وراثت
(Shahid Shakeel, Germany)
بہت خوش نصیب ہوتے ہیں وہ لوگ
جنہیں وراثت میں مال و دولت،قیمتی سامان اور زمین جائداد بغیر کسی محنت
مشقت یا در بدر ٹھوکریں کھانے کی بجائے بیٹھے بٹھائے آباؤ اجداد سے مفت میں
مل جاتا ہے لیکن دنیا کا کوئی ایسا خطہ نہیں جہاں زمین جائداد یا قیمتی
املاک کا بٹوارے کے دوران جھگڑا نہ ہو کئی ممالک میں محض چند انچ زمین کے
ٹکڑے کی خاطر روزانہ کئی لوگ موت کا شکار ہو جاتے ہیں حتیٰ کہ قانون ہونے
کے باوجود کبھی قانون دان تو کبھی ورثاء ایک دوسرے کی آنکھوں میں دھول
جھونکنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے کئی افراد محض قانونی کارروائی میں
روکاوٹ ڈالتے یا کبھی قانون کے رکھوالے اپنی جیبیں گرم رکھنے کیلئے قانون
سے کھلواڑ کرتے اور کئی افراد کو اپنی کمائی کا ذریعہ یعنی کاٹھ کا الو
سمجھ کر سالوں سال عدالتوں میں رگیدتے اور خوار کرتے ہیں ۔ترقی پذیر ممالک
کا المیہ یہ ہے کہ قوانین پر عمل درامد نہیں ہوتا کیونکہ کرپشن نے ہر جگہ
اپنے نوکیلے پنجے گاڑھے ہوتے ہیں علاوہ ازیں ایسے ممالک میں غیر تعلیم
یافتہ افراد جو شاید شعور نام سے نابلد ہوتے ہیں وراثت میں ملی جہالت کو ہی
اول و آخر سمجھتے ہیں اسی پر قائم و دائم رہنے کے سبب معاملات کو خوش اسلو
بی ،روداری یا مصلحت سمجھ کر حل کرنے کی بجائے اپنی ہٹ دھرمی کی وجہ سے
اپنا تو نقصان کرتے ہیں لیکن انہیں اس بات سے بھی کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ
انکی بے جا ضد سے ان کے علاوہ اس جھنجھٹ میں الجھے دیگر کئی خاندان بھی تبا
ہ و برباد ہو جائیں گے،ترقی پذیر ممالک میں زمین جائداد کے معاملات صدیوں
پرانے ہیں اور کئی خاندان و نسلیں تباہ و برباد ہو بھی چکی ہیں لیکن نہ تو
حکمران اور نہ ہی عوام اس معمولی ایشو پر توجہ دیتی ہے کہ باہمی رضا مندی
سے مل بیٹھ کر حل کیا جائے عوام کوایک طرف سراسرجانی و مالی نقصان تو دوسری
طرف حکمران اور قانونی اداروں کو منافع،ظاہر بات ہے جب قوانین کا احترام
اور اس پر عمل نہیں کیا جائے گا تو ایسے ہزاروں لاکھوں کیس عدالتوں میں پڑے
سٹرتے رہیں گے عوام مرتے رہیں گے معاملات جوں کے توں رہیں گے اور نتائج قتل
و غارت کے بعد خاندان تباہ ہونگے پھر تاریخیں پڑیں گی وکلاء و ججز تبدیل
ہونگے لینڈ لارڈ ،ورثاء و دیگر افراد کیس بھگتاتے رہیں گے جوانی آئے گی
بڑھاپا آئے گا ملک الموت آئے گا لیکن کیس وہیں گے،زمین جائداد ٹس سے مس
نہیں ہوگی لیکن کئی نسلیں دنیا سے مِس ہو جائیں گیں، کیونکہ دنیا بھر میں
جن افراد کو جہاں وراثت میں قیمتی املاک یا زمین جائداد تو ملتی ہے وہیں
ساتھ میں شعور کی بجائے رگوں میں جہالت بھی خون میں نقل و حرکت کرتی ہے۔
ترقی یافتہ ممالک میں زمین و جائداد کے کیس میں زیادہ سے زیادہ تین تاریخوں
میں فیصلہ سنا دیا جاتا ہے ،پہلا مرحلے میں کیس عدالت میں دائر ہوتا ہے
دوسرے مرحلے میں وکلاء اور پارٹیاں عدالت میں پیش ہوتی ہیں اور تیسرے مرحلے
میں فیصلہ سنا دیا جاتا ہے اور یہ کارروائی روکاوٹ ڈالنے کے باوجود چھ ماہ
میں مکمل ہو جاتی ہے۔ایک جرمن میگزین میں زمین و جائداد کی تقسیم کیسے کی
جائے کہ کشیدگی یا لڑائی جھگڑا بھی نہ ہو اور منصفانہ طور پر جائداد کی
