ازلی دشمن قسط:٢

وہ کمال بے نیازی اور طمطراق سے بار بار یہ اعلان کررہی ہے کہ کالاباغ ڈیم کا منصوبہ ہمیشہ کیلئے سرد خانے کی نذر ہو چکا ہے اور اسے سورج کی روشنی دیکھنی کبھی نصیب نہ ہوگی۔ کال اباغ ڈیم کی ترکِ تعمیر کی تصویر کا ایک افسوسناک رخ اوپر دیکھا جاچکا ہے اس کا دوسرا بھیانک رخ کفران نعمت ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھوک اور خوف کے عذاب کا کوڑا پوری قوم پر برس رہا ہے تصویر کا یہ رخ بھی ملاحظہ ہو۔ قیامت کے دن انسان کو ان نعمتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کو حساب دینا پڑے گا کہ اس نے ان کو کس طرح استعمال کیا اپنے عمل سے ان کا شکر ادا کیا تھا یا نہیں ۔ فرمان باری تعالیٰ”پھر ضرور تم سے اس روز(قیامت) ان نعمتوں کے بارے میں جواب طلبی کی جائے گی “(التکاثر۔۸)

امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب”مذاق العارفین“ کے ترجمہ”احیاءعلوم الدین جلد چہارم باب (صبر وشکر) میں لکھتے ہیں۔(نعمتیں)

”گیہوں کی غذا کیلئے چار چیزیں (نعمتیں) یعنی ہوا، پانی، زمین اور گرمی درکار ہیں، پانی کے لئے ضروری ہے کہ وہ دریاﺅں، چشموں، نہروں اور نالیوں سے کھیت میں جائے۔ دیکھو کس طرح بادل(نعمت) پیدا کئے اور کیسے ان پر ہوا کو مسلط کردیا کہ خدا کے حکم سے انہیں زمین پر لئے پھرتے ہیں اور حاجت کے مطابق مقامات پر برسیں اور پہاڑوں(نعمت) کو دیکھو ان کو پانی کا محافظ بنایا پہاڑوں اور بادلوں، سمندروں اور بارشوں میں اللہ کی اتنی نعمتیں ہیں کہ ان کا شمار نہیں کیا جاسکتا“ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ”اور اس وقت کو یاد کرو جب تمہارے پروردگار نے اعلان کیا کہ اگر شکر گزاری کرو گے تو تم پر (نعمت) کا اضافہ کروں گا اور اگر کفرانِ نعمت کرو گے تو میرا عذاب سخت ہے“(ابراہیم ۔۷)

جیسا کہ اوپر واضح کیا گیا ہے کہ ہر نعمت(جو اسے دی گئی) کے بارے میں قیامت کے دن انسانوں سے پوچھا جائے گا۔ شکر ادا کرنے والوں کو اچھی جزا ملے گی اور کفرانِ نعمت کرنے والوں کے لیے سخت عذاب ہوگا۔ جرم کی کچھ سزا اس دنیا میں بھی ملے گی ، اپنے عذاب کا تھوڑا سا نمونہ اللہ تعالیٰ نے مندرجہ ذیل فرمان میں دیا ہے۔”اللہ تعالیٰ ایک بستی کی مثال دیتا ہے وہ امن اور اطمینان کی زندگی بسر کررہی تھی اور اسے بافراغت رزق پہنچ رہا تھا پھر اس نے اللہ کی نعمتوں کا کفران شروع کردیا۔ تب اللہ تعالیٰ نے اس کے باشندوں کو ان کے کرتوتوں کا یہ مزہ چکھایا کہ بھوک اور خوف کی مصیبتیں ان پر چھا گئیں(سورة النحل:۱۱۲)

