شادی کرانے کا ارجنٹ اور آسان طریقہ


ایک خبر کے مطابق انڈونیشیا کی ایک ضلعی انتظامیہ نے ایک عجیب فیصلہ کیا کہ مغرب کے بعد اگر کوئی لڑکا اور لڑکی اکٹھے مٹر گشت کرتے پائے گئے تو سزا کے طور پر ان دونوں کو پکڑ کر انکی شادی کر دی جائیگی۔ ہے نہ دلچسپ اور عجیب و غریب خبر!سوچیں کہ اگر ہمارے ہاں اس طرح کا کوئی قانون لاگو ہو جائے تو شاید نکاح پڑھانے کے لیے قاضی کم پڑجائیں گے اور ہر جائز ، ناجائز جوڑا شادی کے چکر میں مغرب کے بعد روڑ پر ہوگا اور پولیس انہیں اٹھا اٹھا کر تھانے ، میونسپل کمیٹی ، کسی مدرسے ، مسجد یا ڈی سی او آفس لیجارہی ہوگی۔

ہمارے للو میاں کے کارناموں سے تو آپ لوگ بخوبی واقف ہیں۔ بیچارے اخبار وغیرہ تو اسلیے نہیں پڑھتے کہ ایک کے دو نظر آتے ہیں اوپر سے اٹھارہ نمبر کا چشمہ۔ یا پھر اخبار الٹا کر کے پڑھتے ہیں۔ ٹی وی انکے بچے اپنے کارٹون کے چکر میں انہیں دیکھنے نہیں دیتے۔ اگر ٹی وی دیکھتے بھی ہیں تو صرف ممنوعہ اوقات میں جب سب گھر والے سو جائیں اور چینل مخصوص پروگرام چلائیں اور ممنوعہ پروگرام دیکھتے ٹی وی کی سکرین سے ایسے چپک جاتے ہیں جیسے ٹی وی پر آتی ہیروئین کو پپی کرنے کی کوشش کر رہے ہوں ۔ ریڈیو گھر میں ہے نہیں، ایک ٹوٹا پھوٹا ریڈیو انکے ابا کے زمانے کا انہوں نے یادگار کے طور پر شو کیس میں سجا کر رکھا ہو ا ہے، اوپر سے کانوں کے کچے اور بہرے پن کے مریض کہ کسی نے بتا دیا کہ مغرب کے بعد گرل فرینڈ کو باہر لیکر نکلو گے تو سرکار مفت میں شادی کرا دیگی۔ تو جناب لگے پلان بنانے کہ اس موقع سے فائدہ کیسے اٹھایا جائے؟۔

للو میاں نے شادی شدہ ہونے کے باوجود چونکہ ایک عدد لڑکی پٹا رکھی تھی اور روزانہ اس سے نکاح پانے کے چکر میں نت نئی تراکیب سوچتے تھے۔ خبر سنکر پہلے تو یہ سوچا کہ وہ دونوں بھی انڈونیشیا چلے جائیں تاکہ محبوبہ سے شادی کا کام آسان ہو جائے پر انکے پاس تو گھوٹکی یا خضدار تک جانے کے پیسے نہ تھے انڈونیشیا تو بھلا کہاں سے جاتے؟ پھر دل میں خیال آیا کہ کاش شامی بچے ایلان کی لاش دیکھ کر جس طرح یورپ جاگا ہے تو شاید انڈونیشیا بھی یونہی بغیر ویزے پاسپورٹ کے عاشقان کوسمندر کے راستے اپنے ملک آنے کی اجازت دیدے تو بہت آسانی ہو جائیگی ، پر یہ ان کی خام خیالی ہی تھی۔ خیر جناب! لگے بیچارے پٹانے اپنی گرل فرینڈ کو کہ شام کو مل لو بازار میں ڈیٹ مارتے ہیں پکڑے گئے تو فری فنڈ میں شادی ہو جائیگی۔ گرل فرینڈ نے پہلے تو کچھ نہ نکر کی ، مگر پھر ایک روز شام کا ٹائم دے دیا اور للو میاں سرِ شام ہی اپنی محبوبہ کو لینے ان کے در پر جا وارد ہوئے۔ وہاں پہنچتے ہی سب سے پہلے محبوبہ کے کتے نے للو میاں استقبال کیا۔ للو میاں نے بہت کوشش کی کہ ہش ہش پش پش کر کے اسے اپنے سے دور ہٹا دیں، پر وہ دور ہٹنے والا نہ تھا اور اس نے للو میاں کی پہلے تو شلوار کھینچ کر پھاڑی پھر قمیض کی باری آئی اسکے بعد آپ خود سمجھ جائیں شلوار قمیض کے بعد جسم پر صرف کھال بچتی ہے، تو پھر اس کھال کی باری تھی۔ راہ چلتے لوگوں نے بمشکل بیچارے للو میاں کو کتے کے نرغے سے بچایا اور پھر وہ روتے دھوتے قسمت کو کو ستے گھر آ گئے اور سوچنے لگے کہ کتے سے کیسے انتقام لیا جائے کہ انکا راستہ آسان ہو؟ ایک خیال دل میں یہ بھی آیا کہ اداکارہ مِیرا کی طرح وہ بھی شادی پر شادی خاموشی سے کر لیں تو کیا حرج ہے؟، کون پوچھے گا؟پر انکا دل نہ مانا کہ مِیرا تو پھر مِیرا ہے نہ!میرا مِیرا سے کیا مقابلہ؟۔کسی کے خیالوں پر کوئی قد غن نہیں کو سامنے رکھتے ہوئے للو میاں کو ایک اور خیال آیا کہ یا ریورپ میں تو لوگ برسوں بغیر شادی کے ایک ساتھ رہ لیتے ہیں تو ہم کیوں نہیں ؟پر پھر خود ہی اس خیال کو چھی چھی کرتے خان صاحب کی طرح ریجیکٹ کردیا۔

