جنوبی پنجاب میں جب بھی کوئی انسانی درندگی کا واقع رونما
ہوتا ہے ،تو میرا دل ہمیشہ کی طرح خون کے آنسو روتا ہے ، وہ اسلئے کہ یہاں
کچ یادیں ،کچھ باتیں آج بھی میرا تعاقب کرتے ہیں ، آج جی چاہ رہاہے کہ
قارئین !کو مظفر آباد کے مکینوں کے حالات کے بارے میں بتایا جائے ،مظفر گڑھ
کی آبادی 40لاکھ کے لگ بھگ ہے ،خاندان مغلیہ سے وجود میں آنے والے اس علاقے
میں آج بھی جاگیردارنہ،سرمایہ درانہ اورپنچائتی سسٹم ہے ،تھانے ،کچہری کی
سیاست کا بول بالا ہے ،نصف سے بھی زیادہ آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار
رہی ہے ، 17کلو میٹر پر پھیلے اس کے علاقوں کے مکین آج بھی معیاری تعلیم
،مناسب علاج اور پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں ،غربت کی ہم جولی جہالت کا
دورہ دورہ ہے ،یہاں کے دیہی علاقوں کے مکین آج بھی غلام ابن غلام ابن غلام
ابن غلام ہیں ،خواتین اور بچے کی بڑی تعداد کھیتوں ،انیٹوں کے بھٹوں اور
بااثر افراد کی پر تشددچاکری کرنے پر مجبور ہیں ،جبکہ ان سے کام لینے والے
جاگیر دار وڈیرے ،سرمایہ انہیں اجرت کی صورت میں اتنا کم معاوضہ دیتے ہیں
کہ بامشکل دووقت کی روکھی سوکھی روٹی میسر ہوتی ہیں ،یہاں کے بیشتر علاقے
ابھی بھی ٹرانسپورٹ سے محروم ہیں ،ٹبے اورکچے راستوں کی وجہ سے دوردراز کے
مکینوں کو آج بھی کئی کئی کلومیٹر تک پید ل چل کر شہر پہنچنا پڑتا ہے ،
مظفر گڑھ میرا رشتہ بہت پرانا ہے ، مجھے یہاں سیلاب سے متاثرین افراد کو
ریسکیو کرنے کا موقع ملا تو میری درجنوں راتیںاور دن اس کے پسماندہ علاقوں
میں گزریں ،فقیر ہیڈ محمد والا کی نہر کیسا بھول سکتا ہے ،جہاں گرمیو ں میں
جھلسا دینے والی ریت سے بچاؤ کیلئے ہم تمام دوست کئی کئی گھنٹے کنارے پر
بیٹھے پاؤں نہر میں لٹکائے بیٹھے رہتے اور مچھلیوں کا شکار بھی کرتے ،مجھے
سرائے کا وہ مرکز صحت بھی یاد ہے جس کی حالت زا اس قدر بوسیدہ تھی کہ اس کے
دروازے تک اترے ہوئے تھے ،مرکز صحت کا ڈاکٹرقسمت سے ہی ادھر کا رخ
کرتا،جبکہ مرکز کا سارا نظام ڈسپنسر کے سپرد تھا ، جو پورے سیاہ وسفیدکا
مالک تھا ،مجھے احمد پورسیال کے دونوں اطراف بھوری مٹی کے ٹیلے کیسے بھول
سکتے ہیں جہاں پاؤں رکھتے ہی آپ آدھے زمین میں دھنس جاتے ہیں ،ان بھوری مٹی
میں بچھوؤں اور خطرناک حشرات الازص اس قدر زیادہ ہوتے کہ اپنے بچاؤ کیلئے
ہمیں اپنی اپنی پتلونوں کے پانچے اپنی جرابوں میں ڈالنے پڑتے ، بھگوت
پرانا،بھارو کا مندر آج بھی میری آنکھوں میں نقش ہے ،چلیں چھوڑے ! اس کا
ذکر پھر کبھی سہی ،خیالوں کی رو نے مجھے کہاں جاکر جوڑ دیا ہے ،آئیے اصل
موضوع کی طرف تو یہ ہے کہ آج پھر کن مظفر گڑھ سٹی سے ایک دلخراش خبر آئی کہ
تھانے صدر کے کانسٹیبل کی زیادتی کا شکار ہونے والی 30سالہ سونیا نے انصاف
نہ ملنے پر خود پر پٹرول چھڑک کر آگ لگا لی ،اسے تشویشناک حالت میں ڈی ایچ
کیو ہسپتال مظفر گڑھ پہنچایا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہوسکی او ر وہاںپر پہنچ
گئی جہاں 13مارچ 2014ءکو لنڈی پتافی کی 18سالہ طالبہ آمنہ جاچکی ہے ، بتائے
جانیوالے خودساختہ خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے سونیا کے واقعہ پر
افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ایک بار پھر لواحقین کو انصاف کی یقین دہانی
کرواتے ہوئے تحقیقات کا حکم دے دیا ہے ،آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا نے بھی
واقعہ کا نوٹس تو لے لیا ہے اور غفلت برتنے والے ایس ایچ سو سٹی بلال کو
معطل بھی کردیا جبکہ مقدمے میں نامزد ایک ملزم اے ایس آئی انور ڈکھنا کو
گرفتار بھی کرلی گیاہے ،باقی ملزمان کی گرفتاری کیلئے چھاپے مارے جارہے ہیں
، یہ تو اس ملک میں قانون کے داؤ پیچ ہیں جو ہمیشہ سے چلتے رہیں گے ، سونیا
نے جہاں پہنچنا تھا وہ پہنچ گئی ،یہ مقدمہ بھی پتافی کی آمنہ کی طرح کے
دیگر کئی شکار سونیاؤں کی طرح چند دن چلے گا پھر بااثر افراد کی جانب سے
مدعی کو پیسے کی لالچ اور دھمکیاں دی جائیں گی ،بتائے جانے والے خادم اعلیٰ
پنجاب کے انصاف دلانے کی یقین دہانی اس کیس کی فائل کیساتھ ہی سردخانے میں
چلی جائی گئی ،کل کہیں اور کوئی دوسری سونیا شکار ہوگی تو میڈ یا میں ہم سب
اس سونیا کوبھول جائیں گے، باقی اﷲاﷲاورخیر صلہ۔۔۔۔پھر یہی کالی وردی میں
چھپے دندنے ،یہی انصاف کے دعویدار آئی جی اور ڈی پی اوہوں گئے ، جو دیگر
مقدمات کی تفتیش میں الجھ جائے گئے اور خودساختہ خادم اعلیٰ سے لیکر وہ
تمام افسران جو انصاف دلانے کی تسلیاں دے رہیں ہیں انہیں واقعہ یاد بھی
نہیں رہے گا ، پنچائت کی فیصلے کی بھیٹ چڑھنے والی جتوئی کی مختاراں مائی
سے لنڈی پتافی کی آمنہ اور سونیاجیسی خواتین اسی طرح بوسیدہ اورناکار ہ
سسٹم کے ہاتھوں سے لٹتی رہیں گی اور وزیر اعلیٰ پنجاب اسی طرح وقتی طور پر
نوٹس لیتے رہیں گے،اب تو سنا ہے کہ سونیا کیس کیلئے2 رکنی جوائنٹ انویسٹی
گیشن ٹیم بنادی گئی ، جو چندروز کاغذوں کا پیٹ بھر کر آرام سے بیٹھ جائے گی
اور پہلے کی طرح اس کیس سے بھی کچھ نہیں نکلے گا ۔ |