یہی معاملہ ہمارے ساتھ پیش آیا ہے، پانی کی نعمت کو جمع کر کے استعمال کرنے کی بجائے ہم اسے سمندر میں پھینک کر کفرانِ نعمت کے مرتکب ہوئے۔ شروع میں یہ ناشکری مختلف افراد کی تھی پھر اس کا زہر صوبوں میں پھیلنا شروع ہوا۔ سب سے پہلے اس کثیر القاصد منصوبے کے خلاف آواز صوبہ سرحد نے اٹھائی، پھر ان کی ہاں میں ہاں سندھ اور بلوچستان نے ملائی۔ اللہ تعالیٰ اس ناشکری کو نظر انداز کرتا رہا اور اپنے عذاب کے کوڑے کو روکے رکھا لیکن جب موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی یہ اعلان کردیا کہ کالا باغ ڈیم تعمیر نہیں کیا جائے گا کیونکہ تین صوبے اس کی مخالفت کررہے ہیں تو یہ اعلان ملت کا فیصلہ بن گیا۔ اب اس غلط فیصلے کی در گزر یا معافی ممکن نہیں تھی۔ اس صورت حال کی ترجمانی شاعر ملت علامہ اقبال نے یوں کی ہے:
فطرت افراد سے اغماض تو کر لیتی ہے
کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف

اب اللہ کے عذاب کا کوڑا حرکت میں آگیا اور قوم پر بھوک اور خوف کے سائے پڑنے لگے، سب سے پہلے لوڈشیڈنگ(جو بھوک کی معاون ہے) نے نہ صرف زراعت اور صنعت وحرفت کو متاثر کیا بلکہ مزدوروں کے ہاتھ سے مزدوری بھی چھن گئی۔ مزدوری کرنے والے ہاتھ لوگوں کے سامنے پھیلنے لگے۔ قوم کا ایک بڑا طبقہ بھوک کی لپیٹ میں آگیا ہے۔ مہنگائی کا عفریت سرعام بازاروں میں ناچنے لگا اس سے متوسط سفید پوش طبقہ بھی متاثر ہوا۔ ملک میں84 شوگر ملوں کے باوجود چینی نایاب ہو گئی۔ اس سال گندم کی غیر معمولی وافر پیداوار ہونے کے باوجود آٹے کی قلت ہوگئی۔ آئیں اب ہم بحیثیت قوم اور حاکم اس بات کا جائزہ لیں کہ کس طرح سے ہم کالا باغ ڈیم کی تعمیر ترک کر کے کفران نعمت کے مرتکب ہوئے ہیں اور اس وجہ سے ہم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھوک اور خوف کا کوڑا برس رہا ہے۔ جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے کہ انسان پر اللہ تعالیٰ کی لاتعداد نعمتوں کا شمار نہیں کیا جاسکتا اور ان کا حساب اسے اس دنیا اور آخرت میں دینا ہے۔ پانی اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہے اس کی وسعت کا اندازہ صرف اس بات سے لگائیں کہ یہ نعمت کرہ ارض پر اس کے تین چو تھائی حصے پر محیط ہے۔ انسانوں حیوانوں اور نباتات کی زندگی اور بقا اس کی مرہون منت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ ”ہر چیز (انسانوں، حیوانوں، نباتات) کی زندگی کا دارومدار پانی پر ہے(کیا وہ ہماری اس خلاقی کو نہیں مانتے)(الانبیاء۔۰۳)

برصغیر کی تقسیم کے بعد بھارت اپنی عیاری اور زیر اثر ممالک کی مدد اور جانبدار ثالث کی اعانت سے تین دریاﺅں یعنی ستلج، بیاس اور راوی کا سارا پانی مکمل طور پر اپنے تسلط میں لینے میں کامیاب ہوگیا۔ یاد رہے کہ مذکورہ تین دریاﺅں کی سالانہ پانی کی اوسط مقدار32ملین ایکڑ فٹ تھی۔ اس میں سے 23ملین ایکڑ فٹ پانی پاکستان کی نہروں کا حصہ تھا اور صرف9ملین ایکڑ فٹ پانی بھارت کے حصہ کا تھا لیکن یہ سارا پانی بھارت لے گیا یعنی دم ہاتھی کو گھسیٹ کر لے گئی بقیہ تین دریاﺅں یعنی چناب، جہلم، اور سندھ کا پانی پاکستان کی نہروں کیلئے وقف کیا گیا اس کے استعمال کے لئے پاکستان کو دو ڈیم کئی ہیڈورکس اور بہت سی رابطہ نہروں کا جال بچھانا پڑا۔ ان تین دریاﺅں کی سالانہ پانی کی اوسط مقدار140ملین ایکڑ فٹ ہے۔