آخر کار للو میاں کو ایک ترکیب سوجھی کہ گوشت میں زہر ملا کر شاپر میں ڈال کر دوبارہ محبوبہ کے گھر پہنچے اور کتے کو گوشت کھلانے میں کامیاب ہوگئے۔ کتے صاحب نے گوشت بڑی خوشی سے نوش فر ما یا اور اور اسکے بعد تھوڑی دیر کاں کاں کی اور گلے سے کچھ ممنوعہ قسم کی آوازیں نکال کر وہیں ڈھیر ہو گیا۔ تاہم کچھ دیر کتے کی آواز گھر والوں کے کانوں میں نہ پڑنے پر لڑکی کے ابا نے گھر سے باہر نکل کر جو جھانکا تو بڑے پریشان ہوئے کہ کتے کو کون خبیث مار گیا؟ للو میاں نے کشیدہ حالات دیکھے تو وہاں سے نکلنے میں ہی عافیت جانی اور کسی اور روز کا پروگرام بنا کر وہاں سے پھر رخصت ہو گئے۔

کچھ روز بعد لڑکی کو گھر سے اٹھانے کی ایک اور ترکیب سوجھی اور پہاڑوں کی چوٹی سر کرنے والے کو ہ پیماؤں کے جیسا سامان لے کر پھر لڑکی کے گھر پہنچے تو ہر طرف سے گھر کے دروازے بند پائے۔ لڑکی کو فون کیا کہ پچھلی دیوار سے کود آؤ، پر دیوار بہت اونچی تھی اور لڑ کی کے ہاتھ پاؤں کی پہنچ سے بہت دور۔ للو میاں چونکہ رسی، کنڈے اور دیگر سازو سامان سے لیس تھے، فوری طور پر رسی لڑکی کو پکڑائی اور کھینچ کھانچ کر اسے گھر کی دیوار کراس کرانے میں کامیاب ہوگئے اور پہنچ گئے لڑکی کو لیکر اپنے ایک دوست کے گھر اورلگے تسلی دینے کہ بس کل ہم بعد نمازِ مغرب گھر سے روڑ پر نکلیں گے، پولیس والے پکڑیں گے، رشوت لیں گے اور ہم ایک دوجے کے ہو جائیں گے۔