تقسیم ہوجائے کے عنوان سے ایک رپورٹ شائع ہوئی جس میں بتایا گیا کہ والدین
کی موجودگی میں تمام ورثاء یعنی بہن بھائی قسمیں کھاتے ہیں کہ وراثت میں
حاصل کی گئی جائداد یعنی مشترکہ جائداد میں ہمارے درمیان تنازعہ نہیں ہو گا
ہم فیئر رہیں گے اور سب کو ان کا حصہ ملے گا کیونکہ اس قسم کی قسمیں دنیا
بھر میں عام طور پر کھائی جاتی ہیں لیکن والدین کے رخصت ہوتے ہی جھگڑا شروع
ہو جاتا ہے وصیت نامہ موجود نہ ہونے کے سبب اگر ورثاء میں جنگ سرد مہری
اختیار کر لے تو عدالت سے رجوع کیا جاتا ہے جو سب کو ناکوں ناک چنے چبوا
دیتا ہے جہاں ایک پارٹی کو ہارنے کے بعد عدالتی کمرہ رنج و غصے سے چھوڑنا
پڑتا ہے ۔ڈسل ڈورف کی ماہر ایڈوکیٹ وکٹوریہ ریڈل کا کہنا ہے اس تمام محاز
آرائی کا ایک متبادل حل ہوتا ہے جسے قانونی زبان میں Inheritance
Mediationکہتے ہیں جہاں لڑاکا مرغوں کو مشترکہ طور پر میٹنگ کیلئے بلایا
جاتا اور انتہائی خفیہ طور پر ثالثی حل نکالا جاتا ہے ہمارے تجربے سے طویل
تکرار ،دلائل اور وضاحتوں کے بعد ثالثی حل مثبت اور سب کیلئے مفید ثابت
ہوتا ہے۔سوال ۔ جائداد کے معاملات میں باشعور ہونے کے باوجود کیوں ہمیشہ
ورثاء کے درمیان تنازعات پیدا ہوتے ہیں ؟۔ جواب۔تنازعات کی مختلف وجوہات
ہیں پہلی بات کہ وراثت کے بارے میں اکثر غلط تصورات پائے جاتے ہیں مثال کے
طور پر کچھ لوگ یہ سوچتے ہیں کہ میرے لائف پارٹنر کے انتقال کے بعد اس کا
سب کچھ خود بخود میرے نام منتقل ہو جائے گا کچھ لوگوں کو لگتا ہے کہ تمام
بچوں میں جائداد برابر تقسیم ہو جائے گی اس کے علاوہ کئی لوگ انفارمیشن نہ
ہونے پر قبل از وقت جائداد کے بارے میں کچھ زیادہ ہی امیدیں لگاتے ہیں اور
یہ سب کچھ مشکل اور ناممکن ہے لیکن سب سے زیادہ مشکل وہ غیر معمولی لمحات
اور حالات ہوتے ہیں جب اچانک کسی کی موت واقع ہو جائے تب ناقابل یقین حد تک
کشیدگی اور مشکلات پیدا ہوتی ہیں کیونکہ اگر جائداد کی تقسیم سے قبل مرنے
والے نے قرضوں کی ادا ئیگی کرنا ہو تو مزید تلخیاں پیدا ہوتی ہیں۔سوال۔کیا
کشیدگی یا خاندان میں جھگڑا کرنے کی گنجائش ہوتی ہے ؟۔ جواب ۔ موت کے موضوع
پر بہت کم کشیدگی پائی جاتی ہے لیکن میرا مشورہ ہے کہ جائداد کی تقسیم سے
قبل ورثاء آپس میں تفصیلاً بات چیت کریں کہ اصل مسئلہ کیا ہے اور قوانین
کیا کہتے ہیں بلکہ وراثت میں ملی یا ملنے والی جائداد کے بارے میں مکمل
انفارمیشن حاصل کرنا بہت اہم ہے،مثلاً والدین بچوں سے تفصیلاً بات چیت کر
سکتے ہیں کہ انہیں مشترکہ جائداد میں کون سی چیز پسند ہے جسے وہ بطور نشانی
اپنے پاس رکھنا چاہیں گے بدیگر الفاظ ہمارے انتقال کے بعد انہیں کیا چاہئے
لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ والدین اپنی املاک اور اسکی تقسیم کے بارے میں
مکمل انفارمیشن رکھتے ہوں مثلاً مکان ، گاڑی یا زیور وغیرہ اور انکی تقسیم
کے بارے میں یا بچوں کی خواہشات کو مد نظر رکھتے ہوئے قابل مشیر سے رابطہ
کرنا اور وصیت نامہ تیار کر نا لازمی ہوتا ہے۔سوال۔اگر ورثاء ثالثی میٹنگ
میں شرکت نہ کرنا چاہیں تو کیا قوانین ہیں اور کیسے معاملات حل کئے جاتے
ہیں ؟۔ جواب۔جتنا بڑا خاندان ہو گا اتنی زیادہ ثالثی عوامل میں مسائل اور
