کوئی دن ایسا نہیں گذرتا
جس میں کوئی خوشی کی خبر انسان کو نصیب ہو ہر گذرنے والا دن آنے والے اچھے
دن کی امید میں گذر ہورہا ہے مگر جیسے ہی نیا دن شروع ہوتا ہے ویسے ہی
انسان کی مشکلات اور پریشانیوں میں بھی اضافہ ہونا شروع ہوجاتا ہے پہلے تو
ہمیں ہماری اپنی پولیس اور ان جیسی دوسری ایجنسیوں سے ڈر لگا رہتا تھا کہ
نہ جانے کب اور کہاں بے چارے غریب انسان کی شامت آجائے جس طرح نوجوان ڈاکٹر
بنتے وقت مردے کے جسم پر تجربات کرکے سیکھتے ہیں اسی طرح ہمارے پولیس
اہلکار بھی اپنے تجربات اور مشاہدات میں اضافہ کرنے کے لیے انسانوں کو
برائلر مرغی کی طرح ذبح کردیتے ہیں پولیس کی خفیہ تحقیقات جو اب خفیہ نہیں
رہتی بلکل اسی طرح برطانوی خفیہ ادارہ جی سی ایچ کیو بھی پاکستان میں
کمیونیکیشن ڈیٹا کی نگرانی کرتا رہا ہے ہمارے لیے تو یہ انکشاف حیرت ناک ہی
نہیں بلکہ خوفناک بھی ہے کہ جسکا جب جی چاہے وہ اپنے تجربات کرنے منہ
اٹھائے پاکستان کا رخ کرلے اور ہمارے پاس ان کو چیک کرنے کے لیے کوئی طریقہ
کار ہی موجود نہیں ہم اپنے اندورنی مسائل سے جان چھڑوائیں تب ہی باہر کے
حالات دیکھ سکیں گے برطانوی ادارے نے ہم سے جو معلومات حاصل کی اس قسم کے
ڈیٹا تک رسائی کے لیے ’سی این ای‘ یا کمپیوٹر نیٹ ورک ایکسپلوائٹیشن کا
استعمال کیا گیا، ٹیکنالوجی کمپنی ’سسکو‘ کے راؤٹرز کو ہیک کر کے معلومات
حاصل کی گئیں، یہ جاسوسی برطانوی حکومت کی اجازت سے کی گئی تھی،بظاہر اس کا
مقصد دہشت گردوں کی شناخت اور نشاندہی میں مدد کرنا تھا ’سی این ای بنیادی
طور پر ڈیجیٹل جاسوسی ہے جس میں آپ ان چیزوں کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہے
ہیں جو آپ کی ملکیت نہیں اور اس سلسلے میں جی سی ایچ کیو اور این ایس اے
جیسے خفیہ ادارے نیٹ ورک سروس پروائیڈر کے علم میں لائے بغیر خفیہ طور پر
ان نیٹ ورکس سے جڑے ایسے آلات تک مکمل رسائی پا لیتے ہیں جن میں ان کی
دلچسپی ہو۔ اب جدید سمارٹ فونز کو سکیورٹی ایجنسیوں کی مکمل رسائی سے محفوظ
رکھنا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے اور ایسے فون استعمال کرنے والے اپنی
معلومات کے بچاؤ کے لیے نہ ہونے کے برابر اقدامات ہی کر سکتے ہیں جبکہ یہ
انکشاف بھی کسی حیرت سے کم نہیں ہے کہ برطانوی خفیہ ادارہ جی سی ایچ کیو اس
بات پر قادر ہے کہ وہ فون کے مالک کے علم میں آئے بغیر فون ہیک کر سکے جی
سی ایچ کیو ایک انکرپٹڈ تحریری پیغام بھیج کر کسی بھی سمارٹ فون کو تصاویر
کھینچنے یا اس پر کی جانے والی بات چیت سننے کے لیے استعمال کر سکتا
ہے۔امریکی خفیہ ادارے کے اہلکار سنوڈن نے بی بی سی کو انکشاف کرتے ہوئے یہ
بھی کہا کہ برطانوی جی سی ایچ کیو یا امریکی ایجنسی این ایس اے بڑے پیمانے
پر شہریوں کی نجی گفتگو سننے میں مصروف ہیں اور دونوں ایجنسیوں نے اس
ٹیکنالوجی میں بھاری سرمایہ کاری کی ہے جو سمارٹ فونز کی ہیکنگ میں استعمال
