلا تھا تو ہی مساوات کا پیام
تو نے ہی نسل و رنگ کا فتنہ جگا دیا
تزئین کائنات کا تو ہی نقیب تھا
تو نے ہی اپنے ہاتھ سے گلشن جلا دیا
کل تک تیرے حضور یہ دنیا تھی سر بہ خم
تو نے ہی اس کے سامنے اب سر جھکا دیا
تو بت شکن تھا تجھ سے تھے لرزاں صنم کدے
تو نے ہی اپنے دل کو بتوں سے سجا دیا
غیروں سے دوستی ہوئی اپنوں سے کٹ گیا
توحید سے ہٹا تھا کہ حصوں میں بٹ گیا
مجھ کو یہی تو غم ہے کہ تو خود نگر نہیں
گم کردہ راہ تجھ سا کوئی راہبر نہیں
روندے گئے ہیں جو ترے قدموں سے باربار
اے سادہ لوح کیا یہ وہی بحر و بر نہیں
منزل وہ کونسی ہے جو ہو تجھ سے اجنبی
کس راہ شوق میں تیری گرد سفر نہیں
تھا روشناس کون تمدن کے نام سے
ہے کون ارتقا کا سبب تو اگر نہیں
تاریکیوں سے وقت کے مت نا امید ہو
وہ رات کون سی ہے کہ جس کی سحر نہیں
دنیا کا ڈر نکال دل ناصبور سے
روشن چراغ عشق کر ایماں کے نور سے
ہمت نہ ہار کفر کی اس ترک تاز سے
تو آشنا ہے سارے نشیب و فراز سے
سازو رباب و بربط و مینا کو توڑ کر
گرما دلوں کو آتش سوز و گداز سے
یہ امتیاز نسل وطن اک فریب ہے
یہ نغمہ بے سراہے نہ چھیڑ اپنے ساز سے
کر سربلند وحدت اسلام کا علَم
اردن، عراق ،مصر ،یمن اور حجاز سے
پھر ساز دل پہ نغمہ توحید چھیڑ دے
سجدہ میں رکھ کے سر کو ادب اور نیاز سے
اس میں کوئی کلام نہ حاجت دلیل کی
فرعونیت شکن ہے ہر اک موج نیل کی |