کراچی کے بلدیاتی انتخابات توقعات و خدشات

بلدیاتی انتخاب کے حوالے سے ایک سوال جو لوگ آپس میں ایک دوسرے سے کررہے ہیں کہ کیا بلدیاتی انتخاب ہو بھی جائیں گے اس کی ایک وجہ ماضی قریب کی تو یہ ہے کہ حلقہ بندیوں اور حدود بندیوں کے حوالے سے الیکشن کمیشن ،صوبائی حکومتوں ،اور سیاسی جماعتوں میں جو کھینچا تانی ہو رہی ہے اس نے ابہام کی دیوار کھڑی کردی ہے پھر یہ کیس عدالتوں میں بھی چلا گیا ہے ،اس لیے عام لوگوں کو ہی نہیں سیاسی جماعتوں کو بھی یہ خدشات لاحق ہیں کہ ادھر ہم بلدیاتی انتخاب کی مہم چلا رہے ہوں اور ادھر کوئی عدالتی فیصلہ ایسا آجائے جس سے پورا انتخابی عمل متاثر ہو جائے ۔ابھی تک کی صورت تو یہ ہے کہ صرف کے پی کے میں اور اس سے پہلے بلوچستان میں بلدیاتی انتخاب ہو چکے ہیں ۔ ان دونوں صوبوں کے انتخابات میں شکایات پیدا ہوئی تھیں لیکن بہرحال کسی نہ کسی شکل میں کام کا آغاز تو ہو گیا ۔بلدیاتی انتخاب ہوں گے یا نہیں ہوں گے کی ایک وجہ پی پی پی اور ایم کیو ایم میں اس حوالے سے شدید اختلافات ہیں پی پی پی یہ سمجھتی ہے کہ سندھ کے بڑے شہروں میں وہ کامیاب نہیں ہو سکتی اور شہروں کی بلدیاتی قیادت کسی وجہ سے ایم کیو ایم کے ہاتھ نہ بھی آئی تو کم از کم اس کو نہیں ملے گی اس لیے سندھ کے شہری عوام میں یہ شبہات جڑ پکڑ رہے ہیں پی پی پی کسی بھی صورت میں ان کماؤ پوت اداروں سے دستبردار نہیں ہوگی اور وہ کوئی ایسا چکر درمیان میں ڈال سکتی ہے کہ صوبہ سندھ کے انتخاب ملتوی ہو جائیں ۔اور اسی طرح کی کوئی وجہ پنجاب میں بھی ہو سکتی ہے لیکن اگر پنجاب میں یہ انتخاب ملتوی ہو بھی جائیں وہاں کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ شہباز شریف صاحب خود اتنے ترقیاتی کام کررہے ہیں کہ بلدیاتی انتخاب کی عملاَ ضرورت محسوس نہیں ہوتی ،بس اگر انتخاب ہو گئے تو کچھ ن لیگ کے لوگ روزگار سے لگ جائیں گے ۔

صوبہ سندھ میں مسئلہ دوسرا ہے یہاں پر پی پی پی ترقیاتی پروگراموں کا پروپیگنڈہ تو کرتی ہے لیکن عملاَ کچھ ہوتا ہوا نظر نہیں آتا یہاں پر کرپشن کے اتنے کیسز ہیں کہ جس فرد یادارے پر ہاتھ ڈالا جائے تو اربوں اور کھربوں روپئے کے کرپشن کی ایک دلدل نظر آتی ہے اسی لیے جواباَ یہ کہا جارہا ہے کہ ہر ریاستی اداروں کا احتساب ہو نا چاہیے آپ کون سے دودھ کے دھلے ہوئے ہیں جو سیاسی لوگوں کی کرپشن پر ہاتھ ڈا ل رہے ہیں بہر حال سندھ میں کمیشن اور کمائی کا مسئلہ ہے اس لیے عام لوگوں کو یہ شبہ ہے کہ یہاں پر بلدیاتی انتخاب نہیں ہو پائیں گے اسی لیے اس درمیانی مدت میں سندھ کی حکومت نے اپنی من پسند قسم کی قانون سازی کرکے کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (کے بی سی اے )کو سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ( ایس بی سی اے)بنادیا کہ یہی سب سے زیادہ کمائی والا محکمہ تھا اسی طرح منافع بخش محکموں کو صوبہ سندھ کے ماتحت لیا جارہا ہے کہ اگر بلدیاتی اداروں میں کوئی دوسری پارٹی یا ایم کیو ایم ہی برسراقتدار آجائے تو یہ کمائی والے ادارے صوبائی حکومتوں کے پاس ہی رہیں گے ۔

انتخاب ہونے یا نہ ہونے کے مخمصے کی ایک مستقل وجہ یہ بھی ہے کہ پی پی پی اور مسلم لیگ کی ماضی کی تاریخ اس حوالے سے تاریک ہے کہ کہ یہ دونوں پارٹیاں چار دفعہ اقتدار میں آئیں اور انھوں نے اپنے دور اقتدار میں کبھی بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے ۔ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور اول میں یہ انتخاب نہیں کرایا پھر دو مرتبہ بے نظیر بھٹو وزیر اعظم بنیں انھوں نے بھی نہیں کرایا اس کے بعد آصف زرداری صاحب پانچ سال تک صدر رہے انھوں نے بھی اس طرف کوئی توجہ نہیں دی جناب نواز شریف صاحب کا ببھی یہ تیسرا دور حکومت ہے پہلے دو ادوار میں انھوں نے بھی پی پی پی کی طرح انتخاب نہیں کرائے تھے اس لیے اب بھی ان کا کردار مشکوک نظر آتا ہے ۔ان دونوں پارٹیوں کے بلدیاتی انتخاب نہ کرانے کی وجہ یہ بھی ہے کہ اس سے ان کی پارٹیوں میں نچلی سطح تک انتشار ،اختلاف اور گروپ بندی کا خطرات پیدا ہوجانے کا اندیشہ رہتا ہے ۔