ہوتی ہے اور جب خفیہ ادارے کسی صارف کے فون تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں تو
پھر وہ جان سکتے ہیں کہ مذکورہ فرد ’کسے کال کرتا ہے۔ کیا پیغامات بھیجتا
ہے اور انٹرنیٹ پر کہاں کہاں جاتا ہے آپ کے رابطے میں رہنے والے افراد، آپ
کی نقل و حرکت اور ان وائرلیس نیٹ ورکس کا بھی علم ہوتا ہے جن سے آپ رابطہ
کرتے ہیں۔اسکے ساتھ ہی دوسرا انکشاف سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے
بھی کردیا کہ ممبئی حملوں کے بعد بھارت نے پاکستان میں فضائی حملوں کا
منصوبہ بنایا تھا، پاک فوج اور آئی ایس آئی دونوں ملکوں کے درمیان امن،
دوستی اور سلامتی کے معاہدے کی حامی تھی ۔ممبئی حملوں کے بعد سابق امریکی
صدارتی امیدوار جان مکین کی قیادت میں امریکی وفد نے جب ملاقات کے دوران
بھارتی حملے کا انکشاف کیا تو جواب میں انہیں پاکستان آرمی کی بھر پور
تیاریوں کے حوالہ سے بھی آگاہ کیا گیا کہ کسی بھی حملہ کو پسپا کرنے اور
دشمن کے دانت اکھاڑنے کے لیے پاک فوج ہر وقت تیار رہتی ہے تو اس کے بعد
بھارتی حکومت نے دوبارہ کبھی ایسا منصوبہ نہیں بنایا۔اگر بغور ان معامالات
کو دیکھا جائے تو ہم ابھی تک ٹیکنالوجی میں بہت پیچھے ہیں ہمارا نظام تعلیم
جو ہم میں تفریق پیدا کررہا ہے اسی وجہ سے یہ تمام کامیاں پیدا ہورہی ہیں
غریب محنت کش کا بچہ جو ذہین بھی ہے اور پڑھنے کا شوقین بھی مگر اسے وہ
مواقع نہیں مل رہے جو پیسے والوں کے پاس موجود ہیں یہی وجہ ہے غریب کے بچے
نے یہاں پڑھ کرپاکستان میں ہی رہنا ہے جبکہ امیر کے بچے نے پڑھنے کے بعد
حکمرانی کے لیے سول سروس کرنی ہے اگر نہ کرسکا تو باہر چلا جائیگا یہی وجہ
ہے کہ ہم دن بدن اوپر آنے کی بجائے مزید پریشانیوں کا شکار ہورہے ہیں تعلیم
اور صحت کو حکومت مفت کردے تو ہم آنے والے دس سالوں کے بعد ایک مضبوط اور
پائیدار قوم کے طور پر ابھر کرسامنے آسکتے ہیں جبکہ قانون کو مذاق بنانا
بھی اب ہمیں چھوڑنا پڑے گا اگر غریب کا بچہ گے گنا ہ ہی دھر لیا جاتا ہے تو
پھر پیسے والے اور حکمران طبقے کو بھی قانون کے دائرے میں لا کرحکومت کوبھی
آئین اور قانون کی پابندی کرنا پڑے گی مگر گذشتہ روز پنجاب اسمبلی کے اجلاس
میں جس طرح سپریم کورٹ کے حکم کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی گئی اس پر بھی میں
حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکا کیونکہ سپریم کورٹ نے اردو زبان کو سرکاری اور
دفتری زبان کے طور پر نافذ کرنے کا حکم دے رکھا ہے مگر پنجاب اسمبلی میں
سپیکر رانا اقبال نے جس طرح انگریزی زبان میں بل پڑھے تو اس سے محسوس ہوتا
ہے کہ حکومت کا فلحال سپریم کورٹ کا حکم ماننے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی
اور یونہی ڈنگ ٹپاؤ پالیسی پر عمل کرتے ہوئے امریکہ اور برطانیہ کے غلام
بنتے رہیں گے اور ان کالے انگریزوں کی لاقانونیت کی وجہ سے غریب پاکستان
آگے انکے غلام بنتے رہیں گے کیا یہ غلام ابن غلام کا سلسلہ کبھی رک پائے
گا۔ |