اس وقت چاروں صوبوں کی نہریں اس میں سے تقریباً104ملین ایکڑ فٹ سالانہ استعمال کررہی ہیں اور ہر سال اوسطاً36ملین ایکڑ فٹ پانی پچھلے 50سال سے سمندر میں گر کر ضائع ہو رہا ہے۔ پانی کی یہ مقدار غیر معمولی ہے اگر اسے پوری طرح استعمال کیا جائے تو اس سے 72لاکھ ایکڑ نئے رقبہ جات سیراب کئے جا سکتے ہیں ۔ پانی کی مقدار دو بڑے ڈیموں یعنی بھاشا(جو زیر تعمیر ہے) اور کالا باغ جو پس پشت ہے کی ذخیرہ اندوزی کی استطاعت سے بمقدار 24ملین ایکڑ فٹ وافر ہے لیکن یہ دونوں ڈیم تعمیر کر کے کفران نعمت کی حد میں کچھ کمی کر سکتے ہیں کیا یہ ناشکری نہیں ہے کہ ہمارے پاس کالاباغ کے مقام پر:
-1پہاڑوں کی نعمت موجود ہے۔
-2دریائے سندھ اپنی گود میں پانی کی نعمت کی وافر مقدار لیے بہہ رہا ہے۔
-3اپنے ملک کے نامور انجینئرز کی فنی مہارت کی نعمت دستیاب ہے۔
-4ڈیم کی تعمیر کیلئے مالی وسائل کی نعمت آسانی سے مہیا ہو سکتی ہے۔