لیں جناب اگلا روز آگیا اور بعد نماز مغرب للو میاں نکل پڑے لڑکی کو لیکر باہر کہ بس ابھی کوئی پولیس والا آئے گا ، پولیس وین میں بٹھائیگا ، پکڑ کر لیجائیگا اور شادی کرادیگا۔ تاہم ابھی عشق کے امتحان باقی تھے۔ بازار میں نکلتے ہی سب سے پہلے تو ایک ہمسائے سے ہو ا ٹاکرا اور للو میاں انہیں دیکھتے ہی سٹپٹا سے گئے اور لگے آئیں بائیں شائیں کرنے ۔ محلے دار کے پوچھنے پر بتایا کہ یہ لڑکی دراصل میرے چچا کے بھتیجے کے بیٹے کی بیٹی کی نند کی بھاوج کی بہن کی ، چچا کی بھتیجی ہیں اور میں انہیں بازار کی سیر کرا رہا ہو ں کہ یہ پنڈ سے آئی ہیں۔ان صاحب کو مطمئن کر کے کچھ آگے چلے تو حقیقی سالے صاحب مل گئے اور لڑ کی ساتھ دیکھ کر لگے انکوائری کرنے اور ساتھ میں تڑی بھی لگائی کہ سچ سچ بتاؤ ورنہ گھر جا کر باجی کو بتا دونگا کہ بھائی صاحب لڑکی کے ساتھ بازار میں گھوم رہے تھے۔للو میاں بڑے پریشان ہوئے کہ اب ا نہیں کیا بہانہ کریں کہ خیریت سے جان چھوٹ جائے ۔ خیر! انہیں یہ کہہ کر ٹالا کہ یہ میرے باس کی نئی سیکریٹری ہیں اور انہیں گھر چھوڑنے جا رہا ہوں کہ انہیں راستے میں لڑکے، بچے اور کتے سب مل کر چھیڑتے ہیں۔ سالے صاحب کی تسلی تو نہ ہوئی البتہ جیسے کیسے انہیں آئس کریم کھلا کر رخصت کر ہی دیا۔ مزید آگے چلے تو ایک دوست نظر آ گئے ، تا ہم للو میاں نے ایک پتلی گلی میں گھس کر اس سے جان بچائی اور لگے تسلی دینے خود کو اور لڑکی کو کہہ بس تھوڑا انتظار اور، پھر ہم ایک دوجے کے ہو جائیں گے۔

تاہم یہ انتطار بہت لمبا ہو تا جا رہا تھا اور انکی قسمت میں شاید ابھی مزید دھکے باقی تھے کہ سرِ بازار لڑکی کی ایک دوست ٹکرا گئی اور او ر لگی انگوئری کرنے کہہ کہاں گھوم رہی ہو رات کو؟ وغیرہ وغیرہ۔ لڑکی بھی سیانی تھی، للو میاں کو فورا چچا بنا لیا اور کہنے لگی کہ یہ دبئی میں ہوتے ہیں اور میرے لیے گفٹ نہ لا سکے تھے لہذا یہ مجھے پاکستان میں شاپنگ کرا رہے ہیں۔دبئی کا مال سمجھ کر لڑکی کی سہیلی بھی پھیل گئی اور اور فورا رات کے کھانے کی فرمائش کر دی کہ کسی اچھے ہوٹل میں کھانا کھلواؤ۔ للو میاں بیچاے نے نہ چاہتے ہو ئے بھی سب کو ایک اچھے اور مہنگے ہوٹل میں کھانا کھلایا اور پولیس کو کوستے باہر کو نکلے کو ویسے تو یہ پولیس والے کمبخت ہر جگہ پھر رہے ہوتے ہیں پر آج پتہ نہیں کہاں مر گئے کہ ہمیں پکڑنے کا نام ہی نہیں لے رہے کیونکہ للو میاں بیچارے فل موڈ میں تھے کہ آج تو بس شادی ہو کر ہی رہیگی اور آج رات نئی بیگم کے ساتھ گزاریں گے۔ مگر لگتا تھا کہہ شاید یہ انکا صرف خواب ہی تھا کہ ابھی بہت سے امتحان باقی تھے۔

