اگر تم نے ایٹمی پروگرام ترک
نہیں کیا تو تمہیں نشان عبرت بنا دیں گے۔ یہ الفاظ تھے امریکا کے پہلے
یہودی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کے جس نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد
بننے والے پاکستان کے پہلے وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو کے بارے میں کہے تھے۔
حسن اتفاق دیکھیں کہ انہیں دھمکی دینے والا تو آج بھی زندہ ہے لیکن جس کو
یہ دھمکی دی اسے دنیا چھوڑے 31 برس بیت گئے۔ بھٹو کا قتل ایک وحشی آمریت نے
بنیادی طور پر امریکی سامراج اور سرمایہ دارانہ نظام کے تحفظ اور تسلسل کے
لیے کیا تھا۔ تاہم آج اگر ہم ایٹمی قوت ہیں تو اس کا کریڈٹ بھٹو کو ہی جاتا
ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے کارناموں کی فہرست بھی چھوٹی نہیں۔ پاکستان کو
پہلے متفقہ آئین کا تحفہ دینے والے بھٹو کی 31 ویں برسی کے حوالے سے بھٹو
کی زندگی کے تمام پہلوﺅں کا جائزہ لیتے ہیں۔
ایٹمی پروگرام پر یہودی امریکی وزیر خارجہ کسنجر کی دھمکی کے جواب میں بھٹو
نے کہا تھا ”مسٹر ہنری کسنجر یہ پاکستانی قوم کا حق ہے اور پاکستانی قوم
اپنے حق سے دستبردار نہیں ہوسکتی، میں یہ پسند کروں گا کہ چند جرنیل میری
لاش کو سڑکوں پر کھینچتے پھریں، لیکن قوم سے غداری کر کے میں تاریخ کا مجرم
نہیں بنوں گا۔ بھٹو کا شمار بیسویں صدی میں جنوبی ایشیاء کے عظیم انقلابی
رہنماؤں میں ہوتا ہے جو نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے کروڑوں عوام میں
بے حد مقبول تھے۔ مسلم دنیا کے سربراہان انہیں خاص محبت اور قدر کی نگاہ سے
دیکھتے تھے۔ بھٹو پیدائشی لیڈر تھے جنہوں نے زمانہ طالب علمی ہی میں اس کی
جھلکیاں دکھانا شروع کر دی تھیں۔ ان کی جرات اور بے باکی کے یوں تو کئی
واقعات تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں، ان میں سے چند اس طرح سے تھے۔ 20اپریل
1945ء کو صرف سولہ سال کی عمر میں طالب علمی کے زمانے میں انہوں نے قائد
اعظم محمد علی جناح کو خط لکھ کر اپنی وفاداری اور ملک کیلئے جان دینے کے
عزم کا اظہار کیا، اور واقعتاً وہ ملک پر قربان ہو گئے۔ 1963ء میں وائٹ
ہاؤس میں امریکی صدر کینڈی سے ملاقات میں امریکی صدر اِس قدر متاثر ہوئے کہ
انہوں نے بھٹو سے کہا کہ ”اگر آپ امریکن ہوتے تو میری کابینہ میں وزیر ہوتے
“جس پر بھٹو نے کہا ”مسٹر پریذیڈنٹ محتاط رہیں اگر میں امریکن ہوتا تو آپ
کی جگہ ہوتا“۔ پاکستان کے نوجوان وزیر خارجہ کی بلا کی ذہانت، خود اعتمادی
اور بے باکی نے امریکی صدر کو ہلا کر رکھ دیا اور اسی دن سے امریکی
ایجنسیوں نے بھٹو کے نام کے گرد سرخ دائرہ لگا دیا۔ بھٹو کو 1957ء میں 29
سال کی عمر میں پہلی بار اقوام متحدہ میں پاکستانی وفد کے سب سے کم عمر رکن
ہونے کا اعزاز ملا۔ ان کی ذہانت دیکھتے ہوئے سکندر مرزا نے انہیں اپنی
کابینہ میں بطور وزیر شامل کیا، 28اکتوبر 1958ء کو جنرل ایوب خان نے وزیر
معدنیات مقرر کیا، اور 23جنوری 1963ء کو وزیر خارجہ محمد علی بوگرہ کے
انتقال کے بعد بھٹو کو وزارت خارجہ کا قلم دان سونپ دیا گیا۔ بھٹو نے
سلامتی کونسل میں پاکستان کا مقدمہ لڑتے ہوئے تاریخی تقریر کی، اور مسئلہ
کشمیر پر بولتے ہوئے اقوام عالم کو مخاظب کرتے ہوئے کہا کہ ”ہم ہزار سال تک
جنگ لڑیں گے“۔ جنگ کے میدانوں میں جیتی ہوئی بازی جنرل ایوب خان نے تاشقند
میں مذاکرات کی میز پر ہار دی، تو دلبرداشتہ بھٹو نے 16جون 1966ء کو وزارت
سے استعفیٰ دے دیا ۔
اس کے بعد بھٹو نے 30 نومبر 1967ء کو پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی
اور سقوط ڈھاکہ کے بعد 20دسمبر 1971ء باقی ماندہ پاکستان کی باگ دوڑ
سنبھالی۔ لالچ، دھونس، دھاندلی اور دھمکیوں کے باوجود بھٹو نے پاکستان کی
سالمیت، استحکام، ترقی اور عوام کی خدمت کا پرخار راستہ منتخب کیا۔ان کے
دور حکومت کا سب سے بڑا کارنامہ 7ستمبر 1974ء کو قادیانیوں کو غیر مسلم
اقلیت قرار دینا اور 10اپریل 1973ءکو متفقہ آئین کی منظوری تھا۔1974 میں
بھارت کے پہلے ایٹمی دھماکے کے بعد وہ بہت پریشان تھے اور پاکستان کو
دفاعی، سیاسی اور اقتصادی لحاظ سے مضبوط دیکھنا چاہتے تھے۔ آخرکار اس عہد
کے ساتھ ایٹمی پروگرام شروع کیا، اور اس عزم کا اظہار کیا کہ ہمیں چاہے
گھاس کھانا پڑی کھا لیں گے لیکن ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔ ایک بار امریکی
صدر جانسن نے بھٹو سے کہا تھا کہ ”ہمارے راستے سے ہٹ جاؤ، تمہیں جتنی دولت
چاہیے، وہ دنیا کے جس حصے میں چاہو گے مل جائے گی“ اِس موقع پر بھٹو نے
قومی غیرت اور جذبہ حب الوطنی سے لبریز جواب دیتے ہوئے امریکی صدر جانسن کو
کہا تھا کہ”ہم غیرت مند قوم ہیں کوئی بکاؤ مال نہیں۔ لیکن افسوس کہ آج
ہمارے یہاں امریکا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے والا ایک بھی لیڈر
نہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دونوں بیٹے پر اسرار طور پر مار دئیے گئے، لیکن
انہوں نے مرنے سے پہلے اپنی بیٹی بے نظیر بھٹو کو قائدانہ رموز سکھا دئیے
تھے۔ بے نظیر بھٹو نے کسی ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم بننے کا اعزاز حاصل
کیا،تاہم 27 دسمبر 2007ء کو انہیں شہید کر دیا گیا۔ قوم پر ذوالفقار علی
بھٹو کے بہت احسانات ہیں، لیکن ان جیسے رہنماؤں کی کمی ہے۔ |