اور پھر بھی ان نعمتوں کو استعمال میں نہ لا کر گراں قدر پانی کی نعمت کو سمندر میں پھینک کر ضائع کر رہے ہیں اس کوتاہی کا حساب اصحاب بست وکشاد اور عوام کو قیامت کے دن دینا ہوگا۔ عوام جن کی وساطت سے حاکموں کو اقتدار سونپا گیا تھا انہوں نے اپنے نمائندوں کو ان کی دانستہ کوتاہی پر ان کا محاسبہ نہ کیا۔
پاکستان میں آبی ذخائر کی تعمیر نہ ہونے اور بھارت کی طرف سے سندھ طاس معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جہلم اور چناب کے دریاﺅں کا پانی روک کر پاکستان میں پانی کی فراہمی کو بری طرح متاثر کیا گیا ہے گو آبی ذخائر کی تعمیر نہ کرنا ہمارے ماضی اور موجودہ حکمرانوں کی ایک قومی اور مجرمانہ غفلت ہے مگر بھارت کی آبی جارحیت کو ہم کیسے نظر انداز کر سکتے ہیں ۔ بھارت کو یہ جرات کیسے ہو رہی ہے کہ وہ ڈیمز پر ڈیمز تعمیر کر کے دریائے سندھ ،چناب اور جہلم کا پانی استعمال شروع کردے۔ بھارت کی اس آبی جارحیت پر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جب بگلیہار ڈیم کی تعمیر کے متنازع منصوبے پر پاکستان عالمی عدالت میں گیا اور اقوام متحدہ کے نمائندے نے معمولی سی ترمیم کے بعد بھارت کو یہ ڈیم تعمیر کرنے کی اجازت دی تو پاکستان کے حکمران بھارت کے خلاف برسرپیکار ہو کر اس منصوبے پر میزائل داغتے اور بھارت کو باور کرایا جاتا کہ اگر وہ باز نہ آیا تو پھر تمام تر ذمہ داری خود بھارت پر عائد ہوگی مختلف حلقے سوال کررہے ہیں کہ بھارت کی آبی جارحیت اقوام متحدہ کے فیصلے کے بالکل برعکس اور خلاف ہے مگر پاکستان کی طرف سے آواز بلند کئے جانے کے باوجود اقوام متحدہ کے ذمہ داران اور عالمی عدالت کے جج کہاں سوئے ہوئے ہیں۔ لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ وہ بھارت کی آبی جارحیت کے خلاف اب فوری طور پر اپنا حقیقی کردارادا کرنا شروع کردے وگرنہ آئندہ دنوں میں بھارت کی آبی جارحیت کے سلسلے میں تمام آبی ذخائر کی تکمیل ہونے پر بھارت کے ساتھ ہمارے حالات کسی طور پر ساز گار نہیں ہو سکتے جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتا تب تک بھارت اور پاکستان کے درمیان حالات ساز گار نہیں ہوسکتے اور بھارت نے جو آبی جارحیت شروع کر رکھی ہے اس کا توڑ بھی صرف اور صرف مسئلہ کشمیر کا حل ہے۔ کشمیر پاکستان کا حصہ ہے اور اسے زور بازو حاصل کرنا پاکستان کا حق ہے پاکستان کے حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ کشمیر میں بھارتی فوج کے ظلم وستم سے کشمیری عوام کو نجات دلاتے ہوئے اسلام کی رو سے جہاد کے مطابق اپنا کردار ادا کرنا شروع کردیں کہ اب وقت کی یہی پکار ہے۔ کشمیر میں مجاہدین کو بھارت کی آبی جارحیت اور کشمیر میں بھارت کی طرف سے ڈھائے جانے والے ظلم وستم کے خلاف ماضی کی شدت اور جذبے کے ساتھ وسائل فراہم کر کے برسر پیکار کرنے کی ضرورت ہے۔ مجاہدین مقبوضہ کشمیر میں اب بھی اہم کردار ادا کررہے ہیں مگر اگر ہماری حکومت اپنا موٹو اور حقیقت کو پہچان کر مجاہدین کو مزید متحرک کرے تو یہ بھارت کی آبی جارحیت کے سلسلے میں پہلا جواب ہوگا جسے اینٹ کا جواب پتھر سے قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت فوری طور پر امریکی حصار سے باہر نکل کر اپنی خودمختار اور آزاد داخلی وخارجی پالیسیاں تشکیل دے اور بھارت کے ساتھ برابری کی بنیاد پر اس کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کی جائے۔ دراصل بھارت ہی ہمارازلی دشمن ہے اور بھارت کے خلاف ہر محاذ پر برسرپیکار رہنا ہماری اصل جنگ ہے۔ افغانستان کے نہتے عوام اور طالبان پر امریکہ یہودی لابی کے اشاروںپر ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے اور مسلسل ناکام ہے جبکہ امریکہ بھارت اور اسرائیل ہی طالبان کو بدنام کرنے کے لئے اندرون ملک پاکستان میں دہشت گردی کروا کے طالبان کا نام بدنام کررہے ہیں اور اسے ہماری جنگ بنانے کی سازشوں میں مصروف ہیں مگر حکمران اگر اپنی حقیقت کو پہچان کر بھارت کی آبی جارحیت پر بھارت کے ساتھ صرف کشمیر کے محاذ پر برسرپیکار ہو جائیں تو اس خطے میں امریکی مداخلت کا باب ختم کرنے کے ساتھ ساتھ بھارت کی صورت میں اسرائیل کی تمام اسلام دشمن سازشوں کو بھی ناکام کیا جاسکتا ہے” ہلمند آپریشن “ اور حالیہ ”آپریشن مشترک “میں امریکی فوج کی مسلسل ناکامی کے بعد ایسے حالات واضح ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔
Haroon
About the Author: Haroon Read More Articles by Haroon: 13 Articles with 15775 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.