رات بیتی جارہی تھی اور کوئی پولیس والا اس جوڑے کو پکڑنے نہ آرہا تھا اور دونوں کی مایوسی عروج پر تھی کہ اچانک للو میاں کی محنت اور دعا رنگ لائی اور ایک پولس وین انکے قریب آکر ر کی ہی تھی کہ دونوں جھٹ سے بھاگ کر از خود پولیس وین میں سوار ہو گئے۔ پولیس والے بڑے حیران ہوئے کہ یہ پہلا جوڑا دیکھا ہے کہ جو اپنی خوشی سے اتنی جلد پولیس کی گاڑی میں سوار ہو رہا ہے۔ خیر جناب! پولیس والے قریب آ ئے اور پوچھ گوچھ شروع کر دی کہ کہاں سے کیسے، کیوں، کیا وغیرہ وغیرو۔۔۔۔؟ جب پولیس والوں کو پتہ چلا کہ دونوں شادی کے چکر میں ہیں اور کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکے تو انہیں اٹھا کر پولیس اسٹیشن لے آئے۔ للو میاں بہت خوش ہوئے کہ اب بہت جلد انکی شادی ہو جائیگی او پھر موجا ای موجاں، اور پولیس اسٹیشن پہنچتے ہی پولیس والوں کے ہاتھ پر ہزار کا نوٹ رکھ کر بولے کہ میاں اب جلدی سے قاضی کو بلا کر ہماری شادی کا بندوبست کر دو۔ پولیس والے ہزار کا نوٹ لیکر بہت خوش ہوئے اور بولے کہ میاں ہم تمہاری شادی پہلے مولا بخش سے کریں گے اور پھر مولا بخش منگا کر للو میاں کی دھنا ئی شروع کر دی۔ للو میاں نے بہت آئیں بائیں شائیں کی کہ میاں میری ہونے والی جورو کے سامنے تو مت مارو ، پر ان کمبختوں نے ایک نہ سنی اور للو میاں کو ادھ موا کر کے حوالات میں ڈال دیا اور گھر والوں کا اتا پتا پوچھنے لگے جو کہ للو میاں اور لڑکی نے جلدی جلدی بخوشی دے دیے کہ شاید گواہان کے طور پر گھر والوں کو بلا رہے ہونگے اور نکاح نامے پر دستخط کرنے ہونگے۔

کچھ ہی دیر میں لڑکی کے ابا اور للو میاں کے گھر والے بمعہ گھر والی تھانے میں موجود تھے جنہیں دیکھ کر للو میاں شرم سے پانی پانی تو ہوئے پر حوصلہ رکھا کہ شاید پولیس والوں کے سامنے ا نہیں کوئی کچھ نہ کہے گا اور شادی ہنسی خوشی انجام پا جا ئیگی۔ تا ہم یہ انکی صرف خام خیالی تھی۔ پولیس والوں نے للو میاں اور چھوکری سے سنی گئی تما م کہانی انکے رشتے داروں کے گوش گذار کی تو سب بہت حیران ہوئے کہ للو میاں نے شادی کرنے کا یہ کونسا طریقہ نکالا؟۔ بیگم للو میاں جو کہ غصے میں تپی کھڑی تھیں، اس نے پولیس والوں سے ڈنڈا لیکر وہیں للو میاں کی دھنائی شروع کردی جسے کہ پولیس والوں نے خوب انجوائے کیا کہ پولیس والوں کا کام انکی بیگم خود ہی کرنے لگی تھی ۔ للو میاں نے پولیس والوں کی بہت منتیں کیں کہ اسے اس مصیبت سے نجات دلائی جائے ، پر وہ عورت اس وقت غصے میں دس مردوں پر بھاری تھی اور جب تلک تھک نہ گئی چھترول کر تی ہی رہی۔

پھر جب تمام رشتہ داروں کو حقیقت حال معلوم ہوئی تو سب لوگ للو میاں اور انکی محبوبہ کے اس بھولپن اور سادگی پر بہت ہنسے اور انہیں سمجھا یا کہ میاں یہ قانون پاکستان میں نہیں انڈونیشیا کے ایک قصبے میں لاگو ہو ا ہے۔یوں پھر یہ ڈرامہ علی الصبح کے قریب اپنے اختتام کو پہنچا اور سب لوگ اپنے اپنے متعلقہ لوگوں کو لیکر ، ہنستے روتے اور پولیس والوں کو کچھ دے دلا کر اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے۔ تو ذرا ہوشیار ، خبردار۔ آپ بھی ایسی کوئی کوشش کرنے کی کوشش نہ کیجئے گا!۔ سمجھے۔کیونکہ یہ انڈونیشیا نہیں پاکستان ہے میرے بھائی!۔

آخر میں پھر وہی نصیحت کہ ہمیشہ ہنستے مسکراتے رہیں کہ ہنسنا ہی زندگی ہے۔اس ناچیز کو اپنی روزمرہ دعاؤں میں یاد رکھیں اور ساتھ ساتھ اپنے کمینٹس بذریعہ بلاگ، ای میل اور فون ضرور دیں،جوکہ مزید بہتر لکھنے میں میرے معاون ثابت ہوتے ہیں۔
Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660
About the Author: Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660 Read More Articles by Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660: 93 Articles with 247443 views self motivated, self made persons.. View More