پچھلے چند ماہ سے رینجرز سندھ نے سندھ میں اور بالخصوص کراچی جو آپریشن شروع کیا ہے اس سے عام لوگوں میں ایک اعتماد پیدا ہواہے اور اس کا اظہار اس طرح سے سامنے آیا کہ بلدیاتی انتخاب میں حصہ لینے کے حوالے سے ہر سیاسی جماعت کے لوگ جوق در جوق اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرانے آئے ہوئے تھے ان کو اس بات کا اعتماد تھا اب کراچی میں انتخاب پرامن اور کسی خوف اور تشدد سے پاک ہوں گے ورنہ اس سے پہلے صورتحال یہ تھی صرف جماعت اسلامی وہ واحد جماعت تھی جس نے ایم کیو ایم کی غنڈہ گردی کا ہر الیکشن میں ڈٹ کر مقابلہ کیا دیگر جماعتیں خوف کی وجہ سے خاموشی اختیار کر لیتی تھیں ۔

اب کچھ ایسے خدشات سامنے آرہے ہیں کہ یہ بلدیاتی انتخاب ایک بار پھر ٹھپہ مافیا کے حوالے کرنے کا پروگرام بنایا جارہا ہے کہ اچانک ایم کیو ایم اور حکومت کا معاہدہ ہو گیا جس میں ایم کیو ایم اپنے استعفے واپس لے لے گی اور اس کے بدلے شکایتی کمیٹی بنا دی جائے گی جو ان کی شکایات سنے گی پھر فیصلہ کیا جائے گا لیکن اندرون خانہ جو کہانیاں سامنے آرہی ہیں وہ بہت خوفناک ہے کہ ایک اخبار نے یہ خبر دی ہے کہ نواز شریف صاحب نے امریکا اور برطانیہ کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے کہ ان دونوں ممالک کی طرف سے یہ مطالبہ سامنے آیاہے کہ ایم کیو ایم کو راستہ دیا جائے اس کے خلاف آپریشن ختم کیا جائے اور اس کو بلدیاتی انتخاب میں فری ہینڈ دیا جائے ۔اس خبر نے سیاسی حلقوں میں سراسیمگی پھیلا دی ہے جناب نواز شریف صاحب اور آصف زرداری صاحب یہ دونوں ایسی شخصیات ہیں جنھیں کراچی کے شہریوں سے کوئی دلچسپی نہیں بلکہ اپنے اپنے مفادات سے دلچسپی ہے باقی کراچی والے جائیں بھاڑ میں ۔ایک کو اپنی کمائی سے دلچسپی ہے اور دوسرے کو اپنے اقتدار سے ۔یہ جو کراچی میں آئے دن ٹریفک پولیس کے اہلکار اور عام تھانوں کی پولیس کا شاہراہوں پر جو قتل عام ہو رہا ہے وہ ریاست کو ہی سزا دی جارہی ہے ورنہ ان بے قصور پولیس والوں کا کسی دہشت گرد سے کیا جھگڑااس کا قصور تو بس اتنا ہے کہ اس نے سرکاری وردی پہن رکھی ہے جو اس کے لیے کفن بن گئی ہے اگر بلدیاتی انتخاب میں ایم کیو ایم کو فری ہیند دیا گیا تو اس کا سب سے بڑا نقصان کراچی کے شہریوں کا ہو گا جنھوں کچھ سکھ کا سانس لیا تھا پھر کیا یہ جوپولیس اہلکار مارے جارہے ہیں یہ جو رینجرز اپنی جانوں پر کھیل کر ٹارگٹ کلرز کو گرفتار کررہے ہیں اور یہ جو کراچی میں آپریشن ہو رہا ہے یہ جو بھتا گیری کم ہوئی ہے یہ سب کچھ نواز شریف صاحب ضائع کرنا چاہتے ہیں صرف اس لیے کہ امریکا اور برطانیہ کو خوش رکھا جائے کہ شاید وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا اقتدار ان کی وجہ سے قائم ہے ۔میرا خیال ہے کہ ہماری اسٹبلشمنٹ ایسا نہیں ہونے دے گی وہ اپنی محنتوں کو ضائع نہیں ہونے دیں گے اور دہشت گردوں کے خلاف اس آپریشن کو اپنے منطقی انجام تک پہنچائیں گے ۔مذکورہ اخبار کی خبر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ امریکا اور برطانیہ یہ سمجھتے ہیں کہ قندوز میں جو کارروائی ہوئی ہے اس میں پاکستان کی آئی ایس آئی کا ہاتھ ہے اس لیے وہ کراچی میں ایم کیو ایم کو کھلی چھوٹ دلا کر آئی ایس آئی سے اپنا بدلہ چکانا چاہتے ہیں ہماری دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہمارے حکمرانوں عقل سلیم عطا فرمائے اور انھیں اپنے ذاتی مفادات سے اوپر اٹھ کر قوم کے اجتماعی مفادات کو اپنی ترجیحات میں سب سے اوپر رکھنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین
Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 80 Articles with 56270 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.