مشکلات پیش آئیں گیں لیکن ورثاء کو بہر حال کوشش کرنی چاہئے کہ وہ گول میز
کانفرنس میں شرکت کریں اور منصفانہ و متفقہ طور طریقوں سے ایسے فیصلے کریں
جن سے معاملات حل ہوں نہ کہ مزید کشیدگی پیدا ہو اور معاملات کو احسن طریقے
سے حل کرنے کیلئے وکلاء اپنی خدمات پیش کرنے کو تیار رہتے ہیں۔سوال۔کیا
ثالثی عوامل میں دیگر چیزیں بھی شامل کی جا سکتی ہیں جو وصیت نامہ تیار
کرتے وقت ان کا اندراج نہ کیا گیا ہو۔جواب۔معاہدے کے تحت ممکن نہیں لیکن
ٹھوس ثبوت اور دلائل کو مد نظر رکھتے ہوئے مزید چیزیں شامل کی جا سکتی ہیں
مثلاً دو بچوں کو زمین کا ایک ٹکڑا وراثت میں ملا ہے تو ثالثی اعتبار سے
دونوں مشترکہ طور پر استعمال کر سکتے ہیں یا باہمی رضا مندی سے فروخت کرنے
کے بعد اپنا حصہ لے سکتے ہیں اس ضمن میں وصیت نامے میں رد وبدل کئے بغیر
معاملات حل ہو سکتے ہیں لیکن وصیت نامہ تبدیل نہیں ہو سکتااور اگر وصیت
نامے میں ایک کو کم اور دوسرے کا زیادہ حصہ مقرر کیا گیا ہے تو اسے بھی
تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔سوال۔اگر ورثاء آپس میں بات چیت یا میٹنگ پر رضا
مند نہیں تو معاملات کیسے حل کئے جائیں ۔جواب۔خواہش،حوصلہ افزائی اور مرضی
کے تحت ہی تمام معاملات خوش اسلو بی سے حل کئے جا سکتے ہیں بدیگر صورت
عدالت فیصلہ کرنے کی مجاز ہوتی ہے کیونکہ عام طور پر وکلاء عدالت سے رجوع
کئے بغیر ہی ورثاء کی میٹنگ کرنے سے معاملات حل کر لیتے ہیں اور عدالت تک
جانے کی نوبت ہی نہیں آتی اور اسلئے وکلاء کے تجربے کے مطابق کلائنٹ کو
گزارش کی جاتی ہے کہ وصیت نامہ تیار کرلینا چاہئے تاکہ بعد میں کشیدگی جنم
نہ لے۔سوال ۔عام طور پر تنازعاتی کیس کے اختتام ہونے پر کتنا عرصہ درکار
ہوتا ہے۔جواب۔کیس کی نوعیت پر منحصر ہے ،کتنی تیاری کی گئی ہے ورثاء کی
تعداد ،املاک کی مالیت ،ورثاء کی موجودہ رہائش ،اندرون ملک یا بیرون ملک
وغیرہ عام طور پر کیس دائر ہونے کے چند ہفتوں بعد فیصلہ سنا دیا جاتا ہے
اور کشیدگی نہ ہونے کی صورت میں سوشل میڈیا مثلاً سکائپ وغیرہ پر بھی
معاملات طے پاتے ہیں لیکن یہ تمام ایڈجسٹمنٹ عدالت اپنے طور طریقوں سے کرتی
ہے۔ سوال۔کیا ایک بہت اچھا تحریر کردہ وصیت نامہ تنازعات کی روک تھا م کر
سکتا ہے ۔جواب ۔جی نہیں خود کا تحریر کردہ کسی قسم کا وصیت نامہ ناقابل
قبول ہے اور عدالت میں اسکی کوئی حیثیت نہیں ایک پیشہ ور مشیر کے ساتھ مل
کر تیار کردہ وصیت نامہ عدالت قبول کرتی ہے۔
زمین جائداد رشتہ داری میں دراڑ ڈالتی ہے جس سے کئی خاندان تباہ و برباد ہو
جاتے ہیں اصل وجہ وصیت نامہ ہوتا ہے،جو قبل از وقت یا موت تیار نہیں کیا
جاتا ،وصیت نامہ جائداد اور وراثت سے زیادہ اہم ہے،کیونکہ دنیا میں کئی
افراد ایک سے زائد شادیاں بھی کرتے ہیں اور جتنا بڑا خاندان ہو گا اتنے
زیادہ مسائل پیدا ہونگے ،بد اعتمادی اور نفرت جنم لے گی اور کوئی فرد ایک
پلیٹ فارم پر جمع نہیں ہوگا ہر کوئی اپنی مرضی سے جائداد کو فروخت کرنے کی
کوشش کرے گا اور دوسرے کا حق مارے گا زیادہ سے زیادہ منافع یا حصہ کی لالچ
میں ہر ناجائز اور غیر قانونی حربہ استعمال کرے گا تنازعات کی نوبت آئے گی
اور قتل و غارت اسکا انجام ہوگا،زمین جائداد وہیں رہے گی اور ورثاء اﷲ کو
پیارے ہو جائیں گے۔
|
|